You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اشعار رضاؔ کی توضیح و تفہیم اورشارح رضویات احسن العلما مارہروی
غلام مصطفی رضوی، مالیگاؤں
**********************
انیسویں صدی کا اختتام امت مسلمہ کے لیے بڑے چیلنجز لے کر آیا۔ ایمان و عقیدہ اور تہذیب و تمدن پر مخالفین اسلام کی نظر بد لگی ہوئی تھی، اندرونی و بیرونی ہر دو سطح پر اسلام کے گلستاں کو اجاڑنے کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔
ایسے حالات میں سب سے زیادہ ناموس و عظمت رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو نشانہ بنایا جا رہا تھا۔
در اصل صدیوں تک اسلامی تاریخ و تہذیب، اسبابِ عروج، تمدن و سیاست کے مطالعہ کے بعد یورپ کے عالی دماغوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ امت مسلمہ کی کام یابی کا راز ان کی اپنے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے محبت اور عشق ہے، جب تک مسلمان اپنی اس متاعِ عظیم کو سنبھال کر رکھے رہیں گے انھیں کوئی پسپا نہیں کر سکتا،
اول یہی کیا گیا کہ عشق نبوی کی دولت دلوں سے نکالنے کے لیے فتنے پیدا کیے گئے، خارجی طور پر پادریوں، پنڈتوں،آریہ پیشواؤں اور دوسرے اسلام دشمنوں سے اہانت رسالت کروائی گئی، جب دیکھا کہ خارجی حملے کارگر نہیں ہو رہے تو کئی فتنے داخلی طور پر تیار کیے گئے، ناموس رسالت میں توہین سے مملو کتابیں لکھوائی اور چھاپی گئیں… بلا مقصد کوئی کام نہیں کیا جاتا… ایسی اہانت آمیز کتابوں کی تصنیف کے پیچھے بھی کوئی مقصد تھااوران کتابوں سے امت مسلمہ میں انتشار کی بنیاد پڑی… ان میں جو توہین نبی کونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لکھی گئی ہے وہ بھی منظم و مربوط سازش کے تحت ہی ہے…ورنہ کوئی اور بھی موضوع چھیڑا جا سکتا تھا… لیکن! جب دلوں کی دنیا ویران کرنی ہو اور فکروں کو بانجھ بنانا ہو تو صرف ناموس رسالت پر حملہ ہی کافی ہے… اسی لیے اقبالؔ نے کہا تھا کہ:
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
اور اقبالؔ سے کافی پہلے امام احمد رضاؔ نے متاع عشق نبوی علیہ الصلاۃ والسلام کو یوں سنبھال کر رکھنے کی تعلیم ازبر کروائی تھی:
جان ہے عشق مصطفی روز فزوں کرے خدا
جس کو ہو درد کا مزا ناز دوا اٹھائے کیوں
امام احمد رضا کی زندگی کا مقصد اشاعت دین اور تبلیغ اسلام تھا ۔
ایمان جبھی کامل ہو گا جب رسول انام علیہ التحیۃوالثنا کی محبت و احترام کا نقش دلوں پر ثبت ہو جائے۔
امام احمد رضا نے عظمت رسالت اور تعظیم و احترام کے موضوع پر جو کچھ علمی و تحقیقی کام کیا، ان ذخائر سے استفادہ کرنے والا یقینی طور عشق نبوی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جذبۂ صادق سے شاد کام ہو جاتا ہے۔ اسی جذبۂ صالح کے تحت آپ نے شعر گوئی کی، تصنیف و تالیف کا ذخیرہ بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔
موجودہ عہد میں ارباب علم و ادب نے جہاں امام احمد رضا کی تفسیری و فقہی خدمات پر علمی کام انجام دیے وہیں آپ کی شعری و ادبی بصیرت پر بھی روشنی ڈالی، جب کہ دنیا کی درجنوں یونی ورسٹیوں میں آپ پر جو پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگریاں لی گئیں ان میں زیادہ تر مقالے ’’شعروادب‘‘ کے حوالے سے لکھے گئے۔ ان سب کے باوجود ابھی بہت کام باقی ہے۔ بہت سے جلوے ہیں جو اب بھی پوشیدہ ہیں۔ ارباب علم کی تحقیق کے منتظر ہیں۔
کلام رضاؔ پر مختلف انداز میں تشریح و تفہیم کا کام انجام دیا گیا ہے۔
جن میں مشہور
ادیب و مترجم علامہ شمس بریلوی(م۱۹۹۷ئ)،
ڈاکٹر عبدالنعیم عزیزی(۲۰۱۱ئ)،
مولانا فیض احمد اویسی(۲۰۱۰ئ)،
صوفی اول رضوی،
مولانا عبدالستار ہمدانی،
مفتی محمد خان قادری وغیرہم نے مقالات و مستقل کتابیں تالیف فرمائیں۔
شارح کلام رضاؔ کی حیثیت سے ایک اور معتبر نام شارح رضویات، حافظ حدائق بخشش حضور احسن العلما مولانا سید مصطفی حیدر حسنؔ میاں مارہروی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ(۱۴۱۶ھ/۱۹۹۵ئ)کاہے۔
اس تحریر میں احسن العلما کی اسی خصوصیت کے حوالے سے اختصار میں رشنی ڈالی جائے گی۔
شارح رضویات حضرت احسن العلما:
سر زمین ہندستان پر اسلام کی اشاعت و تبلیغ کا مقدس فریضہ زیادہ تر خانقاہوں نے انجام دیا۔
حضرت داتا گنج بخش ہجویری لاہوری ، خواجہ غریب نوازسے لے کر حضور احسن العلما مارہروی تک اولیاے کرام، خانقاہی بزرگوں کا ایک سلسلہ ہے جن کی دینی و اصلاحی اور فکری خدمات نے ذہن و فکر میں خوش گوار انقلاب برپا کر کے ایمان کو تازگی عطا کی۔
اس خصوص میں خانقاہ برکاتیہ کا کردار بڑا نمایاں رہا ہے۔ اس خانقاہ سے وابستہ اولیا و علما نے خدمت علم دین کے سلسلے میں تصنیف و تالیف اور ہدایت و ارشاد ہر دو طرح سے کام لے کر ظاہر و باطن دونوں کی آراستگی کا سامان کیا۔ صدیوں پر پھیلی ہوئی اس خانقاہ کی خدمات کا تجزیہ کیا جائے تو ڈاکٹریٹ لیول کا ایک مقالہ تیار ہو جائے۔
احسن العلما اسی خانقاہ کے پروردہ تھے۔حضرت احسن العلما کی ولادت۱۰؍شعبان ۱۳۴۵ھ/۱۳؍فروری ۱۹۲۷ء میں ہوئی۔
