You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حضرت سیدنا خالد بن صفوان بن الاھتم علیہ رحمۃ اللہ الاعظم فرماتے ہیں :ایک مرتبہ (یمن کے گورنر) یوسف بن عمرنے مجھے عراق کے ایک وفد کے ساتھ خلیفہ ہشام بن عبدالملک کے پاس بھیجا ،جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ خلیفہ ہشام بن عبدالملک اپنے لشکر،اہل وعیال ، خادموں اور غلاموں کے ساتھ سیرو سیاحت کے لئے روانہ ہو رہاہے۔چنانچہ میں بھی اس سفرمیں لشکرکے ساتھ شامل ہوگیا۔ خلیفہ نے ایک ایسی وادی میں لشکرکے پڑاؤ کا حکم دیا جونہایت وسیع وعریض ، خوبصورت اور صاف ستھری تھی۔ موسم بہارمیں وہاں کئی بارشیں ہوچکی تھیں جس کی وجہ سے وادی پھولوں اور مختلف قسم کے نباتات سے آراستہ وپیراستہ تھی ۔وہ وادی ایسی خوبصورت اوردل کولبھانے والی تھی کہ اسے دیکھتے ہی وہاں قیام کرنے کو جی چاہتا تھا اور ویسے بھی وہ ہر اعتبار سے قیام کے لئے موزوں تھی۔وہاں کی مٹی ایسی تھی جیسے کافورکی ڈلیاں،اور وہاں کے ڈھیلے ایسے صاف وشفاف تھے کہ اگر انہیں اٹھا کر پھینکا جائے تو ہاتھ بالکل گَرد آلودنہ ہوں۔وہاں خلیفہ کے لئے وہ ریشمی خیمے نصب کئے گئے جنہیں یوسف بن عمرنے یمن سے بھجوایا تھا، پھر ان خیموں میں سرخ ریشم کے چار بسترلگائے گئے اور ایسے ہی سر خ ریشمی تکیے ان پر رکھے گئے ۔
تمام انتظامات کے بعدجب محفل سج گئی اور تمام لوگ اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے ، تو میں نے سرا ٹھا کرخلیفہ کی طرف دیکھا۔ اس کی نظر بھی مجھ پر پڑ گئی ،اس کے دیکھنے کا انداز ایسا تھا گویا وہ کہہ رہا ہو: بولو! کیا بولنا چاہتے ہو؟ میں نے کہا :اے امیر المؤمنین! اللہ عزوجل آپ پراپنی رحمتیں نازل فرمائے۔اور آپ کو نعمتوں پر شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور امور خلافت میں اللہ عزوجل آپ کو سیدھی راہ پر رکھے۔ اور آپ کا انجام ایسا فرمائے جو قابل تعریف ہو، اللہ عزوجل نے آپ کویہ نعمتیں اس لئے دی ہیں تاکہ آپ ان کے ذریعے تقوی اختیار کریں ۔اللہ عزوجل نے آپ کو بکثرت پاکیزہ نعمتیں عطا کی ہیں، ان میں کوئی کدورت (یعنی مَیل) نہیں۔ اور ایسی نعمتیں عطا کی ہیں جن میں خوشیاں ہیں، غم نہیں۔
