You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اے کاش،بیٹیاں تو پیدا ہی نہ ہوتیں
تحریر :۔محمد احمد ترازی
”برادر ِ گرامی قدر سلامت باشید۔ ۔ ۔ ۔ السلام علیکم!جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ بچی کی شادی کرنی ہے،رشتہ طے ہوچکا ہے مگر تاریخ مقرر نہیں ہورہی کیونکہ تہی جیب ہوں،اب تک بہت ہاتھ پیر مارے کہ بچی کی شادی کے جملہ اخراجات کیلئے کچھ رقم ہوجائے مگر ناکام رہا ہوا،اب آپ ہی بتائیں کدھرجاؤں،تمام زندگی علم وادب کی بے لوث خدمت میں گزار دی،کبھی روپیئے پیسے کا لالچ نہیں کیا،مگراب حالات کی چکی میں پس رہا ہوں۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ بیٹی کو گھر سے کیسے رخصت کروں،پہلے تو غریب آدمی سے کوئی رشتہ ہی نہیں لیتا۔ ۔ ۔ ۔اگر لے لیتا ہے تو پھر جہیز کا مطالبہ۔ ۔ ۔ ۔جہیز کے علاوہ بھی بہت سے خرچے مثلاًزیورات۔ ۔ ۔ ۔ ملبوسات۔ ۔ ۔ ۔اور۔ ۔ ۔ ۔بارات کے کھانے کا خرچہ۔اگر یہ چیزیں دولہا والوں کے معیار پر پوری نہ اتریں تو سب کچھ خاک میں مل جاتا ہے۔کوئی راستہ سجائی نہیں دیتا۔ ۔ ۔ ۔کیا کروں۔ ۔ ۔ ۔کدھر جاؤں۔ ۔ ۔ ۔کیا بچی کو تمام عمر گھر پر بیٹھا رکھوں۔؟اپنی بیماری پر ہرماہ ہزاروں کا خرچہ۔ ۔ ۔ ۔گھر کا خرچہ۔ ۔ ۔ ۔اب شادی کہاں سے ہو۔ہے کوئی میری مشکل حل کرنے والا۔ ۔ ۔ ۔کوئی دوست۔ ۔ ۔ ۔کوئی ادارہ۔ ۔ ۔ ۔کوئی تنظیم۔ ۔ ۔ ۔کوئی صاحب ِ دل ۔ ۔ ۔ ۔جو خاموشی سے اور پردے میں میری دستگیری کرے ۔ ۔ ۔ ۔کہ میری عزت ِ نفس بھی مجروح نہ ہو اور عزت بھی خاک میں نہ ملے۔ ۔ ۔ ۔اے کاش بیٹیاں تو پیدا ہی نہ ہوتیں۔
یہ خط یہ عریضہ اور یہ اپنا مرثیہ،بڑی مجبوری۔ ۔ ۔ ۔دکھ۔ ۔ ۔ ۔درد۔ ۔ ۔ ۔اور۔ ۔ ۔ ۔بے بسی کے عالم میں لکھ رہا ہوں،آپ کے پاس کوئی حل ہو تو بتادیجئے ،زیادہ کیا عرض کروں۔ ۔ ۔ ۔
کوئی محرم ِ راز نہ مل دا۔ ۔ ۔ ۔کینوں حال سناواں دل دا۔ ۔ ۔ ۔
فقط والسلام۔ ۔ ۔ ۔ایک پریشان حال ،مجبور باپ۔“
مورخہ گیارہ نومبر کو ہمارے نام آنے والا یہ خط ملک کے مشہور مولف ومحقق اور صاحب طرز ادیب کا ہے،جنھوں نے ساری زندگی علم وادب کی خدمت میں گزاردی، کم وبیش سو کے قریب چھوٹی بڑی کتابیں مرتب کیں۔بیشتر مقبولیت عامہ کے درجہ پر پہنچی اور تحقیق کا بنیادی ماخذ قرار پائیں،آج علمی وادبی حلقوں میں اُن کا نام غیر معروف نہیں۔بیرون ملک بھی لوگ اُن کی خدمات کوقدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ حلقہ احباب میں عزت وا حترام کا جذبہ پایا جاتا ہے،لوگ اُن سے محبت وعقیدت رکھتے ہیں اور اُن کی تخلیقات کوپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ہمارا اُن سے دیرینہ تعلق ہے جس کی بنیاد محبت اوراخلاص ہے،انہوں نے ہمارے ساتھ مشفق رویہ رکھا،ہمیشہ محبت کا مظاہرہ کیا،بارہا قیمتی اور نایاب کتابوں کے تحفوں سے نوازا اور کبھی بھی علمی تعاون سے گریز نہیں کیا،ہم اُن کی علمی رہنمائی اورقلمی احسان کے مقروض اور محبت و شفقت کے اسیر ہیں،چاہ کر بھی اُن کا نام سامنے نہیں لاسکتے کہ یہی ایک مجبور باپ کی سفید پوشی اور عزت نفس کا تقاضہ ہے ۔
قارئین محترم۔ ۔ ۔ ۔! اِس خط کے مندرجات ایک بے کس و مجبور باپ کی لاچاری،بے بسی اورکسمپرسی کا نوحہ ہی نہیں سناتے بلکہ ہماری معاشرتی قدروں کی زبوں حالی اور اخلاقی تباہی کی نشاندہی بھی کرتے ہیں،یہ ہمارے اُس معاشرتی رویئے کے عکاس ہیں جس میں ایک دوسرے سے لاپروائی،سنگدلی،بے حسی اور ظالمانہ خودغرضی جھلکتی ہے،اِس معاشرتی المیے نے بیٹی جیسی اللہ کی رحمت کو ایک سفید پوش باپ کیلئے بوجھ بناکراُسے یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ ”اے کاش،بیٹیاں تو پیدا ہی نہ ہوتیں۔“
