You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
البلاغ تحریک خلافت کے عروج و زوال کی داستان
تحریر :۔ محمد احمد ترازی
یہ 19 ویں صدی کے اواخر کی بات ہے،جب خلافت عثمانیہ بے حد کمزور ہو چکی تھی،حکومت مقروض اور ترکی کی مالی حالت انتہائی خستہ تھی،اُس زمانے میں یہودیوں کا ایک وفد جس کی قیادت ترک یہودی قرہ صوہ آفندی کررہا تھا،ترکی کے سلطان عبدالحمیدکے پاس آیا اور اُس نے خلیفہ کو تمام قرضہ اتارنے کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ” اگر آپ بیت المقدس اور فلسطین ہمیں دے دیں تو ہم خلافت عثمانیہ کا سارا قرضہ اتار دیں گے اور مزید کئی ٹن سونا بھی دیں گے۔“لیکن سلطان نے اُن کی بات ماننے کے بجائے اُسے دینی غیرت و حمیت سے بھر پور جواب دیتے ہوئے اپنے پاؤں کی انگلی سے زمین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا”اگر اپنی ساری دولت دے دو اور اُس کے بدلے میں تم لوگ بیت المقدس کی ذرا سی مٹی بھی مانگو گے تو ہم نہیں دیں گے۔“اِس واقعہ کے بعدخلافت عثمانیہ کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا،چناں چہ چند برسوں بعد جو شخص مصطفی کمال پاشا کی طرف سے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کا پروانہ لے کر خلیفہ عبدالحمید کے پاس گیا تھا،وہ کوئی اور نہیں بلکہ وہی ترک یہودی قرہ صوہ آفندی ہی تھا،جس نے خلیفہ کو بیت المقدس اور فلسطین کے بدلے قرض اتارنے کی پیشکش کی تھی،خود مصطفی کمال پاشا بھی یہودی النسل تھا،اُس کی ماں یہودن تھی اور باپ ترک قبائلی مسلمان تھا،ساری دنیا نے دیکھا کہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد ترکی میں نوجوان ترکوں کا غلبہ شروع ہو گیا،یہیں سے Youngs Turks کی اصطلاح نکلی،جنہوں نے مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں اسلام پسندوں پر مظالم ڈھائے،علما کا قتل عام کیا،نماز کی ادائیگی اور تمام اسلامی رسومات پر پابندی لگا دی،عربی زبان میں خطبہ،اذان اور نماز بند کر دی گئی،مساجد کے اماموں کو پابند کیا گیا کہ وہ ”ترک“ زبان میں اذان دیں،نماز ادا کریں اور خطبہ پڑھیں،اسلامی لباس اترواکر عوام کو یورپی کپڑے پہننے پر مجبور کیا گیا،مصطفی کمال پاشا اور اُس کے ساتھی نوجوان ترکوں نے ترکی میں اسلام کو کچلنے کے لیے جتنی گرم جوشی کا مظاہرہ کیا اور مسلمانوں کو جتنا نقصان پہنچایا،اس کی مثال روس اور دیگر کمیونسٹ ملکوں کے علاوہ شاید ہی کہیں ملے،یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب تک ترکی میں خلافت عثمانیہ قائم رہی،اُس وقت تک استعماری قوتوں کا فلسطین میں یہودی مملکت کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا،لیکن 1923ءمیں ترکی سے خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد15 مئی1948ءکو فلسطین میں یہودی مملکت اسرائیل کا قیام عمل میں آگیا،حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ جس ” خلیفہ “ نے ہر طرح کی لالچ اور دھمکیوں کے باوجود یہودیوں کو فلسطین کی رتی بھر زمین دینے سے انکار کر دیا تھا،اُسی سلطان کاترکی فلسطین میں اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے اور اُس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والا دنیا کا سب سے پہلا ملک تھا ۔
