You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
مروجہ تعزیہ داری اور مجدداسلام امام احمدرضا بریلوی
*****************************************
ڈاکٹر محمد حسین مُشاہدؔ رضوی
--------------------------------------
مجدداسلام امام احمدرضا بریلوی کی دور رس نگاہیں زمانے پر تھیں وہ جانتے تھے کہ زمانہ متحرک ہے ، کائنات کی ہر شَے متحرک ہے ، روزانہ نت نئی ایجادات ہورہی ہیں ۔ آج کے دور میں صحیح طرز پر جینا دوبھر نظر آتا ہے۔ اسلام دشمن عناصر اسلامی اقدار کا "نام نہاد مسلمانوں " کے ذریعے استحصال کررہے ہیں ایسے مواقع پر ہمیں چاہیے کہ ہم امام احمدرضا کے کرداروعمل کی روشنی میں رہنمائی حاصل کریں! آج بہت سے لوگ ایسے ہیں جوقومی پرچم کی سلامی اور قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہوتے ہیں لیکن جب مصطفیٰ جانِ رحمت ﷺ پر درور و سلام کی بات آتی ہے تو اسے بدعت قرار دیتے ہیں، من چاہتا ہے تو دین کی بات کرتے ہیں نہیں چاہتا تو نہیں کرتے۔ مجدداسلام امام احمدرضا نے قول و فعل کے اسی تضاد کے خلاف جہادِ بالقلم کا فریضہ انجام دیا۔
امام احمدرضا ہر اس نئی بات کو بدعت قراردیتے ہیں جو منشاے شریعت کے خلاف ہو، انھوں نے وہی مسلک اپنایا جو صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ آپ نے قرآن و حدیث اور جمہور علما کے اقوال سے مسلک حق کو روشن کیا ۔ جہلا نےجو نت نئی بدعات نکالی ہیں ان سے امام احمدرضا کا کوئی بھی تعلق نہیں ۔ انھوں نے تو معاشرے میں پھیلی ہوئی بدعات و خرافات اور برائیوں کو دور کرنے کی انتھک کوشش فرمائی ہمارے اس دعوے پر ان کی کتابیں شاہد عادل ہیں ۔ جن کا مطالعہ قارئین کے لیے ناگزیر ہے۔
اس وقت محرم کا مہینہ شروع ہوچکا ہے ، یہ ہمارے اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے ۔حضرت سیدناامام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا مہینہ ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے ہمیں جوش وولولہ حاصل کرنا چاہیے کہ وہ کیسے جاں باز تھے جنھوں نے شریعت میں رخنہ اندازی کرنے والوں سے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور کربلا کی خاک پر اپنے خون جگر سے یہ تحریر ثبت فرمادی کہ :" حق کا بندہ سامنے باطل کے جھک سکتا نہیں"۔امام عالی مقام نے جس بڑے مقصد اور پیغام کے تحت جام شہادت نوش فرمایا، غیروں کی توبات جانے دیجیے آج ہم ہی اس مقصد اور پیغام کو بدعات و خرافات تلے کچل رہے ہیں ، آہ!!