آپ امام احمد رضا محدث بریلوی کے مرشدان کرام کے سادات گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ والد محترم حضرت سید شاہ آل عبا بشیر حیدر قادری(م۱۹۸۶ئ) عظیم صوفی، عالم، ماہر لسانیات، نقاد اورماہر علوم جدیدہ تھے۔
۱۴؍ماہ کی عمر میں آپ کے نانا حضرت سید اسماعیل حسن شاہ جی میاں مارہروی (م۱۳۴۷ھ)نے بیعت و خلافت سے سرفراز فرمایا۔
تربیت میں والد ماجد کے علاوہ حضرت تاج العلما مولانا سید اولاد رسول محمد میاں مارہروی (م۱۳۷۵ھ)نے اہم رول ادا کیا نیز آپ نے خلافت و اجازت بھی دی اور اپنی سجادگی بھی۔
احسن العلما کے اساتذہ سے متعلق ان کے صاحب زادۂ گرامی مشہور فکشن نگار سید محمد اشرف مارہروی (انکم ٹیکس کمشنر دہلی)لکھتے ہیں:
’’ان کے اساتذۂ کرام میں حضور تاج العلما، حضرت شیخ العلما مولانا غلام جیلانی علیہ الرحمہ گھوسوی، مفتی سندھ خلیل العلما حضرت مولانا خلیل احمد صاحب قادری برکاتی، حضرت شیر بیشۂ سنت مولانا حشمت علی صاحب علیہ الرحمہ جیسے نامی گرامی اساتذۂ کرام تھے۔ اردو کے استاد منشی سعیدالدین صاحب تھے۔ انگریزی کے کچھ سبق قبلہ ماسٹر سمیع الدین صاحب مدظلہ سے پڑھے……قرآن عظیم کے درس کے اساتذہ میں والدہ محترمہ حضرت سیدہ شہر بانو رحمۃاللہ علیھا اور حافظ سلام الدین اور حافظ عبدالرحمن عرف حافظ کلو رحمۃاللہ علیھم تھے۔‘‘(۱)
احسن العلمانے خانقاہ برکاتیہ کی علمی و روحانی روایات کو فروغ دیا۔ تصنیف و اشاعت کا کام بھی کیا اور مسند درس و تدریس کو بھی زینت بخشی۔ آپ کے ذریعے سلسلۂ قادریہ برکاتیہ کی عظیم پیمانے پر اشاعت ہوئی۔ اہل سنت کی اشاعت کے لیے آپ کا ذہن بڑا متحرک و فعال تھا۔ ان سب خوبیوں پر مستزاد یہ کہ آپ نے اپنے عہد میں اہل سنت کی خانقاہی قیادت بھی خوب نبھائی۔ آپ پیکر علم و دانش تھے۔ شعری و ادبی بصیرت سے مالا مال تھے۔ خطابت کی بزم کے مہر درخشاں تھے۔ شارح کلام رضاؔ تھے۔ عموماً آپ اپنی خطابت کے ذریعے اشعار رضاؔ کی تشریح نہایت آسان و سلیس انداز میں فرماتے۔ اس لحاظ سے آپ کے افادات عالیہ، ارشادات و خطبات کو تحریری شکل دے دی جائے تو کلام رضاؔکی تشریح و تفہیم پر ایک اہم ذخیرہ تیار ہو جائے۔ اس سمت کسی قدرپیش رفت ہوئی ہے اور بعض تقریریں تحریری شکل میں خانقاہ برکاتیہ کے سال نامہ ’’اہل سنت کی آواز‘‘ کے مختلف شماروں میں شایع بھی ہوئیں ۔(۲)
امام احمد رضا سے محبت و الفت:
یہ اللہ کریم کی شان ہے کہ دین متین کی حفاظت و صیانت کے لیے وہ اپنے مخصوص بندوں کو پیدا فرماتا ہے۔ ان سے تجدید جیسا اہم کام لیتا ہے۔ مجددین اسلام کا ایک طویل سلسلہ ہے جن کی خدمات سے اسلامی تاریخ کے صفحات جگ مگا رہے ہیں۔
امام احمد رضا نے فضلِ الٰہی سے دین کے مقابل پیدا شدہ فتنوں کا سد باب کیا، آپ کا کارِ تجدید بہت سی جہات کو پھیلا ہوا ہے۔ آپ کے عہد میں اسلامی تہذیب و تمدن کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا تھا، عقائد میں بگاڑ کے لیے انگریز کے زیر اثر اندرونی سازشیں الگ بپا تھیں۔ ہر محاذ پر امام احمد رضا نے اسلام کی حفاظت کی یہی وہ اسباب تھے جن کی بنیاد پر امام احمد رضا کے پیر خانہ (خاندان برکات)نے آپ کے مبارک مشن کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا۔اور آج بھی خانوادۂ برکاتیہ اسی پر گام زن ہے۔
مجدد برکاتیت حضرت میر ابوالقاسم اسماعیل حسن شاہ جی میاں سے لے کر احسن العلما تک تمام اکابر مارہرہ کی سوانح حیات کی ورق گردانی کر لیجیے۔مسلکِ رضا، فکر رضا، مشنِ رضا، یادِ رضا اور ذکرِ رضا کی فصلِ بہار آراستہ نظر آئے گی۔ ہر جہت سے اکابر مارہرہ نے تعلیمات و افکار رضا کی اشاعت کی ہے۔ احسن العلما کا مشن ہی فکر رضا کی ترویج و اشاعت تھا۔ جانشین احسن العلماحضرت امین ملت ڈاکٹر سید امین میاں قادری (سجادہ نشین خانقاہ برکاتیہ مارہرہ مطہرہ) فرماتے ہیں:
’’حقیقت و معرفت کی شمع بظاہر خاموش ہے مگر ان کامشن زندہ ہے۔ ان کا مشن ہے ایک نکاتی پروگرام اسلام و سنیت اور مسلک اعلیٰ حضرت کی ترویج و اشاعت، اس ایک جملے میں گویاسمندر کوزے میں بھر دیا ہے۔‘‘ (۳)
اس تناظر میں صاحب زادۂ احسن العلماحضرت شرف ملت سید محمد اشرف میاں مارہروی فرماتے ہیں:
قبل از وصال بھی وہ بیٹوں سے کہہ رہے تھے
احمد رضا سے جو تھی الفت حسن میاں کی
حضرت اشرف میاں احسن العلما کی عشق و الفت اور محبت رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں وارفتگی کے تناظر میں لکھتے ہیں:
’’اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے حضور احسن العلما کو جو ایک مخصوص والہانہ محبت تھی، وہ بھی غالباً عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی دین تھی۔ مسلک اعلیٰ حضرت کی اساس الفت رسول اور عظمت نبی پر قائم ہے، اسی لیے تو احسن العلما علیہ الرحمہ نے وقت آخر سے دو تین دن پہلے اپنے بچوں کو جو وصیت کی وہ یہ کہ:
’’مسلک اعلیٰ حضرت پر مضبوطی سے ڈٹے رہنا۔ میرا جو مرید اس مسلک سے ہٹ جائے، میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں۔‘‘