اَمر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت ہمارا معاشرہ جس بے حسی،معاشی بدحالی اور خودغرضی کا شکار ہے اُسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ہے،سچ تو یہ ہے کہ آج کے دور کا انسان جو کبھی ایک دوسرے کا ہمددر اور غمگسار ہوا کرتا تھا،آج محض خود غرضی اور نفسانفسی کی عملی تفسیر بن کر رہ گیا ہے،آج ہماری روز مرہ کی زندگی کا محور بس اپنی ذات ہے،چنانچہ ہماری زندگی کا سارا کاروبار صرف اسی کے گرد گھومتا ہے،بے شمار چیزیں ایسی ہیں جن کی طلب ہمیں چین سے نہیں بیٹھنے دیتی،ہماری عام فطرت یہ ہے کہ ہم اُن ہی چیزوں کے پیچھے بھاگتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں یہ یقین ہوتا ہے کہ یہ ہمارے لیے نفع بخش اور فائدہ مند ہیں، مادی آسودگی ہی ہماری زندگی کا پیمانہ ہے،ہم وہی کام کرتے ہیں جس میں ہمیں چار پیسے کا فائدہ نظر آتا ہے اور ہر اُس عمل سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں ہمیں دنیاوی اعتبار سے نقصان کا احتمال ہوتا ہے، درحقیقت زندگی کے بارے میں ہمارا نظریہ ہی بدل گیاہے،ہم حقیقت کو افسانہ اور افسانے کو حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں،یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مادی زندگی میں بری طرح الجھ کر رہ گئے اور اُس زندگی کی ہم نے فکر چھوڑ دی جو اخروی اور دائمی ہے۔
اسلام میںشادی جو ایک خوبصورت رشتہ ہے دو خاندانوں کے ملاپ کا ذریعہ بنتا ہے،لیکن آج جہیز کے لالچ کی وجہ سے ایک کاروبار کی شکل اختیار کرگیا ہے،کتنی ہی بیٹیاں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے گھر میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جاتی ہیں یا کم جہیز لانے کی وجہ اُن کی زندگی عذاب بن جاتی ہے،اگر خدا نخواستہ لڑکی کا سسرال میں نباہ نہ ہوسکے تو ساری زندگی میکے والوں کے طعنے لڑکی کو سہنے پڑتے ہیں،ہمارے ہاں آئے روز ایسے واقعات میڈیاکی زینت بنتے رہتے ہیں کہ”جہیز نہ لانے پر سسرال والوں نے دلہن کو جلا دیا“،’’ کم جہیز لانے کی وجہ سے طلاق ہوگئی‘‘ یا ”جہیز نہ ملنے پر سسرالیوں نے لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔“یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ لڑکی والوں کی حیثیت نہ ہونے کے باوجود لڑکے والوں کی جانب سے بھاری جہیز کا مطالبہ کیا جاتا ہے،جس کی وجہ سے غریب والدین کو قرض کے بوجھ تلے دبنا پڑتا ہے اور اُن کی بقیہ زندگی قرض چکانے میں گزر جاتی ہے،جبکہ بہت سے والدین یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ اپنی بیٹی کو زیادہ جہیز دیں گے تو سسرال میں اُسے عزت ملے گی،قدر ہوگی اور خاندان میں اُن کی ناک اونچی ہوگی،جس کیلئے وہ اپنے آپ کو مشکل میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔
دوسری طرف امیر گھرانے اپنی بیٹیوں کی شادی پر مختلف قسم کے تحائف اور نقدی رقم جہیز میں دیتے ہیں تاکہ معاشرے میں اُن کی امیری کا رعب قائم رہے،وہ اپنی شان و شوکت کی نمودو نمائش اور اپنی بیٹیوں کو ہر قسم کی آشائش دیتے وقت یہ بھول جاتے ہیں کہ اُن پڑوس میں کوئی بھوکا بھی ہے یا اسکی جوان بیٹی دو جوڑے کپڑوں میں رخصتی کی منتظر ہے،اِس معاشرتی رویئے کی وجہ سے جہیز غریب گھرانوں کیلئے ایک سنگین مسئلے کی شکل اختیار کرگیا ہے،ہزاروں بیٹیاں شادی کی اصل عمر کو پار کر چکی ہیں اوراُن کے والدین اپنی بیٹیوں کی شادی کیلئے ترس رہے ہیں،یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایسی خواتین کی تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے،جن کی عمر 25 برس سے تجاوز کر چکی ہیں،یوں کنواری لڑکیوں کی شرح میں بڑھتا ہوا اضافہ ایک اور خطرناک معاشرتی مسئلے کی شکل اختیار کرگیاہے۔