پہلی عالمی جنگ1914ءمیں شروع ہوئی جس کا نتیجہ 1918ءمیں ترکی اور جرمنی کی شکست پر منتج ہوا،اِس جنگ میں ایک طرف برطانیہ اور اُس کے حواری تھے تو دوسری طرف جرمنی اور ترکی کے آخری خلیفہ سلطان عبدالحمید کی افواج تھی،جنگ کا خاتمہ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کی شکل میں برآمد ہوا،ترکی میں خلافت اسلامیہ کے خاتمے نے ملت اسلامیہ کی رہی سہی مرکزیت کو ختم کرکے رکھ دیا،یہی وجہ تھی کہ ہندوستان کے مسلمان خلافت عثمانیہ کے خاتمے پر تڑپ اٹھے،5 جولائی 1919ءکو خلافت کے مسئلے پر رائے عامہ کو منظم کرنے اور متفقہ لائحہ عمل تیار کرنے کے لئے بمبئی میں آل انڈیا خلافت کمیٹی قائم کی گئی اور محمد علی جوہر اور شوکت علی نے ترکی میں خلافت کی بحالی کیلئے تحریک خلافت شروع کی،جس کے بڑے مقاصد” خلافت کی برقراری،مقامات مقدسہ کا تحفظ اور حفاظت اورسلطنت ِترکی کو تقسیم نہ کرنا تھے،خلافت کمیٹی کا پہلا اجلاس نومبر 1919ءمیں دہلی میں منعقد ہوا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ مسلمان انگریز کے جشن فتح میں شریک نہیں ہوں گے اور اگر اُن کے مطالبات منظور نہ ہوئے تو وہ حکومت سے عدم تعاون کریں گے،اِس اجلاس میں ہندوؤں سے تعاون کی اپیل کی گئی،اُس زمانے میں کانگریس نے پہلے ہی رولٹ ایکٹ کے خلاف ملک گیر مہم شروع کر رکھی تھی،دسمبر 1919ءمیں کانگریس مسلم لیگ اور خلافت کمیٹی کے اجلاس امرتسر میں منعقد ہوئے،جہاں گاندھی جی نے ہندو مسلم اتحاد پر زور دیا،1920ءمیں مولانا محمد علی جوہر کی قیادت میں ایک وفد انگلستان،اٹلی اور فرانس کے دورے پر روانہ ہوا تاکہ وزیراعظم برطانیہ اور اتحادیوں کو اُن کے وعدے یاد دلائے جائیں،وفد نے برطانوی وزیراعظم لائیڈ جارج سے ملاقات کی اوراٹلی اور فرانس کا بھی دورہ کیا مگر اُس کی کہیں بھی شنوائی نہ ہوئی،وفد کی ناکامی اور معاہدہ سیورے کی ذلت آمیز شرائط کے خلاف خلافت کمیٹی نے 1920ءمیں تحریک ترک موالات کا فیصلہ کیا اور گاندھی کو اِس تحریک کا رہنما مقرر کیا گیا،بھلاگاندھی جیسے انتہائی درجے کے متعصب ہندو لیڈر کو خلافت اسلامیہ سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی،وہ اپنے اِس منافقانہ عمل سے سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتا تھا اور میثاق لکھنو کے سیاسی تاثر کو زائل کرنا چاہتا تھا،گاندھی تحریک خلافت میں شامل ہو کر ہندوستان کے سادہ دل مسلمانوں کو اِس غلط فہمی میں مبتلا کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ وہ اور کانگریس مسلمانوں کے مفادات اور حقوق کے محافظ ہیں،اِس طرح ہندووں اور مسلمانوں کے مشترکہ لیڈر کی حیثیت سے گاندھی کا سیاسی قد کاٹھ اتنا بڑھ گیا کہ وہ ہندوستان کی سیاست پر چھا گیا ۔
اِس سیاسی چال سے اُس نے مسلمانوں کے علیحدہ تشخص کے ابھرنے کے ایک نادر موقع کو مسلمانوں سے چھین لیا بلکہ مسلمانوں کی قیادت بھی مسلمان لیڈروں سے چھین لی،اِس طرح گاندھی متحدہ قومیت کے تاثر کو فروغ دینے میں کامیاب ہوگیا، یہی نہیں بلکہ اُس نے اپنی چالاکی سے تحریک خلافت کو ایسے راستے پر ڈال دیا جو مسلمانوں کو ہندوستان سے باہر لے جانے والے راستہ تھا،بات تحریک خلافت سے ترک موالات اور تحریک ہجرت تک جا پہنچی،اِسی دوران کچھ کانگریس نواز علماءنے بر عظیم کو دارالحرب قرار دے کر یہاں سے ہجرت کرنے کا فتویٰ دیا،جس پر ہزاروں مسلمانوں نے اپنے گھربار چھوڑ کر افغانستان کی راہ لی، جس میں مسلمانوں کو کافی جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا،ہندوؤں اور مسلمانوں کا اتحاد سطحی،جذباتی