وہ مسلک اعلیٰ حضرت کو عشق رسول، عظمتِ نبی اور اپنے بزرگوں کے اقوال سے جدا نہیں جانتے تھے۔ ‘‘(۴)
اعلیٰ حضرت سے انسیت اور قلبی تعلق پر حضرت اشرف میاں کا یہ بیان پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے:
’’شاعروں میں انھیں سب سے زیادہ کلام امام احمد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمہ کا یاد تھا۔ ان کا شعر سناتے وقت فرماتے:
’’سنو! میرے اعلیٰ حضرت کیا فرماتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا کوئی شعر سناتے۔
کبھی کبھی یوں بھی فرماتے: ’’سنو! بریلی والا کیا کہہ رہا ہے۔‘‘ اور یہ کہہ کر اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا شعر سناتے۔ اعلیٰ حضرت سے انھیں عشق کی حد تک محبت تھی اور اس کا اظہار وہ خلوت و جلوت، ظاہر و باطن، گفتگو و واعظ غرض یہ کہ ہر مقام پر کرتے تھے۔
اپنے مریدوں کے درمیان بھی اور دوسروں کے درمیان بھی۔ وہ اعلیٰ حضرت کا ذکر ضرورتاً نہیں عادتاً کرتے تھے اور عادتاً بھی نہیں محبتاً کرتے تھے اور محبت پر کسی کا اجارہ نہیں۔ اعلیٰ حضرت کا نام لینے سے پہلے ’’چشم و چراغ خاندان برکات‘‘ کا لقب اکثر استعمال فرماتے۔‘‘(۵)
احسن العلما نے اپنی ایک منقبت میں امام احمد رضا کی شان اور آن بان کو جس انداز میں خراج عقیدت پیش فرمایا ہے وہ دیکھنے، پڑھنے اور محسوس کرنے سے تعلق رکھتا ہے، چند اشعار ملاحظہ کریں اور محبت رضاؔ کی تپش کو اور تیز کریں:
چہرۂ زیبا ترا احمد رضا
آئینہ ہے حق نما احمد رضا
---------------------------------
علم تیرا بحرِ نا پیدا کنار
ظلِ علم مرتضیٰ احمد رضا
---------------------------------
تیرے مرشد حضرت آلِ رسول
ان کو تجھ پہ ناز تھا احمد رضا
---------------------------------
اپنے برکاتی گھرانے کا چراغ
تجھ کو نوری نے کہا احمد رضا
---------------------------------
سُنیت کی آبرو دم سے ترے
اب بھی قائم ہے شہا احمد رضا
---------------------------------
تیری اُلفت میرے مرشد نے مجھے
دی ہے گھٹی میں پلا احمد رضا
اس منقبت میں مارہرہ و بریلی کے اٹوٹ رشتے پر روشنی پڑتی ہی ہے ساتھ ہی کارِ رضا کا جو نقشہ سامنے آتا ہے اس کے آئینے میں فیضانِ مارہرہ کی وہ جھلک دکھائی پڑتی ہے جس سے امام احمد رضا کی عظمتوں کی قندیل مزید فروزاں ہوجاتی ہے۔
امام احمد رضا محدث بریلوی کو اپنے پیر خانہ مارہرہ شریف سے بڑی محبت و عقیدت تھی، اور قلبی تعلق تھا، اس کے جلوے تصانیف رضا میں جگہ جگہ نمایاں نظر آتے ہیں، مکاتیبِ رضا میں بھی الفت مارہرہ جلوہ گر ہے، اور حدائق بخشش میں تو حضرت غوث اعظم کے بعد سب سے زیادہ منقبت کے اشعار اکابر مارہرہ کی شان میں ہی نظم ہوئے ہیں۔
کلام رضاؔ پر جو فیضِ نوریؔ مارہروی ہے اس کا ذکر کیسے اچھوتے انداز میں فرماتے ہیں:
اے رضاؔ یہ احمد نوری کا فیض نور ہے
ہو گئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا
بہر حال خانقاہ برکاتیہ کی مدح میں نثر و نظم رضاؔ کے حوالے سے اگر گفتگو کی جائے تو کثیر صفحات پُر ہو جائیں اور کیفیت یہ ہو ع
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
شارح کلام رضاؔ:
حضرت احسن العلما کی شخصیت بڑی ہمہ جہت اور تہ دار تھی۔
نثر و نظم دونوں میں مہارت رکھتے تھے، ادبی ذوق تھا ہی، خانقاہی مزاج بھی اس میں معاون ہوا۔ اس کے نتیجے میں آپ کے مواعظ و ارشادات میں بھی چاشنی عود کر آئی۔ تقریر کا اسلوب بڑا سادہ، عام فہم اور رواں دواں تھا، ایک مشفق استاذ کی طرح بات سمجھا دینا احسن العلما کے خطاب کی خوبی تھی۔ فکر رضا کی اشاعت آپ کے خطاب کا اہم پہلو ہے۔
اشعار رضاؔ کی تشریح کے سلسلے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ احسن العلما کے پیش نظر چوں کہ دینی فکر و بصیرت کی اشاعت تھی، اسی لیے آپ کی تشریحات اسی نقطۂ نظر سے دیکھی جانی چاہیے۔ گرچہ ان تشریحات میں ادبی خصوصیات، فنی مباحث پر بھی ضمناً روشنی پڑتی ہے۔
ڈاکٹر سید جمال الدین اسلم مارہروی لکھتے ہیں:
’’شعر فہمی ان کا (احسن العلما کا)خاصا تھا۔ اور کلامِ امام اہل سنت (علیہ الرحمۃوالرضوان) کی تشریح میں تو انھیں ملکہ حاصل تھا۔ شاید ایک طویل مضمون تو اسی پر لکھا جا سکتا ہے کہ انھوں نے کلام امام اہل سنت کی شرح کس طرح بیان کی ہے۔‘‘(۶)
احسن العلما کی بصیرت و دانش ایسی تھی کہ وہ کلامِ رضاؔ پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتے تھے، کلام کے داخلی و خارجی محاسن، ادبی در و بست، فکری پیغام اور شوکتِ الفاظ وسلاست زبان و بیان سبھی پہلوؤں پر آپ کی نظر تھی، صاحب زادۂ احسن العلما حضرت اشرف میاں فرماتے ہیں:
’’اعلیٰ حضرت اور ان کی دینی خدمات پر، ان کی کتابوں اوران کتابوں میں بیان کردہ مضامین پر اور اعلیٰ حضرت کی شاعری پر انھیں اتھارٹی کا درجہ حاصل تھا۔ دور دور سے اسکالر آتے اور ان سے چند گھنٹے ………کرتے، سیر ہو کر واپس جاتے اور اپنے مقالوں کا وزن بڑھاتے۔ ڈاکٹر سید جمال الدین اسلم، سابق چیئرمین شعبۂ تاریخ جامعہ ملیہ نے حضور احسن العلما کو ماہر رضویات ہی نہیں ’’شارح رضویات‘‘ بھی کہا ہے۔‘‘(اہل سنت کی آواز ۱۹۹۵ء کا اداریہ) اور بالکل صحیح کہا ہے۔‘‘(۷)