یہ امر بھی اہمیت کا حامل ہے کہ شادی کے اخراجات میں بے پناہ اضافہ بھی اِس کی ایک بڑی وجہ ہے جس نے غریب اور نادار والدین کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کردیا ہے،اگر کسی طور غریب والدین اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کر بھی دیں تو شادی کے بعد لڑکے والوں کی جانب سے نت نئی فرمائشیں اور مطالبات لڑکی کی ہی نہیں والدین کی زندگی بھی اجیرن بنادیتے ہیں، ہمارے معاشرے میں ایسے افراد کی بھی کمی نہیں جو دیکھنے میں انتہائی با اخلاق اور مذہبی نظر آتے ہیں،اٹھتے بیٹھتے قرآن وحدیث کے حوالے بیان کرتے ہیں لیکن جب معاملہ اپنے بیٹے کی شادی کا آتا ہے تو ساری واعظ ونصیحت بھول جاتے ہیں،جبکہ ہم اگر جہیز کے سامان کو نظر انداز کر کے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت اور اُن کے کردار کو مد نظر رکھیں تو بہت سارے خاندان آباد ہو سکتے ہیں،ہمارا ماننا ہے کہ لڑکی کو جہیز کی بنیاد پر نہیں بلکہ حسن اخلاق،سلیقہ مندی اور تعلیم وتربیت کی بنیاد پر پرکھا جائے تویہ مسئلہ بہت حد تک حل ہوسکتا ہے اور کوئی لڑکی محض جہیز نہ ہونے کے سبب اپنے والدین کی دہلیز پر بیٹھی نہیں رہے گی۔
یہ درست ہے جہیز بیٹی کیلئے ماں باپ کی محبت اور شفقت کی نشانی ہوتا ہے،خود حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کتنا جہیز میں دیا تھا وہ تاریخ کی کتابوں میں مرقوم ہے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد شادیاں کیں مگر آپ کی ازواج مطہرات میں سے کوئی بھی اپنے ساتھ جہیز نہیں لائیں،اسلام میں ماں باپ کی حیثیت اور استطاعت کے مطابق جہیز دینے کا تصور پایا جاتا ہے، ماں باپ کی طرف سے بیٹی کو جہیز دینا فرض یا واجب نہیں،کیونکہ شادی ایک ایسے بندھن کا نام ہے جس میں دو افراد کوساری عمر ایک ساتھ گزارنی ہوتی ہے،جو رشتے مادی اشیاءکی بنیاد پر قائم کیے جاتے ہیں وہ زیادہ دیرپا ثابت نہیں ہوتے، لڑکے والوں کو اپنے بیٹوں کے رشتے دیکھتے وقت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس حدیث مبارکہ کو ذہن میں رکھنا چاہئے،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ! عورت سے شادی کرنے میں چار چیزیں دیکھو،دولت مندی،خاندانی شرافت،خوبصورتی اوردین داری”لیکن تم دین داری کو اِن سب چیزوں پر مقدم سمجھو۔“
لیکن افسوس کہ دین اسلام میں شادی جیسے پاکیزہ اور مقدس رشتے کے متعلق واضح احکاما ت ہونے کے باوجود ہم جہیز کو ہی لڑکیوں کی کامیاب ا ور خوش گوار زندگی کا ضامن سمجھتے ہیں،جس کی بنیادی وجہ وہ عہد ہے جس میں ہم سانس لے رہے ہیں،اُس میں نیکی و شرافت،تقویٰ وپرہیز گاری اورخود داری نہیں دیکھی جاتی،مادیت پرستی کے اِس دور میں غریب کے جھونپڑے میں رہنے والی حسین وجمیل اور نیک و صالح کردار بیٹی گھر میں بیٹھی رہ جاتی ہے۔ہمارے محترم مکتوب نگار بھی اسی اذیت سے دوچار ہیں،دعا ہے کہ اللہ کریم اُن کے اور اُن جیسے تمام والدین کی مشکل کو آسان فرمائے،ہمیں ایک دوسرے کے دکھ درد اور تکلیف میں ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام والدین کو اُس کربناک لمحے کا سامنا کرنے سے بچائے کہ بیٹی جیسا محبت اور پیار بھرا وجود انہیں بوجھ محسوس ہو اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ ”اے کاش،بیٹیاں تو پیدا ہی نہ ہوتیں۔“ یاد رکھیں بیٹیاں تو سانجھی ہوتی ہیں۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.