آپ مسلمانوں کے لئے ایک قابل اعتماد خلیفہ ہیں اور آپ ان کے لئے خوشی او رسرور کا با عث ہیں۔ جب انہیں کوئی مصیبت درپیش ہوتی ہے تو وہ آپ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں ، اورہر مشکل کے وقت آپ ان کے لئے جائے پناہ ہیں، اے امیر المؤمنین! اللہ عزوجل مجھے آپ پر فدا کرے ، جب مجھے آپ کی ہم نشینی اور زیارت کا موقع مل ہی گیا ہے تواب میرا حق بنتا ہے کہ اللہ عزوجل نے آپ پر جو نعمتیں نچھا ور فرمائی ہیں اور جو جو کمالات عطاکئے ہیں ،میں آپ کوان کی یاد دہانی کراؤں اور آپ کوان نعمتوں پر شکر کرنے کی تر غیب دلاؤں ۔ اس کا سب سے بہتر ین طریقہ یہ ہے کہ میں آپ کو سابقہ بادشاہوں کے قصے سناؤں، کیا آپ کی طرف سے مجھے اس بات کی اجازت ہے؟ یہ سن کر خلیفہ ہشام بن عبدالملک سیدھا ہو گیا،سب تکیے ایک طرف رکھ دیئے اورکہا:اب مجھے سابقہ بادشاہوں کے حالات بتاؤ۔
میں نے کہا :اے امیرالمؤمنین! سابقہ با دشاہوں میں ایک بادشاہ تھا ۔وہ بھی سیر وسیاحت کے لئے ایسے ہی موسم میں نکلا جیسا اب موسم ہے، اس سال بھی خوب بارشیں ہوئی تھیں۔زمین پھولوں اورنباتا ت سے مزین ہوگئی تھی ۔جب اس بادشاہ نے ان تمام نعمتوں،اپنے مال ومتاع، خُدّام اور لشکر کی طر ف نظرکی تو بڑے فخرسے کہنے لگا: جیسی نعمتیں میرے پاس ہیں کیا کسی اور کو بھی ایسی عظیم الشان نعمتیں ملی ہیں؟ اس وقت اس کے لشکر میں ایک حق گو مرد مجاہد بھی موجود تھا ۔اس نے بڑے دلیرانہ اندازمیں کہا : اے بادشاہ! تو نے ایک بہت بڑے امرکے متعلق سوال کیا ہے۔ اگر اجازت ہو تو میں اس کا جواب دو ں؟
بادشاہ نے کہا :ہاں! تم جواب دو۔چنانچہ اس مردِ مجاہد نے فرمایا: اے بادشاہ! یہ جو نعمتیں تمہارے پاس موجودہیں کیایہ تمام کی تمام ہمیشہ تمہارے پاس رہیں گی؟ کیاان میں کمی واقع نہ ہو گی؟کیایہ تجھے بطور میراث نہیں پہنچیں؟کیا تجھ سے زائل ہوکریہ تیرے بعد والوں کو نہ مل جائیں گی؟
جب بادشاہ نے اس باہمت ومخلص مبلغ کی حقیقت پر مبنی گفتگو سنی تو کہنے لگا: اے نوجوان ! تو نے جو باتیں کیں وہ بالکل بر حق ہیں ،کیونکہ ان نعمتوں میں کمی بھی ہوجائے گی۔ اورجس طرح یہ مجھے میراث میں ملی ہیں اسی طرح میرے مرنے کے بعد میرے ورثاء کو مل جائیں گی۔
یہ سن کراس باہمت مبلغ نے کہا :اے بادشاہ!جب یہ سب باتیں حق ہیں تو پھران معمولی نعمتوں پر فخرکرنا ایک تعجب خیزبات نہیں؟ا ے بادشاہ! یہ نعمتیں تیرے پاس بہت کم عرصہ رہيں گی، اورجب تو اس دنیا سے جائے گا تو خالی ہاتھ جائے گا۔ اورکل بروزِ قیامت تجھ سے ان تمام نعمتو ں کا حساب لیاجائے گا(اوریہ انتہائی سخت امرہے) پھربھی ا س دنیائے فانی میں تیرا دل کیونکر لگاہوا ہے؟