پتھر گرا ہے سر پہ خود اپنے مکان سے
شکوہ کروں تو کیسے کسی آسمان سے
آج ہمارے صالح معاشرتی اقدار پرمحرم کی خرافات کی وجہ سے دیمک لگ رہا ہے۔ مجدداسلام امام احمدرضا نے ان تمام خرافات و بدعات کی نشان دہی فرماتے ہوئے ایک مقالہ بنام" اعالی الافادۃ فی تعزیۃ الہند و بیان الشہادۃ" تحریر فرمایا ، جس میں انھوں نے بتایا کہ تعزیہ بنانا، نکالنا، دیکھنا ناجائز و حرام ہے۔ دُلدل ، سواری، میلے ٹھیلے، کتکہ کھیل(لاٹھی بانا) ، سینہ کوبی اور ماتم کی محفلوں میں جانا سنگین بدعت ہے اس کا اخلاقی ، روحانی اور دینی بات سے ذرہ بھر بھی تعلق نہیں۔ آپ کے تحریر کردہ مسائل پر مبنی کتاب عرفانِ شریعت ، مرتبہ مولانا عرفان علی رضوی بیسل پوری ، جلد اول کے صفحہ 15 پر لکھا ہے کہ :" تعزیہ داری جو آج طریقۂ نامرضیہ کانام ہے ، قطعاً بدعت ، ناجائز و حرام ہے۔ تعزیہ آتا دیکھ کر اعراض و روگردانی کریں اس کی طرف دیکھنا ہی نہ چاہیے۔"
اسی کے ساتھ ساتھ محرم کی بعض جاہلانہ رسموں کو بیان کرتے ہوئے فتاویٰ رضویہ جلد چہارم کے صفحہ 115 پر فرماتے ہیں :
"( ۱)بعض لوگ محرم کے عشرۂ اول میں نہ تو دن بھر روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں کہ بعدِ دفنِ تعزیہ روٹی پکائی جائے گی۔
(۲) کچھ لوگ ان دس ایام میں کپڑے نہیں اتارتے ،
(۳)اور ماہِ محرم میں کوئی شادی بیا ہ نہیں کرتے،
(۴)نیز ان ایام میں سواے امام حسن اور امام حسین اور شہَداے کربلا(رضی اللہ عنہم)کے فاتحہ نہیں دلاتے۔
ان تمام باتوں میں پہلی تین باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے اور چوتھی بات جہالت ہے ، ہر مہینے میں ہر ولی کی نیاز اور ہر مسلمان کی فاتحہ ہوسکتی ہے۔"
امام احمدرضا کی مندرجہ ذیل باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تعزیہ داری، سینہ کوبی ، ماتم ، دُلدل ، سواری اور محرم کی دیگر خرافات و بدعات سے اہل سنت و جماعت کا کوئی تعلق نہیں جسے عرف عام میں بریلوی کہا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی ان امور کو امام احمدرضا اور ان کے متبعین کے سر تھوپ کر اہل سنت و جماعت کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے دعوتِ مطالعہ ہے کہ وہ امام احمد رضا بریلوی کی کتابوں کا براہ راست مطالعہ کرے۔
بہ ہر کیف!تعزیہ داری جیسی بدعت سے ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس کا غیر مسلموں پر کیا اثر پڑتا ہوگا ؟ آج ایک غیرمسلم یہ سوچ سکتا ہے کہ مسلمان بھی بت پرست ہیں ، جب کہ رہن سہن میں کفار و مشرکین کی مشابہت کرنا ناجائز و حرام ہے۔ تعزیہ داری اور اس کے نام پر ہونے والی رسموں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کفار و مشرکین سے مشابہت ہے۔
لہٰذا مسلمان جیسی غیرت مند قوم کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ بت پرستوں کی مشابہت کرے۔ عورتوں کی طرح کسی بہادر انسان کی شہادت پر سالہا سال تک روئے ، سینہ کوبی کرے ، ماتم کی محفلیں منعقد کرے، مردوں اور عورتوں کے ملے جلے میلے ٹھیلے قائم کرے ، ایسے امور کو سر انجام دے جن کی کسی بھی مقدس اسلامی شخصیت نے اجازت نہیں دی ۔افسوس!! جس شریعت کی پاسداری کے لیے امام عالی مقام رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش کیا آج اسی شریعت کی پامالی عروج پر ہے۔ کیا اسے سچی حسینیت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے؟
شریعت کے اصولوں سے متصادم بدعات و خرافات کو ختم کرنا کارِ ثواب ہے۔ لہٰذا اپنے گھر کی عورتوں ، ماؤں ، بہنوں اور بچوں کو محرم کے میلے ٹھیلوں اور دوسرے ناروا مقامات پر جانے سے روکیں اور خود بھی ایسی جگہوں پر جانے سے احتراز کریں ۔ اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ نبی کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے و طفیل ہمیں نفس کی شرارت سے بچاتے ہوئے حق قبول کرنے کی توفیق بخشے۔(آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و صحبہ وبارک وسلم )
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.