You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سُوال:دَيُّوث کسے کہتے ہيں؟
جواب:جو لوگ باوُجُود ِقدرت اپنی عورَتوں اور مَحارِم کو بے پردَگی سے مَنْع نہ کريں وہ'' دَیُّوث'' ہيں۔رَحمتِ عالميان ،سلطانِ دوجہان صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے، تين شخص کبھی جنّت ميں داخل نہ ہوں گے دَیُّوث اور مَردانی وَضْع بنانے والی عورت اور شراب نوشی کا عادی۔
(مجمعُ الزَّوائد ج ۴ ص ۵۹۹حدیث۷۷۲۲ )
مَردوں کی طرح بال کٹوانے اور مَردانہ لباس پہننے والیاں اِس حدیثِ پاک سے عبرت حاصِل کریں،چھوٹی بچّیوں کے لڑکوں جیسے بال بنوانے اور انہیں لڑکوں جیسے کپڑے اور ہَیٹ وغیرہ پہنانے والے بھی احتیاط کریں تا کہ بچی اسی عمر سے اپنے آپ کو مردوں سے ممتاز سمجھے اور ہوش سنبھالنے اور بالغہ ہونے کے بعد اس کو اپنی عادات و اطوار شریعت کے مطابق بنانے میں مشکلات درپیش نہ آئیں۔ حدیثِ پاک میں یہ جو فرمایا گیا کہ کبھی جنّت میں داخِل نہ ہوں گے۔ یہاں اِس سے طویل عرصے تک جنّت میں داخِلے سے محرومی مُراد ہے۔ کیوں کہ جو بھی مسلمان اپنے گناہوں کی پاداش میں مَعاذَاللہ عَزَّوَجَلَّ دوزخ میں جائیں گے وہ بِالآخِر جنّت میں ضَرور داخِل ہوں گے۔مگر یہ یا د رہے کہ ایک لمحے کا کروڑواں حصّہ بھی جہنَّم کا عذاب کوئی برداشت نہیں کرسکتا لہٰذا ہمیں ہرگناہ سے بچنے کی ہردم کوشِش اور جنّتُ الفِردوس میں بے حساب داخِلے کی دُعاء کرتے رَہنا چاہئے۔دَیُّوث کے بارے میں حضرتِ علامہ عَلاؤالدّين حَصْکَفِی عليہ رحمۃ القوی فرماتے ہيں، دَیُّوث وہ شخص ہوتا ہے جو اپنی بیوی يا کسی مَحرم پرغَیرت نہ کھائے ۔
(دُرِّمُختارج۶ ص ۱۱۳)
معلوم ہوا کہ باوُجُودِ قدرت اپنی زَوجہ ،ماں بہنوں اور جوان بیٹیوں وغیرہ کو گلیوں بازاروں ،شاپنگ سینٹروں اورمَخْلُوط تفریح گاہوں میں بے پردہ گھومنے پھر نے، اجنبی پڑوسیوں،نامَحرم رشتے داروں ، غیرمَحرم ملازِموں، چوکیدار وں اور ڈرائیوروں سے بے تَکلُّفی اور بے پر دَ گی سے مَنع نہ کرنے والے دَیُّوث، جنّت سے محروم اور جہنَّم کے حقدار ہيں۔میرے آقا اعلیٰ حضرت، امامِ اہل سنّت، مُجَدِّدِ دين وملّت مولانا شاہ احمد رضا خان عليہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہيں،
دَیُّوث سخت اَخْبَثِ فاسِق (ہے) اور فاسقِ مُعلِن کے پیچھے نَماز مکروہِ تحریمی۔ اسے امام بنا نا حلال نہيں اور اسکے پیچھے نَماز پڑھنی گناہ اور پڑھی توپَھیرنا واجِب ۔
(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۶ ص ۵۸۳)
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں،
اکبرؔ زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑگیا
پوچھا جواُن سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا؟
کہنے لگیں، وہ عقل پہ مَردوں کی پڑ گیا!
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.