احسن العلما نے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا کے اشعار کے توسط سے اللہ کریم کی عظمت، شانِ رسالت مآب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، عشق و محبت نبوی، عظمت اولیا کے نقوش دلوں میں بٹھائے ہیں۔ امام احمد رضا نے اپنی نعت گوئی قرآن مقدس کے آئینے میں کی جس کا اظہار اس شعر میں فرمایا ہے:
قرآن سے میں نے نعت گوئی سیکھی
یعنی رہے احکام شریعت ملحوظ
اسی لیے ہر ہر شعر میں قرآنی فکر عطربیز ہے، اور اپنے کلام کے توسط سے ایمان کو تازگی فراہم کر دیتے ہیں۔ احسن العلما کی تشریحات کا تجزیہ بھی یہ واضح کرتا ہے کہ اشعار رضا کی تفہیم کے لیے احسن العلما، قرآن مقدس، احادیث طیبہ اور روایات اسلاف کی نہایت عمدہ وضاحت فرماتے ہیں جن سے دینی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ساتھ ہی اشعار رضاؔ کا مفہوم کم پڑھا لکھا شخص بھی آسانی سے سمجھ لیتا ہے۔
تلفظ اور احتیاط:
امام احمد رضا نے اپنے کلام کے توسط سے بہت سے متروک لفظوں میں نئی جان ڈال دی ہے۔ادبی دقایق کی گرہیں کھولی ہیں، نکتہ سنجی نے مفہوم کو وسعت عطا کر دی ہے، فنی فضا بڑی نکھری نظر آتی ہے ہمارے امام کے کلام میں، آپ کا ادبی و لسانی رخ سے یہ کارنامہ ہے کہ اردو زبان کو تاثیر بیان عطا کی ہے۔ نئے لب و لہجے سے آشنائی بخشی، غنائیت و نغمگی عطا کی، یہی سبب ہے کہ سخن داں و سخن ساز جب اشعار رضاؔ کا مطالعہ کرتے ہیں تو امام احمد رضا کے منفرد ادبی مقام کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہتے۔ اشعار رضاؔ کو درست تلفظ کے ساتھ پڑھنا بھی اہل علم ہی کا خاصہ ہے۔
احسن العلما چوں کہ شارح کلام رضاؔ تھے اس لیے آپ کلام رضاؔ کے تلفظ کا بھی خاص خیال رکھتے، اگر کوئی تلفظ میں غلطی کرتا تو ایک مشفق استاذ کی حیثیت سے اصلاح فرماتے یوں ہی کلام میں حزم واحتیاط کا لحاظ رکھتے۔ امام احمد رضا کے مشہور قصیدہ کا شعر ہے:
وہ سرور کشور رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لیے تھے
اس ضمن میں مذکوہ پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت اشرف میاں تحریر فرماتے ہیں:
یہ قصیدہ تو وہ بہت ہی استغراق اور وجد کے عالم میں پڑھتے اور اس میں استعمال شدہ صِفتوں کی تشریح ایسے دل کش انداز میں فرماتے کہ ہم بچوں کے ذہن میں بھی بات نقش ہو جاتی۔
اعلیٰ حضرت کا شعر اگر کوئی غلط پڑھتا تو نرم انداز میں ضرور ٹوک دیتے، اکثر فرماتے:
’’حدائق بخشش سمجھنا تو الگ، پڑھنا بھی ہر ایرے غیرے کے بس کی بات نہیں ہے‘‘
اس غلام قادری راقم الحروف نے بھی یہ قطعہ اپنے والد معظم کی اسی بات کی یاد کی چھاؤں میں بیٹھ کر لکھا ہے۔
(یہ قطعہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃوالرضوان کے حاسدین و مخالفین کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے۔):
منارِ قصر رضا تو بلند کافی ہے
تم اس کے پہلے ہی زینے پہ چڑھ کے دکھلا دو
فتاویٔ رضویہ تو اک کرامت ہے
ذرا حدائق بخشش ہی پڑھ کے دکھلا دو (۸)
اور بلاشبہہ یہ احسن العلما جیسے اکابر علما کا ہی وصف ہے کہ وہ ’’حدائق بخشش‘‘ کی تفہیم کے ساتھ ہی اس کی شرح کی صلاحیت سے بہرہ ور ہیں۔
تشریحات کے چند نمونے:
احسن العلما کے خطبات سے بعض اشعار رضاؔ کی تشریح و توضیح کے چند نمونے ہم یہاں پیش کرتے ہیں، قارئین دیکھیں کہ کس طرح سادہ و دل کش انداز میں وضاحت و صراحت فرماتے ہیں کہ ہر شعر مفہوم و مطلب کے ساتھ حاشیۂ ذہن پر محفوظ ہو جاتا ہے اور تشریح سمجھ لینے کے بعد جو لطف ملتا ہے اسے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ان تشریحات کو پڑھتے وقت یہ ذہن میں رہے کہ حضرت احسن العلما ہر جمعہ نماز سے قبل مسجد برکاتی مارہرہ شریف میں خطاب فرمایا کرتے تھے، جس میں سامعین کی استعداد کے پیش نظر گفتگو فرماتے، اور ذہن نشین کرانے کی غرض سے سامعین سے سوال بھی کرتے، انھیں خطبات سے اشعار کی تشریح والے اقتباس اختصار کے ساتھ اپنے موقف کی دلیل میں ہم پیش کیے دیتے ہیں۔
نمونۂ اول:
تو ہے سایہ نور کا ہر عضو ٹکڑا نور کا
سایے کا سایہ نہ ہوتا ہے نہ سایہ نور کا
احسن العلما فرماتے ہیں:
’’وہ (آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم) خود نور مطلق کا سایہ ہیں۔ نور مطلق کون؟ اللہ جل جلالہٗ و عم نوالہٗ، اس کا سایۂ رحمت آپ بن کر تشریف لائے ہیں، تو ہم روز دنیا میں دیکھتے ہیں کہ ہم چلتے ہیں، اٹھتے ہیں، بیٹھتے ہیں، پھرتے ہیں تو ہمارا سایہ پڑتا ہے، لیکن کبھی آپ نے سایے کا بھی سایہ دیکھا ہے؟ پرچھائیں کی پرچھائیں دیکھی ہے؟ اللہ اکبر! تو یہ تو سایۂ رحمت بن کر تشریف لائے ہیں۔
دوسری بات اور فرمائی علما نے، ایک اور نکتہ بیان فرمایا انھوں نے، کہا دیکھو ایسا ہے کہ جس جگہ آدمی کی پرچھائیں پڑتی ہے اتنی جگہ میں کیا ہوتا ہے؟ (سامعین:اندھیرا ہوتا ہے) اجالا تو نہیں ہوتا ہے نا؟