دین کا درد رکھنے والے مبلغ کی یہ باتیں بادشاہ کے دل میں تا ثیرکاتیربن کر پیوست ہوگئیں ۔ اس کی آنکھوں سے غفلت کا پردہ ہٹ گیا،اور اس نے بے چین ہو کر کہا: اے نوجوان !پھر تم ہی مجھے بتاؤکہ میں ان مصائب سے نجات پاکر کس طرح اپنے مقصدِ اصلی تک پہنچ سکتا ہوں ؟ا س پر اس خیرخواہ مبلغ نے کہا :اے بادشاہ! تیرے لئے نجات کے د و راستے ہیں:ایک تویہ ہے کہ تو اپنی بادشاہت قائم رکھ۔ اور ہر حال میں اللہ عزوجل کی اطاعت کر، تمام فیصلے شریعت کے مطابق کر،عدل وانصاف سے کام لے۔ خوشی وغمی ، تنگی اور فراخی ہر حال میں اپنے رب عزوجل کا شکر ادا کر۔ دوسری صورت یہ ہے کہ توتاج وتخت چھوڑ کر درویشی لباس اختیار کرلے، اور کسی پہاڑ کے دامن میں گوشہ نشین ہوکر اپنے پاک پروردگار عزوجل کی عبادت میں مشغول ہو جا۔ تیری نجات کے یہی دوراستے ہیں تو جس کو چاہے اختیارکرلے ۔بادشاہ نے کہا: اے نو جوان! کل میرے پاس آنا، آج رات میں غورکرو ں گا، کہ کونسا راستہ اختیار کرو ں۔ اگرمیں نے بادشاہت والا راستہ اختیارکیاتومیں تجھے اپنا وزیربناؤں گا۔ اور ہر معاملے میں تیری اطاعت کرو ں گا،کبھی بھی تیری نافرمانی نہ کرو ں گا ۔
اوراگربادشاہت چھوڑکرگو شہ نشینی اختیارکروں گاتوتوُمیرے ساتھ میرا رفیق بن کر رہنا ۔میں تیری ہربات مانوں گا۔ اتنا کہنے کے بعدبادشاہ اپنے خیمے کی طرف چلاگیا ۔
صبح کے وقت جب وہ مخلص مبلغ بادشاہ کے پاس گیا تو اس نے دیکھا کہ بادشاہ نے شاہی تاج اورشاہی لباس اتارکرفقیروں والا لباس پہنا ہوا ہے۔اس بادشاہ نے پختہ ارادہ کر لیاتھا کہ خلوت میں رہ کر اپنے رب عزوجل کی عبادت کریگا ۔ چنانچہ وہ تاج و تخت اوردنیا کی رنگینیوں کوچھوڑ کراس مخلص مبلغ کے ساتھ جنگل کی طرف چلا گیا۔اور وہ دونوں آخری وقت تک وہیں ایک پہاڑپراپنے خالقِ حقیقی عزوجل کی عبادت میں مشغول رہے۔
بنو تمیم کے مشہور شاعرعدی بن زید العیادی المرادینے ان کی شان میں چند اشعارکہے ،جن کا مفہوم کچھ اس طرح ہے :
ترجمہ :(۱)۔۔۔۔۔۔ اے زمانے کو گالی دینے والے! کیا تو ہرچیزمیں کامل، اورہرعیب سے بری ہے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔ یا تو نے زمانے سے پختہ عہدلے رکھا ہے؟یا توجاہل اور مغرور ہے؟
(۳)۔۔۔۔۔۔کیا کوئی ایسا شخص بھی ہے جسے موت نے چھوڑدیا ہو؟یا کوئی ایسا شخص ہے جو (تجھے) موت سے بچالے؟
(۴)۔۔۔۔۔۔کہاں ہے کسرٰی ،فارس کے بادشاہ اور ان سے پہلے کے بادشاہ؟ ابو ساسان اور سابور کہا ں گئے؟
(۵)۔۔۔۔۔۔ بہت شان وشوکت والے بادشاہ اور رومی بادشاہ کہا ں ہیں؟ ان میں سے کوئی ایک بھی تو باقی نہ رہا۔
(۶) ۔۔۔۔۔۔وہ بادشاہ کہا ں ہے جس نے ایک محل بنایا جس کے ایک جانب سے دریائے دجلہ اور دو سری جانب سے دریائے حلبوربہتا تھا۔
(۷)۔۔۔۔۔۔اور اس نے محل کو سنگ مرمرسے آراستہ کیا اوراسے مختلف رنگوں سے مزین کیا او ر اس میں ایسے باغا ت لگائے جن میں پرندوں کے گھونسلے تھے۔(یعنی باغ میں ہروقت پرندے چہچہاتے رہتے تھے)
