You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
نکاح: نفسانی برائیوں کے تدارک کا خدائی قانون
*******************************************
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
================================
کارخانہ قدرت میں رب قدیر نے تین قسم کی مخلوق پیدا فرمائی ہے۔
اول وہ جسے دماغ عطا کیا گیا مگر نفس سے مبرا رکھا ،
دوم وہ جسے نفس بھی دیا اور دماغ بھی مگر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ،اچھے برے کی تمیز ،حلال وحرام کے امتیاز سے محروم رکھا
اور
تیسرے وہ جسے نفس بھی عطا کیا اور دماغ کو تمام تر صلاحیتوں کے ساتھ عطا فرمایا۔
اول الذ کر فرشتے ہیں دوسرے جانور اور تیسرے انسان۔
اسی لئے صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ جس نے اپنے نفس کو محکوم بنالیا، وہ فرشتوں سے برتر ہے اور جو نفس کا محکوم بن گیا وہ جانوروں سے زیادہ بدتر ہے۔
انسانی نفس کو بے راہ روی سے بچانے کے لئے ’’نکاح‘‘ جیسا عظیم خدائی قانون اسلام میں موجود ہے۔
جسے اللہ کے حبیب ﷺنے اپنی سنت قرار دیا اور اسباب ووسائل کے باوجودبھی نکاح نہ کرنے والے کو اپنی جماعت سے خارج فرمایا۔
آج انسانوں کی اکثریت فطرت سے بغاوت کرکے زناکاری ،بدکاری اور عیاشی میں مبتلا ہورہی ہے۔
اس عریا نیت بھرے معاشرے میں نکاح کی اہمیت اظہر من الشمس واجلی من القمر ہے ۔
مصطفیٰ جان رحمت ﷺ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے ارشاد فرمایا کہ
اے علی! تین کاموں میں جلدی کیا کرو۔
جب نماز کا وقت ہوجائے سب کاروبار بند کر کے نمازمیں مشغول ہوجائو،
جب میت ہوجائے جلد تدفین کی جائے
اور
جب بچہ بالغ ہوجائے فوراً اس کانکاح کردیا جائے۔
اگر آج اس حدیث رسول پر عمل کیا جاتا تو یقینا معاشرہ گناہوں سے پاک وصاف ہوتا۔
مگرافسوس!آج اس سنّت کی ادائیگی میں تاخیر کی جارہی ہے جس کی ادائیگی پر نصف ایمان کے تکمیل کی بشارت ہے۔
آقا علیہ السلام کا یہ فرمان بھی چشم کور سے پڑھنے کے قابل ہے کہ اس شادی میں برکت ہوتی ہے جو سادگی کے ساتھ کی جائے اور اس شادی میں برکت نہیں ہوتی جس میں اخراجات زیادہ ہو اور فضول خرچی کی جائے۔
مگر مقام افسوس! آج آن بان شان کا اظہار کرنے والوں نے نکاح جیسی آسان سنت کو ہزاروں خرافات سے انتہائی مشکل بنادیاہے۔
آج بیٹی کے شادی کے تصور ہی سے ایک غریب باپ کی روح لرز جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عصر حاضر میں بیٹیوں سے محبت کم ہوتی جارہی ہیں۔ بچی کی ولادت ہی پر باپ کو اٹھارہ سال بعد کا زمانہ یاد آجاتا ہے کہ اس کے نکاح کے اخراجات ناقابل برداشت ہوں گے اور باطل رسموں کی ادائیگی نہ ہونے پر میں زمانے بھر میں رسواہوجائوں گا۔
وہ بیٹی جو آنکھ کا تارہ بننے والی تھی اس دل دہلادینے والے تصور ہی سے آنکھ کا کنکر بن جاتی ہے جبکہ بیٹی کی پرورش پر حدیث پاک میں جنت کی بشارت موجود ہے۔
شاہکار دست قدرت مصطفیٰ جان رحمت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ
نکاح کو اتنا آسان بنادو کہ زنا کرنا مشکل ہوجائے۔
اخبار ہذاکے ذریعے اہلیان شہر سے ہم اپیل کرتے ہیں کہ اپنے گھر ،گردوپیش اور سوسائٹی میں ہونے والے خرافات کا خاتمہ کریں، سنت رسول پر عمل سنت کے مطابق کریں اورسادگی اختیار کریں تاکہ نکاح میں خیرو برکت کا نزول ہو۔
عطا ء الرحمن نوری( جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.