(سامعین: نہیں) اندھیرا ہوتا ہے۔ اور ان کے یہاں تو اندھیرے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ کفر و شرک سب سے بڑا اندھیرا ہے۔ ان کی (آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی) ایک نظر رحمت اٹھ جائے، تو عمر کے بڑے حصے جن کے بیت جاتے ہیں کفر کرتے کرتے لیکن ایک نظر رحمت اٹھی نہیں اور پھر معلوم نہیں کیا سے کیا بن جاتے ہیں۔ (یعنی دل کی دنیا ایمان کے نور سے منور ہو جاتی ہے)اللہ اکبر۔‘‘(۹)
تبصرہ:
نورانیت مصطفی جان رحمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے موضوع پر امام احمد رضا کے شعر کی کیسی عمدہ وضاحت کی، آقاے دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جسم مبارک کا بے سایہ ہونا آپ کے فضائل سے ہے۔
امام احمد رضا فرماتے ہیں:
’’اب نہ رہے مگر وہ لوگ جنھیں طولِ صحبت روزی ہوا اور حضور کو آفتاب یا ماہ تاب یا چراغ کی روشنی میں ایسی حالت میں دیکھا کہ مجمع بھی کم تھا اور موقع سایہ پر بالقصد نظر بھی کی اور ادراک کیا کہ جسم انور ہم سائیگیِ سایہ سے دور ہے۔‘‘(۱۰)
نمونۂ دوم:
تم سے خدا کا ظہور اس سے تمھارا ظہور
لِم ہے یہ وہ اِن ہوا تم پہ کروروں درود
احسن العلما فرماتے ہیں: ’’اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں ع
تم سے خدا کا ظہور اس سے تمھارا ظہور
لوگوں کی پیشانیوں پر سلوٹیں پڑ جاتی ہیں اعلیٰ حضرت کا نام سُن کر لیکن سنی مسلمان کے ماتھے پر سلوٹ نہیں پڑ سکتی، اس کا چہرہ تو پھول کی طرح کھل جائے گا۔ دیکھو میں اتنی دیر سے ان کی (اعلیٰ حضرت کی) نعت پڑھ رہا ہوں لیکن کیا کروں مجبور ہوں، اللہ اکبر! کوئی چیز چھوڑی ہی نہیں ہے اعلیٰ حضرت نے بیان فرمانے سے،
فرماتے ہیں:
تم سے خدا کا ظہور اس سے تمھارا ظہور
لِم ہے یہ وہ اِن ہوا تم پہ کروروں درود
اب میں تمھیں اس کے معنی بتادوں، تم سے خدا کا ظہور، یہ مصرع بہت صاف ہے۔ تم سے خدا کا ظہور اس سے تمھارا ظہور، لِم ہے یہ وہ اِن ہوا تم پہ کروروں درود، تو یہ لِم اور اِن کیا ہے؟ حافظ صاحب (حافظ شریف برکاتی) بھی پوچھ رہے ہیں مجھ سے کہ یہ کیا دو لفظ، لِم لام میم اور یہ الف نون اِن کیا ہے؟ یہ لِم اور اِن کیا؟ میں بتاؤں آپ کو کہ منطق میں دو دلیلیں بہت مشہور ہیں:
ایک ’’دلیل لمی‘‘ کہلاتی ہے، اور ایک ’’دلیل اِنی ‘‘کہلاتی ہے۔آپ کہیں گے پھر وہی بات کہ دلیل لِمی اور دلیل اِنی۔
ہاں! وہی بات سنو، دلیل کے معنی ہیں کھلی ہوئی روشنی، جو حق چیز کو چمکا دے، جو اس کا مدلول ہے جس کے لیے وہ لائی گئی ہے اس کو بالکل صاف صاف بیان کر دے۔ جیسے آپ سب میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ میں آپ کے کان بھی دیکھ رہا ہوں، ناک بھی دیکھ رہا ہوں، ایسے ہی آپ میرے دیکھ رہے ہیں۔ پیٹھ البتہ آپ کی مجھ سے پوشیدہ ہے تو آپ کی بھی نظرسے میری پیٹھ پوشیدہ ہے۔ ادھر کی طرف ہے۔ تو دلیل اِنی کہتے ہیں اس کو کہ دلیل سے مدلول پر روشنی پڑے۔ اور دلیل لِمی کہتے ہیں کہ مدلول سے دلیل پر روشنی پڑے۔ آ گئی بات سمجھ میں؟ اچھا ابھی نہیں آئی تو اب سنو میں مثال دے کر بتاتا ہوں، مثلاً آپ نے کہا ان کانت الشمس طالعۃ فالنہار موجود اگر سورج چمک رہا ہے تو دن موجود ہے۔بولو بھائی اب آئی سمجھ میں۔وہ تو عربی کا جملہ تھا نہیں سمجھ میں آیا ہو گا۔ ان کانت الشمس طالعۃ فالنہار موجود اگر سورج موجود ہے، بولو بھائی اس وقت سورج موجود ہے کہ نہیں ہے؟
(سامعین:ہے) یہ رات ہے کہ دن ہے؟ (سامعین:دن) جمعہ کی نماز رات کو پڑھو گے؟
(سامعین: نہیں)
جمعہ کا وہی وقت ہے جو ظہر کاوقت ہے۔ ان کانت الشمس طالعۃ فالنہار موجود اگر سورج چمک رہا ہے تو دن موجود ہے۔ معلوم یہ ہوا کہ سورج چمکنا یہ دلیل ہے، کاہے کی؟ دن کے موجود ہونے کی۔ تو دلیل سے مدلول پر روشنی پڑی، آیا سمجھ میں؟ دلیل سے مدلول پرروشنی پڑی۔ اچھا اب تم نے یہ نہیں کہا ان کانت الشمس طالعۃ فالنہار موجود بلکہ تم نے یہ کہا دن موجود ہے، اس لیے کہ سورج چمک رہا ہے۔ پہلے پھیرے میں تم نے یہ کہا تھا کہ چوں کہ سورج چمک رہا ہے اس لیے دن موجود ہے۔ اب اس کو الٹ کر کہا، یہ دلیل لِمی ہے۔ وہاں دلیل سے مدلول پر روشنی پڑی اور یہاں مدلول سے دلیل پر روشنی پڑی۔ اب اس شعر کو سمجھنے کی کوشش کرو:
تم سے خدا کا ظہور اس سے تمھارا ظہور
لِم ہے یہ وہ اِن ہوا تم پہ کروروں درود
اللہ اکبر! اللہ ہے اس لیے کہ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں۔ اور محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں اس لیے کہ اللہ ہے، جل جلالہٗ و عم نوالہٗ۔یاد رکھنا اس بات کو۔‘‘(۱۱)
تبصرہ:
شعر رضا کی شرح میں احسن العلما نے تمثیل سے کام لے کر اصطلاح کی توضیح کی ہے۔ اور موجود حقیقی کے مظہر رسول اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وجود کو حق تعالیٰ کے وجود کی دلیل بتایا ہے۔ اس طرح خالق کی موجودگی اور افضل الخلق کی عطاے الٰہی سے موجودگی کا فلسفہ بیان کیا ہے۔
نمونۂ سوم:
تیرے بے دام کے بندے ہیں رئیسان عجم
تیرے بے دام کے بندی ہیں ہزاران عرب
احسن العلما شعر مذکور کے تحت اپنے خطاب میں فرماتے ہیں:
’’دونوں جگہ ’دام‘ استعمال ہوا ہے۔ ایک جگہ ’دام‘ کے معنی ’قیمت‘ کے ہیں اور ایک جگہ ’دام‘ کے معنی ’جال‘ کے ہیں۔ تیرے بے دام کے بندے ہیں رئیسان عجم۔ تیرے بے دام کے۔ دام کوئی نہیں ٹھہرایا آپ نے۔ معاذاللہ آپ نے کوئی جال بھی نہیں پھیلایا۔ لیکن جس کو دیکھیے تو معلوم ایسا ہوتا ہے کہ سب جال میں قید ہیں۔(یعنی اسیر محبت ہیں) آپ کی آنکھ(مبارک) دیکھی، آپ کے چہرہ (اقدس)پر نظر پڑی۔ بوجہل نے جب کہا کہ انھیں بند کر دو، انھیں جیل میں ڈال دو تو اس کے ساتھیوں میں سے کسی نے کہا کہ نہیں اس سے بھی کام نہیں چلے گا، ان کا سوشل بائی کاٹ کر دو۔ کسی نے کہا اس سے بھی کام نہیں چلے گا، کہا ان کے گھر آنا جانا بند کر دو۔ کہا اس سے بھی کام نہیں چلے گا، کہا ان کے راستے میں کانٹے بچھا دو، تو کہا اس سے بھی کام نہیں چلے گا اس لیے کہ تم نے بند کر دیا جیل میں، جیل کی سلاخوں کے پیچھے یہ چلے گئے لیکن جو ان کو باہر سے دیکھے گا، کسی کی آنکھ میں پیار تیری زبان میں ہے، کسی کی آنکھ میں جادو تیری زبان میں ہے۔ اللہ اکبر!اگر ایک بات بھی کر لی یا بات بھی نہیں کی، ان کی زبان بھی نہیں ہلی، صرف چہرے پر نظر پڑی توان کی صورت پاک پر وہ جاذبیت ہے، وہ کشش ہے۔ عام طور پر لوگ ایسے موقع پر بول دیتے ہیں وہ گل مو ہنی ہے، لیکن میں احترام رسالت کے سلسلے میں یہ لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتا۔ وہ کشش وہ جاذبیت ہے۔ اللہ اکبر! کہ جو آتا ہے قتل کرنے کے لیے وہ خود قتل ہو کر واپس جاتا ہے۔‘‘(۱۲)
تبصرہ:
احسن العلما نے شعر کی شرح میں وہ عجب دل کش منظر نگاری کی ہے کہ عشق کے قافلے صف در صف نظر آتے ہیں۔ حسد میں لوگ آتے ہیں نبوی عظمت کا چراغ گل کرنے لیکن اک جھلک دیکھ کر قتل (فدا) ہو جاتے ہیں۔ ایمان کی لذت سے آشنا ہو کر اسیر بارگاہِ ناز ہو جاتے ہیں۔
احسن العلما نے سادگی و پرکاری کا عمدہ نمونہ اپنی تشریح میں پیش کیا ہے۔ہمارے مقررین کو ایسی ہی سادہ تشریح کر کے عوام کی معلومات میں اضافہ کرنا چاہیے۔
نمونۂ چہارم:
کیا بات رضاؔ اس چمنستان کرم کی
زہراہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول
احسن العلما شعر مذکور کے تحت فرماتے ہیں:
’’کیا بات رضا… کیا بات رضا… یوں تو بہت چمنستان ہیں، موگرا بھی کھل رہا ہے، موتیا بھی کھل رہا ہے، اور سوسن و یاسمن اور بنفشہ اور گل و نسترن سب ہی موجود ہیں، اللہ اکبر! لیکن کہیں ایسا بھی چھوٹا سا گلستاں مل جاتا ہے، بظاہر چھوٹا سا ہے لیکن اس میں اور کوئی پھول ہے یا نہیں ہے لیکن ’’گلِ ہزارہ‘‘ لگا ہوا ہے۔ میاں! جب گلاب کھلتا ہے تو سب کی خوش بوئیں ماند ہو جاتی ہیں اور گلاب ہی میں خاصیت ہے کہ زندہ رہتا ہے تو خوش بو دیتا ہے اور مُرجھا جاتا ہے تو بھی خوش بو دیا کرتا ہے۔ بولو بھائی، سچ ہے! (سامعین :سچ ہے) آئی بات سمجھ میں میری! ارے زندہ رہتا ہے، اس کی پتیاں ہری رہتی ہیں، تازہ رہتی ہیں، تب بھی خوش بو دیتا ہے، اللہ اکبر! اور جب بالکل مُرجھا جاتا ہے، چُڑ مُڑ ہو جاتا ہے، عطاروں کے یہاں سے جو گلاب آتا ہے، یونانی دواؤں میں شامل ہوتا ہے وہ خشک ہونے کے بعد بھی خوش بو دیتا ہے۔ سبحان اللہ! یہ گلِ ہزارہ ہی میں خصوصیت ہے، موگرا بھی مُرجھانے کے بعد بے کار ہو جاتا ہے، کوئی خوش بو اس میں نہیں ہوتی۔ اور بہت سے تو ایسے بھی پھول ہیں جن میں کوئی خوش بو ہوتی ہی نہیں ہے، اللہ اکبر! ایسی بات ہے نا؟(سامعین: جی ہاں)
ایک انار ہوتا ہے، ایک گلِ انار ہوتا ہے۔ بولو! گلِ انار میں خوش بو ہوتی ہے؟ اس میں کوئی خوش بونہیں ہوتی انار کا جو پھل ہوتا ہے اس میں خوش بوہوا کرتی ہے، لیکن گلِ ہزارہ، گلِ گلاب وہ پورے چمن کی زینت ہوا کرتا ہے۔ تو فرماتے ہیں یہ جو چمنستاں ہے، یہ چمنستانِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم(ہے):
کیا بات رضاؔ اس چمنستان کرم کی
زہراہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول‘‘(۱۳)
[شعر مذکور کے تحت احسن العلما نے آگے حضرت امام حسن و امام حسین کی ولادت، ان پر آقاے دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عنایات، حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی نسبت و عظمت کا تذکرہ کیا ہے نیز مزید تشریحی نکات اجاگر کیے ہیں۔ مکمل تشریح سید محمد اشرف میاں برکاتی کی تالیف ’’یاد حسن‘‘ (مطبوعہ دارالاشاعت برکاتی مارہرہ مطہرہ ۲۰۰۳ئ)میں ملاحظہ کریں۔]
تبصرہ:
باغبانی کے ماہرین اس تشریح سے کیا حظ اٹھائیں گے،
شعر رضاؔ کی تفہیم میں گلستاں آباد فرما دیا ہے احسن العلما نے، گلِ برکات نے گلشن بریلی کی وہ بہار ایک شعر کی تشریح میں سمو دی کہ طبیعت فرحت و انبساط پاتی ہے اور روح جھوم جھوم اٹھتی ہے۔ گویا یہ تشریح طبعی ہے، جس میں گلوں کی کیفیات کے تناظر میں حضرات حسینن کریمین اور باغِ نبوت کے سدا بہار پھولوں کی نکہت کا ذکر ایسے انداز میں موجود ہے کہ خشک ذہن بھی تازگی محسوس کریں گے یعنی محبت اہل بیت اطہار سے ایمان کے باغ میں بہار آئے گی۔
تفہیم کے سلسلے میں ایک واقعہ:
۱۹۸۵ء میں احسن العلما نے کراچی میں مشہور مترجم و ادیب حضرت شمس بریلوی(م۱۹۹۷ئ) سے ملاقات کی، اس ملاقات کا مقصد بعض اشعار رضاؔ کی توضیح و تفہیم کے سلسلے میں استفسار تھا۔
حضرت شمس بریلوی نے امام احمد رضا کے کئی ان قصائد پر تشریحی کام کیا تھا جو اصطلاح ہیئت و نجوم، علم فلکیات کے حوالے سے تھے۔ اور کلام رضاؔ کے فنی تجزیہ کے حوالے سے بھی حضرت شمس بریلوی کی خاصی شہرت تھی، ملاقات کے احوال پروفیسر ڈاکٹر مجیداللہ قادری (سکریٹری ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کراچی) کی زبانی ملاحظہ کریں جو اس محفل ملاقات کے شاہدتھے، موصوف لکھتے ہیں:
’’حضرت حسن میاں صاحب علیہ الرحمہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا نعتیہ دیوان ’’حدایق بخشش‘‘ اپنے ہاتھ میں لیے ہوئے تھے، اور جا بجا صفحات پر نشانیاں بھی رکھی ہوئی تھیں۔ حضرت حسن میاں نے فرمایا:
شمس صاحب آپ سے اعلیٰ حضرت کے چند نعتیہ اشعار کی تشریح درکار ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ بر صغیر پاک و ہند میں صرف آپ ہی ان اشعار کی تشریح کر سکیں گے، کہ آپ ہی نے کلام رضاؔ کا ادبی و تحقیقی جائزہ پیش کیا ہے، میں نے کئی حضرات سے ان اشعار کی تشریح کے سلسلے میں رجوع کیا، مگر مجھے کوئی بھی ان اشعار کے مطالب و مفاہیم سے مطمئن نہ کر سکا۔
حضرت حسن میاں نے سب سے پہلے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کا یہ شعر پڑھا اور فرمایا کہ آپ اس کی تشریح فرمائیں:
بلبل و نیل پر و کبک بنو پروانو
مہ و خورشید پہ ہنستے ہیں چراغانِ عرب
حضرت شمس نے بے تامل فرمایا کہ:
اعلیٰ حضرت کے اس شعر کا بنیادی خیال اس شعر میں موجود ہے:
کہہ دو یہ کوہ کن سے کہ مرنا نہیں کمال
مر مر کے ہجرِ یار میں جینا کمال ہے
اس شعر میں ایک تلمیح ہے……تلمیح یہ ہے کہ ’’بلبل‘‘ گل پر فریفتہ ہے۔ نیل پر (فاختہ کے برابر جسم والا بہت ہی خوب صورت پرندہ) آفتاب پر عاشق ہے۔ اور ’’کبک‘‘ نیل پر کی طرح بجائے آفتاب کے ماہ تاب پر جان دیتا ہے۔
یہ تینوں عاشقان صادق اپنے محبوب کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔
بلبل تو گل بن پر منڈلاتی ہے اور چکر لگاتے لگاتے بے خود ہو کر گل پر اپنے رُخسار رکھ کر بے ہوش ہو جاتی ہے اور بار بار کے اس عمل سے اس کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے……’’نیل پر‘‘ جب آفتاب نصف النہار پر ہوتا ہے تو اس تک پہنچنے کے لیے بے تحاشا پرواز کرتا ہے اور بہ حد تاب و تواں پرواز کرتا ہے اور آخر کار اس پرواز میں اس کا جگر پھٹ جاتا ہے اور فضا سے مردہ زمین پر گرتا ہے۔ ’’کبک‘‘ کا بھی یہی حال ہے کہ ماہ تاب پر فریفتہ ہے، ماہ کامل کو دیکھ کر بے ساختہ چیختا ہے یا اس کی طرف پرواز کرتا ہے اور ’’نیل پر‘‘ کی طرح آخر کار یہ بھی مر کر زمین پر آگرتا ہے۔ کبک، نیل پر سے تقریباً دو گناہ اور سہ گناہ بڑا ہوتا ہے، بعض لوگ کبک کو گھروں میں پالتے ہیں اور اس کے پنجرے کو چاندنی سے اس حد تک بچاتے ہیں کہ اس کے پنجرے پر دو تین بستنی چڑھاتے ہیں، اگر چاندنی کی ایک کرن بھی دیکھ لیتا ہے تو پھر بے تحاشا چیختا ہے۔
اس تلمیح کو سامنے رکھتے ہوئے شعر کے مفہوم پر غور کیجیے کہ حضرت رضاؔ فرماتے ہیں کہ
اے پروانو! تم شمع محفل پر اس طرح خاموشی سے جان کو قربان کرتے ہو، جان اگر قربان کرنا ہے تو بلبل، نیل پر اور کبک کی طرح قربان کرو، کہ چراغانِ عرب تو مہ و خورشید سے بھی زیادہ فروزاں ہیں، شمع محفل کا کیا ذکر، اس طرح حضرت شمس کئی منٹ تک اس شعر کی تشریح فرماتے رہے……‘‘(۱۴)
اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت احسن العلما کو اشعار رضاؔ کی تفہیم و توضیح سے کس قدر دل چسپی تھی، نیز یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شمس بریلوی کی علمی حیثیت احسن العلما کی نظر میں کتنی بلند تھی گویا حضرت شمس بریلوی کی ادبی و علمی بصیرت پر مہر تصدیق لگا دی ہے احسن العلما نے۔
بہر حال اختصار کے پیش نظر انھیں چند نکات پر موضوع کو سمیٹا جاتا ہے۔ احسن العلما کی وہ تحریریں جو مارہرہ شریف کے کتب خانہ میں محفوظ ہوں گی ان میں بھی یقینا تفہیم کلام رضاؔ کے پہلو سے مواد ہوگا جس کو سامنے لانے پر اشعار رضاؔ کی تحقیق و تفہیم اور توضیح میں بڑی مدد ملے گی، امید کہ بزم ادب کا کوئی خوشہ چیں اپنے رہ وارِ فکر کو اس موضوع پر موڑ کر علم و ادب کے کئی ایسے جواہر سامنے لائے جن سے نگاہیں خیرہ ہوں اور علمی ذخیرے میں قابل قدر اضافہ ہو۔
خلاصۂ کلام:
احسن العلما کی شخصیت بڑی جامع تھی، ان کی زندگی سراپا درس تھی،خطبا درس لیں، احسن العلما کی سی سادگی اپنائیں، تصنع و بناوٹ سے خطابت کا حسن ماند پڑ جاتا ہے، خطاب کا مقصد فوت ہو جاتا ہے، احسن العلما اپنے خطاب کے ذریعے اشعارِ رضا کی محض تفہیم ہی نہیں فرماتے بلکہ اسلامی تعلیمات اور سیرت طیبہ کے نقوش، محبت اہل بیت اطہار نیز اولیاے کرام کی عقیدت کا عطر کشید کر دیتے جس سے من کی دنیا میں خوش بو پھیل جاتی اور ایمان کی فصل ہری ہو جاتی، آپ کی گفتگو عالمانہ ہونے کے ساتھ ساتھ صوفیانہ بھی ہوتی جس سے اخلاقی بصیرت بھی مہیا ہوتی،اور خانقاہ برکاتیہ نے تو ہر دور میں کردار سازی کا مقدس فریضہ انجام دیا ہے۔ اشعار رضاؔ کے حوالے سے احسن العلما نے اخلاق و کردارنبوی علیہ التحیۃ والثنا کی وہ تشریح فرمائی کہ جنھیں بزم حیات میں سجا لیا جائے تو ذہن و فکر نور نور ہو جائیں، خیالات کی وادیاں زرخیز ہو جائیں، اور خطیب کی خطابت کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ جو بات پیش کی جا رہی ہے اسے عملی طور پر قبول کیا جائے۔