اور وقتی تھا، دونوں قوموں کو حکومت کے خلاف نفرت نے عارضی طور پر اکھٹا کر دیا تھا،لیکن شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں نے جلد ہی اِس اتحاد کو پارہ پارہ کر دیا اور تحریک خلافت کمزور ہونا شروع ہو گئی،مسلمانوں کی تحریک خلافت سیاسی فائدے کے بجائے مذہبی جوش و خروش پر مبنی تھی،جبکہ ہندوؤں اِس میں سیاسی فائدہ تلاش کر رہے تھے جو تحریک خلافت کی کامیابی سے ملنا مشکل تھا،چنانچہ گاندھی نے اُس وقت اچانک تحریک ختم کرنے کا اعلان کرکے مسلمانوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا،جب مسلمانوں کے تمام رہنما جیل میں تھے اور تحریک کی قیادت سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا،گاندھی کے اِس عمل سے تحریک بھی ختم ہو کر رہ گئی اور مسلمانوں کا اپنے قائدین سے بھی اعتماد اٹھ گیا،یوں گاندھی ہندوؤں کے مہاتما بن گئے اور مولانا محمد علی جوہر گوشہ گم نامی میں چلے گئے،تحریک خلافت سے مسلمانان ہند کو جو نقصان پہنچا وہ 1857ءکی جنگ آزادی کی ناکامی سے آنے والی تباہی و بربادی کے بعد سب سے بڑا نقصان تھا،اِس تحریک کے زمانے میں ترک موالات کے دوران مسلمانوں کو اِس بات پر بھی اکسایا گیا کہ وہ احتجاجاً تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کر دیں،یہاں بھی ہجرت کی طرح صرف مسلمان طلباءنے ہی اپنے تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کیا،ہندو طلبا نے اپنی تعلیمی سرگرمیاں برابر جاری رکھیں،مسلمان پہلے ہی تعلیم کے میدان میں ہندووں سے بہت پیچھے تھے،اُن میں جو تھوڑا بہت تعلیم کا عمل جاری تھا وہ بھی رک گیا،مارچ 1924ءمیں مصطفی کمال پاشا نے ترکی کے علاقے آزاد کراکے جمہوریہ کے قیام اور اپنی صدارت کا اعلان کر دیا اور ترکی میں خلافت کا خاتمہ ہوگیا،پہلی جنگ عظیم کے دوران میں برطانوی حکومت نے اعلان بالفور کی رو سے فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کی سازش کی،جبکہ شریف مکہ نے سازش کر کے سعودی عرب کو ترکی سلطنت سے الگ کر لیا اور شاہ عبدالعزیز نے سعودی عرب کے نام سے الگ مملکت کے قیام کا اعلان کر دیا،جس سے تحریک خلافت ماند پڑ گئی ۔
تحریک خلافت جیسی عوامی تحریک کی مثال برصغیر کی تاریخ میں نہیں ملتی،اِس میں شک نہیں کہ یہ تحریک اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہی،لیکن اِس نے ہندوستان کی سیاست اور مسلمانوں کی تاریخ پر گہرے نقوش مرتب کئے،یہاں اِس بات کو بھی ریکارڈ پر لانا ضروری ہے کہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خاں فاضل بریلوی اور آپ کے رفقاء نے دینی فراست اور مومنانہ بصیرت سے پہلے ہی تحریک خلافت کے مسلمان قائدین اور برصغیر کی عوام پر واضح کر دیا تھا کہ تحریک خلافت سے مسلمانوں کو سوائے سخت نقصان کے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا،امام احمد رضا اور آپ کے رفقاء کا تحریک کی ابتداءسے نقطہ نظر بالکل واضح اور غیر مبہم تھا،آپ کا نفس تحریک خلافت سے قطعاً کوئی اختلاف نہیں تھا،البتہ اِس تحریک کے طریقہ کار اور اِس مذہبی، ملی، دینی اور اسلامی مسئلہ میں ہندووں سے اخوت و دوستی اور گاندھی جیسے اسلام دشمن شخص کی قیادت و سیادت سے آپ کو سخت اختلاف تھا،آپ نہ صرف خود اِس سے الگ تھلگ رہے بلکہ آپ اور آپ کے خلفاء نے تحریک خلافت کے لیڈروں کو سمجھانے کی بھی کوشش بھی کی،مگر وہ اُس قدر جوش و خروش اور غیض و غضب میں