You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
فضائل ذوالنورین احادیث کی روشنی میں
اسلامی سال کا آغازقربانیِ عمر فاروق۔۔۔اختتام قربانیِ عثمان ذوالنورین پر رضی اللہ عنہما
عتیق الرحمن رضوی، نوری مشن مالیگاؤں
’’عثمان ‘‘کنیت ابو عمر اور لقب ذوالنورین ہے ۔ سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرۂ نسب سے مل جاتا ہے۔ تاریخ اسلام آپ کی قربانیوں اور تبلیغِ اسلام کے تئیں آپ کی سخاوتوں کی شاہد ہے۔ آپ کو دربار رسالت علیہ التحیۃ والثناء میں خاص مقام و مرتبہ حاصل تھا۔ جس کا اندازہ اس امر سے بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے کہ مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے یکے بعد دیگرے اپنی دو صاحب زادیوں کو آپ کے نکاح میں دیا۔ جس سے آپ کا لقب ’’ذوالنورین‘‘ ہو۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کے بعد پہلے شخص ہیں۔ آپ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ کاتبِ وحی ہیں۔ تمام صحابیہ میں مناسک حج کے سب سے بڑے عالم ہیں۔ اپنی جان دے دینا مگر حضور کی امت پر تلوار نہ اُٹھانا آپ کا عظیم طرۂ امتیاز ہے۔ اسی لیے تمام صحابہ سب سے زیادہ صابر مشہور ہیں۔ صفات حسنہ اور وجاہت وخوب صورتی کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قریش کی ہر شاخ میں اس حد تک محبوبیت اور ہر دل عزیزی حاصل تھی کہ عورتیں گھروں میں اپنے بچوں کو لوریاں دیتے ہوئے کہا کرتیں:’’ رب کعبہ کی قسم ! میں تجھ سے ایسی محبت کرتی ہوں ،جیسی قریش عثمان سے۔‘‘اسی وجہ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش مکہ سے مذاکرات کے لئے حضرت عثمان کو روانہ فرمایا۔ اور پیر غلام رسول قادری نقشبندی تاریخ الخلفاء اور طبرانی کبیر کے حوالے سے آپ کے جمال و خوب صورتی سے متعلق رقم طراز ہیں کہ:
’’ تمام صحابہ میں سب سے زیادہ خوب صورت تھے، خواہ مرد ہوں یا خواتین۔‘‘ (خلفائے راشدین: پیر غلام رسول قادری،ص69، مطبوعہ سرگودھا)
الغرض کتبِ سیر وتاریخِ اسلام کے لب آپ کے کمالات، خدمات، احسانات، اور فضائل و مناقب سے تر ہیں۔ یہاں چند فرامینِ مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم پیش کیے جاتے ہیں جو سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مقام کا پتہ دیتے ہیں۔
حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں:
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سُناکہ اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں یکے بعد دیگرے عثمان کے نکاح میں دیتا۔‘‘ (خلفائے راشدین: پیر غلام رسول قادری،ص70، مطبوعہ سرگودھا)
ترمذی شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام حدیبیہ میں بیعت رضوان کا حکم فرمایا اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کی حیثیت سے مکہ معظمہ گئے ہوئے تھے ۔لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی ۔جب سب لوگ بیعت کر چکے تورسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی طرف سے خود بیعت فرمائی۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک ہاتھ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے لئے ان ہاتھوں سے بہتر ہے جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے لئے بیعت کی۔
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی بخاری علیہ الرحمۃ اشعۃ اللمعات میں اس حدیث کے تحت تحریر فرماتے ہیں کہ سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک کو حضر ت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیا ۔یہ وہ فضلیت ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہے ۔یعنی اس فضیلت سے ان کے سوا اور کوئی دوسرا صحابی کبھی مشرف نہیں ہوا۔ یہی وجہ تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحب زادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کا عقد نکاح آپ رضی اللہ عنہ سے کیا تو آپ نے فرمایا:احسن زوجین راٰھما انسان رقیۃ و زوجھا عثمان۔’’بہترین جوڑا جسے انسان نے دیکھا ہے حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا اور ان کے خاوند حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘
جملہ فضائل وخصائص کے باوجود جس طرح کہ صداقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عدالت حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا امتیاز ہے ،اسی طرح حیاء حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے خاص ہو گیا ۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی صفتِ حیاء کے بارے فرمایا:عثمان احیٰ امتی و اکرمھا۔’’میری امت میں سب سے زیادہ حیا دار اور بزرگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘
حضرت زید رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’عثمان میرے پاس سے گزرے تو مجھ سے ایک فرشتے نے کہا کہ مجھے ان سے شرم آتی ہے کیونکہ قوم ان کو قتل کر دے گی تو آپ نے فرمایا کہ جس طرح حضرت عثمان خدا اور اس کے رسول سے حیاء کرتے ہیں ،فرشتے بھی ان سے حیا کرتے ہیں ۔‘‘
آپ کم سخن اور کم گوتھے ۔شہادت کے وقت جب محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہما نے آپ کی داڑھی پکڑی تو اس وقت آپ نے محمد بن ابو بکر رضی اللہ عنہما کے باپ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ یار غار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حیاء کرتے ہوئے ان کے بیٹے کو فرمایا:’’اگر تیرا باپ تجھے یہ حرکت کرتا دیکھ لیتے تو کیا فرماتے؟‘‘
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں اپنی پنڈلیاں کھولے بیٹھے تھے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حاضری کی اجازت چاہی ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلالیا اور اسی طرح لیٹے رہے ۔پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی ،حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی بلالیا اور اسی طرح لیٹے رہے ۔پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی ،تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور کپڑوں کو درست فرمالیا ۔ پھر جب لوگ چلے گئے تو میں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے عرض کیا کہ ابو بکر آئے تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے جنبش نہ کی ۔اسی طرح لیٹے رہے پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ آئے حضورصلی اللہ علیہ وسلم تب بھی لیٹے رہے اور پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور کپڑوں کو درست کر لیا ۔(تو اس کا کیا سبب ہے؟) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’میں اس شخص سے کیوں نہ حیا کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔‘‘
ایک اور روایت میں ہے :’’کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں ۔اس ذات کی قسم! جس کے قبضے میں میری جان ہے فرشتے جس طرح اللہ اور اس کے رسول سے حیا کرتے ہیں ،اسی طرح عثمان رضی اللہ عنہ سے حیا کرتے ہیں۔اگر وہ اندر آجاتے تو تم میرے قریب ہوتیں تو وہ بات نہ کرتے اور اپنا سر اٹھاتے ۔حتیٰ کہ باہر چلے جاتے ۔‘‘
یہ شرم و حیاء کے پیکر نگاہِ نبوت میں ممتاز اس عظیم صحابی رسول کو بلوائیوں نے 40 ؍ دن تک محصور رکھا، دیگر اصحابِ کرام آپ سے اصرار کرتے رہے کہ ان سے مقابلہ کرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ مگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہی تھے جنہوں نے فتنوں کے ڈر سے قربت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ نا گوارا نہ کیا اور اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر کو مسلمانوں کے خون سے رنگین ہونے سے بچا لیا اور اپنی عمر کے 82سال میں سے 12سال فریضہ خلافت نبھانے کے بعد 18ذی الحجہ 35ہجری کو جام شہادت نوش فرمایا اور حیاء سخاوت ،ایثار، صبر، حلم کی اعلیٰ روایات قائم کر گئے ۔
شہادت عثمان غنی رضی اللہ عنہ تاریخ اسلام کا عظیم ترین سانحہ ہے۔ اگر سوگ اسلام میں جائز ہوتا تو بڑے اعلیٰ پیمانے پر عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سوگ منایا جاتا۔ کچھ لوگ اپنے جھوٹے مذہب کی تشہیر کے لیے واقعہ کربلا کا سوگ مناتے ہیں۔ مگر اہل سنت کا یہ طریقہ نہیں۔ بعض اوقات مثال دی جاتی ہے۔ کہ اسلامی سال کا آغاز قربانی سے ہے، اور اختتام بھی قربانی سے۔ آغاز سے مراد واقعہ کربلا اور اختتام سے مراد عید قربان لی جاتی ہے۔ ہمیں یہ نقطہ بھی ملحوظِ نظر رکھنا چاہیے۔ کہ واقعہ کربلا سے پہلے یکم محرم کو حضرت فاروق اعظم کی شہادت سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔ اور عید قرباں کے بعد 18؍ ذوالحج کو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت سے اسلامی سال کا اختتام ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اسوۂ صحابہ رضی اللہ عنہم پر عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔آمین
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.