احسن العلما نے اشعار رضاؔ کی شرح کیا فرمائی سیرت طیبہ کے جلوے نکھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ امام احمد رضانے یہی کیا کہ اپنی نعت کے تناظر میں محبت نبوی کی روح اگلی نسلوں میں منتقل کی، دل کو طیبہ کی یاد میں وارفتہ کر دیا، ایسا کہ قول و فعل سبھی سنت رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے آئینہ دار ہو گئے، دل و جاں، ہوش و خرد، فکر و نظر سبھی کچھ شہ بطحا کے دیار کی یادوں میں کھو گئے، یہی عشق کی معراج بھی ہے اور منزل مقصود بھی، بقول اعلیٰ حضرت:
جان و دل ہوش و خرد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضاؔ سارا تو سامان گیا
امام احمد رضا نے اپنی شاعری کے ذریعے دین حق کی روشن راہ واضح کی، اور اس پر استقامت کے لیے جان ایمان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے نسبت و تعلق اور روح کا رشتہ ضروری ہے۔
ایسی محبت جس میں واقعیت ہو۔ امام احمد رضا نے تحقیق و مشاہدہ کی بنیاد پر یہ نتیجہ نکالا کہ اس دور انحطاط میں جب کہ فکروں کا سودا کیا جا چکا تھا، رسول کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں بے ادبی و توہین کی فضاے مسموم ہم وار کی جا چکی تھی ، عشق و محبت رسول کی متاعِ گراں بہا کی حفاظت اشد ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام احمد رضا کا شعری و نثری سرمایہ عظمت و شان اور تعظیم مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا آئینہ دار ہے۔ آپ کی محتاط شاعری کی توضیح کے لیے بھی علم وسیع درکار ہے،
احسن العلما جیسی محتاط شخصیت جن کا علمی استحضار ان کے عہد میں مسلّم تھا،نے اشعار رضاؔ کی تفہیم کا نکھرا اور ستھرا مزاج دیا، راقم نے جتنے نمونے پیش کیے وہ تشریحات کے بعض پیراگراف پر مشتمل ہیں ورنہ ایسے تشریحی نکات بھی موجود ہیں جو ایک ایک شعر کی شرح میں دسیوں صفحات پر محیط ہیں۔آپ کی بصیرت علم اور رضویات جو بہ طور فرع علم متعارف ہے اس میں مہارت پر شارح بخاری مفتی محمدشریف الحق امجدی علیہ الرحمہ کا یہ تبصرہ صداقت کا آئینہ دار ہے:
’’(احسن العلما)مجدد اعظم اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے عاشق زار تھے۔ مسلک اعلیٰ حضرت سے سر مو انحراف کو برداشت نہ کر پاتے، اعلیٰ حضرت قدس سرہ کے حالات و کوایف کے جزئیات پر کامل عبور تھا میں تو یہ کہتا ہوں کہ آپ اپنے وقت میں سب سے بڑے ’’ماہر رضویات‘‘ تھے۔‘‘(۱۵)
احسن العلما علیہ الرحمہ نے امام احمد رضا کے اشعار کی تشریح و تفہیم کا جو معیاری نمونہ پیش کیا اور واعظین کو خطابت کے لیے اشعار رضاؔ سے استفادے کا سلیقہ بخشا اسے مزید اجاگر کیا جانا چاہیے، خطبا و واعظین ایک ایک شعر کی تشریح احسن العلما کے اسلوبِ تفہیم کے آئینے میں کریں گے تو عام طبقہ بھی منظومات رضاؔ کے علمی دقایق نیز فنی خوبیوں سے آشنا و آگاہ ہو گا،جس سے عشق رسول کریم علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم کی تپش تیز ہو گی۔
===========================
==============================
================================
مآخذ و مصادر:
(۱) سید محمد اشرف برکاتی، یاد حسن، مطبوعہ دارالاشاعت برکاتی مارہرہ مطہرہ ۲۰۰۳ئ، ص۱۹
(۲) پروفیسر ڈاکٹر سید جمال الدین اسلم مارہروی نے متعدد تقاریر کو تحریری شکل دے کر اشاعت کی ہے۔
(۳) اہل سنت کی آواز مارہرہ مطہرہ ،ص ۲۷۲، اکتوبر۱۹۹۹ء
(۴) نفس مصدر، خصوصی شمارہ:اکابر مارہرہ مطہرہ(حصۂ دوم)،ص ۶۴۲۔۶۴۳،اکتوبر۲۰۱۰ء
(۵) نفس مصدر، خصوصی شمارہ:اکابر مارہرہ مطہرہ(حصۂ دوم)،ص ۵۶۲،اکتوبر۲۰۱۰ء
(۶) نفس مصدر،ص ۷۸، اکتوبر۲۰۰۰ء
(۷) نفس مصدر، خصوصی شمارہ:اکابر مارہرہ مطہرہ(حصۂ دوم)،ص ۵۶۲،اکتوبر۲۰۱۰ء
(۸) نفس مصدر، خصوصی شمارہ:اکابر مارہرہ مطہرہ(حصۂ دوم)،ص ۵۶۴،اکتوبر۲۰۱۰ء
(۹) نفس مصدر،ص ۸۵، اکتوبر۲۰۰۰ء
(۱۰) احمد رضا بریلوی، امام، قمرالتمام فی نفی الظل عن سیدالانام، ص۲۵، مطبوعہ برکات رضا پوربندر گجرات ۲۰۰۸ء
(۱۱) اہل سنت کی آواز مارہرہ مطہرہ ،ص ۱۱۱۔۱۱۳، اکتوبر۲۰۰۰ء
(۱۲) نفس مصدر ،ص ۱۰۱۔۱۰۲، اکتوبر۲۰۰۰ء
(۱۳) سید محمد اشرف برکاتی، یاد حسن،ص۳۴۸،مطبوعہ دارالاشاعت برکاتی مارہرہ مطہرہ۲۰۰۳ء
(۱۴) مجیداللہ قادری، ملفوظات شمس،ص۴۱تا۴۴،مطبوعہ ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا کراچی۲۰۰۳ء
(۱۵) سیرت احسن العلما(مجموعۂ مضامین)ص۲۹، مطبوعہ برکاتی پبلشرز کراچی۱۹۹۸ء
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.