آئے ہوئے تھے کہ انہوں نے آپ کی ایک نہ سنی، بلکہ قائد اعظم محمد علی جناح کی طرح آپ پر بھی انگریز دوستی کے الزامات لگائے گئے،اِس کیفیت کوممتاز مورخ رئیس احمد جعفری ”قائد اعظم محمد علی جناح اور اُن کا عہد صفحہ 150“پریوں بیان کرتے ہیں”تحریک خلافت ایک ہولناک طوفان کی طرح ہندوستان کے سیاسی مطلع پر نمودار ہوئی،مسلمانوںکے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ وہ سر سے کفن باندھ کر میدان جہاد میں اترچکے تھے،جیل جانا ایک کھیل بن گیا تھا،سینے پر گولیاں کھانا روزمرہ کا واقعہ تھا،....اِس طوفان کا رخ جس نے موڑ نا چاہا، اُس کی پگڑی سلامت نہ رہ سکی،یہ مسئلہ مسلمانوں کی موت و زیست کا مسئلہ بن گیا تھا،انہوں نے طے کرلیا تھا کہ جو اُن کے ساتھ ہے،اُن کا دوست ہے اور جو اُن کے ساتھ نہیں ہے وہ دشمن کے سوا کچھ نہیں ہے،جسے انہوں نے اپنا مخالف سمجھا اُس کا سیاسی وجود ختم کردیا گیا،محمد علی جناح کو انہوں نے گوشہ نشینی پر مجبور کردیا....اکابر علماءصلحاءاخیارابرار میں سے جس نے بھی اِس تحریک کی مخالفت کی اُسے مسلمانوں کے قومی پلیٹ فارم سے ہٹ جانا پڑا....مسلمان آزادی ہند کے نشے میں،ہندومسلم اتحاد کے جوش میں اتنے بے خود ہوئے تھے کہ انہوں نے واقعات سے آنکھیں بند کرلی تھیں،حقائق سے منہ موڑ لیا تھا کہ کہیں ہندو مسلم اتحاد کا آبگینہ پاش پاش نہ ہوجائے ۔“
درحقیقت تحریک کیا تھی ایک طوفان تھی جس نے اپنے پرائے کا امتیاز ختم کردیا تھا،طوفانوں کا رخ موڑنے والے جرات مند لوگ کانگریس اور گاندھی کے دام فریب میں جکڑے ہوئے تھے لیکن ایسے میں امام احمد رضا اور آپ کے رفقاء”علامہ حامد رضاخان،مولانا مختار الحق صدیقی،مولانا نعیم الدین مرادآبادی،مولاناامجد علی،مولانا ظفرالدین بہاری،مولانا ابوالبرکات اور علی گڑھ یونیورسٹی کےپروفیسر سید سلیمان اشرف جسے مومنانہ بصیرت رکھنے والے لوگ ایسے بھی تھے جوقرآن و سنت کی روشنی میں مسلمانوں کو اِس خود کش اقدام سے بچانے کی کوشش کررہے تھے،جید عالم دین پروفیسر سید سلیمان اشرف کی کتاب ”البلاغ“دراصل تحریک خلافت کے دوران مسلمانوں کی اِسی بد نظمی،بے عملی،ملی انحطاط،ہندوؤں کی سازشوںاور خلافت عثمانیہ کے تاریخی واقعات کی ایک جامع دستاویز ہے ،تقریبآ 90 سال قبل لکھی جانے والی یہ کتاب،اُس دور کے اسلامیان ہند کے اضطراب،درپیش ملکی مسائل،خلافت عثمانیہ اور مقامات مقدسہ کی حفاظت کے حوالے سے درپیش چیلنجزاور عالم اسلام پر مصائب و آلام کے چھائے بادل کا مکمل احاطہ کئے ہوئے ہے،سید سلیمان اشرف کی یہ تصنیف نہ صرف سلطنت عثمانیہ کے زیر و بم سے ہمیں آگاہ کرتی ہے بلکہ اُس کے عروج و زوال کی داستان بھی سناتی ہے اوراسلام اور خلافت کے باب میں اسلام کا تصور خلافت بھی بیان کرتی ہے،آج اِس کتاب کا گہرا مطالعہ ماضی کی روشنی میں مستقبل کا حل فراہم کرتا ہے،اِس اہم اور نادر تاریخی دستاویز کی دوبارہ اشاعت کا سہرا ”ادارہ پاکستان شناسی“ کے روح رواں” جناب ظہور الدین امرتسری“ کو جاتا ہے،جنھوں نے پیرانہ سالی میں بھی تحریک پاکستان اور مسلم اُمہ کادرد رکھنے والے علماءکی تحریروں کو دوبارہ شائع کرنے اور نئی نسل کو اپنے اسلاف کے کارناموں سے روشناس کرانے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے،یہ کتاب ”ادارہ پاکستان شناشی 2/24سوڈھیوال کالونی،ملتان روڈ لاہور 54500،یا فون نمبر 03224005952 سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.