You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
قرآن مجید میں مبارک درخت سے مرادزیتون'' کا درخت ہے۔ طوفانِ نوح علیہ السلام کے بعد یہ سب سے پہلا درخت ہے جو زمین پر اُگا اور سب سے پہلے جہاں اُگا وہ کوہِ طور ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا سے ہم کلام ہوئے۔ زیتون کے درخت کی عمر بہت زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض عالموں نے فرمایا ہے کہ تین ہزار برس تک یہ درخت باقی رہتا ہے۔
(تفسیر صاوی، ج۴، ص ۱۳۶۰، پ۱۸، المومنون:۲۰)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے فرمایا کہ زیتون میں بہت سے فوائد اور منفعتیں ہیں۔ اس کے تیل سے چراغ جلایا جاتا ہے اور یہ بطور سالن کے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی سر اور بدن پر مالش بھی کرتے ہیں اور یہ چمڑے کی دباغت میں بھی کام آتا ہے اور اس سے آگ بھی جلاتے ہیں اور اس کا کوئی جزو بھی بیکار نہیں۔ یہاں تک کہ اس کی راکھ سے ریشم دھو کر صاف کیا جاتا ہے اور یہ حضرات انبیاء علیہم السلام کے مکانوں اور مقدس زمینوں میں اُگتا ہے اور اس کے لئے ستر انبیاء کرام نے برکت کی دعا مانگی ہے۔ یہاں تک کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اور حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس دعاؤں سے بھی یہ
درخت سرفراز ہوا ہے۔ (تفسیر صاوی، ج۴، ص ۱۴۰۵، پ۱۸،نور:۳۵)
اللہ تعالیٰ نے اس مبارک درخت کے بارے میں ارشاد فرمایا :
ترجمہ کنزالایمان:۔اور وہ پیڑ پیدا کیا کہ طورِ سینا سے نکلتا ہے لے کر اُگتا ہے تیل اور کھانے والوں کے لئے سالن۔(پ18،المومنون:20)
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
ترجمہ کنزالایمان:۔روشن ہوتا ہے برکت والے پیڑ زیتون سے جو نہ پورب کا نہ پچھم کا۔(پ18،النور:35)
درسِ ہدایت:۔زیتون ایک بڑی برکتوں والا درخت ہے یوں تو ہر جگہ یہ درخت بغیر کسی محنت اور پرورش کے ہوتا ہے لیکن خاص طور پر ملک شام اور عام طور پر ملک عرب میں بکثرت پایا جاتا ہے اور ان مقامات پر اس کا تیل بھی لوگ کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ مکہ مکرمہ میں گوشت اور مچھلی بھی اسی تیل میں تل کر لوگ کھاتے ہیں۔ اس کے تیل کو عربی میںزیت'' کہتے ہیں اور یہ تیل بیچنے والازیات'' کہلاتا ہے۔ اگر مل سکے تو مسلمانوں کو چاہے کہ تبرکاً اس کا استعمال کریں کیونکہ قرآن میں اس کو مبارک درخت فرمایا گیا ہے اور ستر انبیاء کرام نے اس میں برکت کے لئے دعائیں فرمائی ہیں۔ لہٰذا اس کے بابرکت ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں اور جب بابرکت چیز ہے تو اس میں یقینا فوائد و منافع بھی بہت زیادہ ہوں گے۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.