(۸)۔۔۔۔۔۔ موت نے اسے بھی نہ چھوڑا اور اس کی بادشاہت جاتی رہی اور وہ عظیم الشان محل بھی ویران ہوگیا۔
(۹)۔۔۔۔۔۔خورنق کے بادشاہ نے جب ایک دن غورو فکر کیا (تو اسے ہدایت کی راہ ملی) لہٰذا ہدایت پانے کے لئے غور وفکر ضروری ہے۔
(۱۰)۔۔۔۔۔۔ جب اس نے اپنی حالت پر غورکیا اوران کثیر نعمتوں میں غوروفکرکیا جواسے عطا کی گئیں اور جب اس نے وسیع وعریض سمندرکو عبرت کی نگاہ سے دیکھا ۔
(۱۱) ۔۔۔۔۔۔تواس کا دل ڈرگیا۔ اورکہا کہ ایسی زندگی پرکیا اِترانا اور کیا غرور کرنا جو موت کی طرف لے جارہی ہے۔
(۱۲) ۔۔۔۔۔۔بالآخراسے حکومت ، کامیابی اورسرداری کے بعد قبرمیں دفن کردیا گیا۔
حضرت سیدناخالدبن صفوان بن الاھتم علیہ رحمۃاللہ الاعظم کی زبانی خورنق کے بادشاہ کا واقعہ سن کر خلیفہ ہشام بن عبدالملک رونے لگا ۔اور اتنا رویا کہ اس کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی ۔او را س کا عمامہ بھی آنسوؤں سے بھیگ گیا۔پھر خلیفہ نے حکم دیا: تمام خیمے اکھاڑ دیئے جائیں اور تمام بستراٹھالئے جائیں اور تمام لشکر فوراً محل کی طرف روانہ ہو جائے۔
چنانچہ خلیفہ اپنے سارے لشکرکولے کرروتا ہوا محل کی طرف روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے( تمام امورِ مملکت اپنے بھائیوں کے سپردکئے اور خود)محل کا ایک کونہ سنبھال لیا۔اورتمام دنیاوی آسائشوں کوچھوڑکراپنے مالک حقیقی عزوجل کی عبادت میں مشغول ہوگیا۔جب اس کے اہل خانہ اور خُدّام وغیرہ نے خلیفہ کی یہ حالت دیکھی تووہ سب کے سب حضرت سیدنا خالدبن صفوان بن الاھتم علیہ رحمۃاللہ الاعظم کے پاس آئے، اور کہنے لگے: آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ نے امیرالمؤمنین کی کیا حالت کردی ہے ۔آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ نے اس کی تمام لذّات ختم کردی ہیں۔ آپ رحمۃ اللہ تعا لیٰ علیہ کی باتیں سن کر اس نے سیر وسیاحت کو بھی ترک کردیا ہے ۔
توآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا: تم سب مجھ سے دور ہوجاؤ ، بے شک میں نے اپنے پروردگارعزوجل سے وعدہ کیا ہے
کہجب بھی میں کسی بادشاہ سے ملوں گا تواسے نیکی کی دعوت دوں گااوربری باتوں سے منع کروں گا۔اوراسے اللہ عزوجل کی یاد ضروردلاؤں گا۔( چنانچہ خلیفہ کونصیحت کرکے میں نے اللہ عزوجل سے کیا ہوا اپناوعدہ پورا کیا ہے، کوئی برُا کام نہیں کیا)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی صلی اللہ تعالی عليہ وسلم)))
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.