You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سُوال: بے پردَگی کا کیا وبال ہے؟
جواب:عورت کی بے پردَگی مُوجبِ غَضَبِ الہٰی اور سبب ِ تباہی ہے۔
اس سُوال کا جواب پارہ18 سورۂ نُورکی آیت نمبر31کے اِس حصّے کی تفسیر میں مُلا حَظہ ہو چُنانچِہ اِرشادِ الٰہی ہوتا ہے:
ترجَمۂ کنزالایمان: اور زمین پر پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ جانا جائے ان کا چُھپا ہوا سِنگار۔ (پ۱۸النور ۳۱)
بیان کردہ آيتِ مبارَکہ کے تَحت مفسرِ قراٰن، خليفۂ اعلیٰ حضرت ، صَدرُالْاَفاضِل حضرتِ علامہ مولانا سَیِّد محمد نعيم الدِّين مُراد آبادی عليہ رحمۃ الھادی فرماتے ہيں:
يعنی عورَتيں گھر کے اندر چلنے پھرنے ميں بھی پاؤں اِس قَدَر آہِستہ رکھيں کہ ان کے زَيور کی جَھنکار نہ سُنی جائے،مسئلہ:اِسی لئے چاہئے کہ عورَتيں باجے دار جھانجھن نہ پہنيں۔حديث شريف ميں ہے:
اللہ عَزَّوَجَلَّ اُس قوم کی دُعا نہيں قَبول فرماتا جن کی عورَتيں جھانجھن پہنتی ہوں ۔ (تَفسیرات اَحمدِیہ ص۵۶۵)
اس سے سمجھناچاہئے کہ جب زيور کی آوازعَدَمِ قَبولِ دُعا (یعنی دعاقَبول نہ ہونے )کا سبب ہے تو خاص عورَت کی(اپنی) آواز(کا بِلااجازتِ شَرعی غیر مردوں تک پہنچنا) اور اسکی بے پردَگی کيسی مُوجِبِ غَضَبِ الٰہی (عزوجل) ہوگی،پردے کی طرف سے بے پروائی تباہی کا سبب ہے۔
( خزائنُ الْعِرفان ص ۵۶۶ )
------------------
جھانجھن سے مراد کون سا زیور ہے؟
سوال: حدیث میں جس باجے دار جھانجھن پہننے کی ممانعت کی گئی اس سے کونسا زیور مراد ہے ؟
جواب:اس سے گھنگروو والا زیور مراد ہے ۔ایسے زیورپہننے والیوں سے مُتَعَلِّق ایک حدیث میں ارشاد ہوتا ہے:
اللہ عَزَّوَجَلَّ باجے دار جھانجن کی آواز کو ایسے ہی نا پسند فرماتا ہے جس طرح غِناء کی آواز کو نا پسندفرماتا ہے اور اس کا حشر جو ایسے زیور پہنتی ہو ویسا ہی کریگا جیسا کہ مزامیر والوں کا ہو گا ،کوئی عورت باجے دار جھانجن نہیں پہنتی مگر یہ کہ اس پر لعنت برستی ہے ۔ (کَنْزُ الْعُمّال ج۱۶ ص۱۶۴رقم۴۵۰۶۳ )
--------------
ہر گُھنگرو کے ساتھ شیطان ہو تا ہے
حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے یہاں کی لونڈی حضرت زبیر( رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی لڑکی کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لائی اور اس کے پاؤں میں گھنگھرو تھے۔ حضرت سیِّدُنا عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں کاٹ دیا اور فرمایا کہ میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سنا ہے کہ ہر گھنگھرو کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔
(سُنَنُ اَ بِی دَاو،د ج۴ص۱۲۴حديث ۴۲۳۰)
------------------
جھانج والے گھر میں فرشتے نہیں آتے
حضرتِ سَیِّدَتُنا بُنانَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صِدّیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس تھیں کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں ایک بچّی لائی گئی جس پر جھانجھن تھے جو آواز کر رہے تھے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بولیں کہ اسے میرے پاس ہرگز نہ لاؤ مگر اس صورت میں کہ اس کے جھانجن توڑ دئیے جائیں میں نے رسولُ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ اُس گھر میں فِرِشتے نہیں آتے جس میں جھانج ہو۔
(سُنَنُ اَ بِی دَاو،د ج۴ ص۱۲۵حديث ۴۲۳۱)
اس باب کی احادیثِ مبارکہ کے تحت مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں:اَجراس جمع جَرس کی بمعنی جَلاجَل یعنی گُھنگُرواور اس جیسی آواز دینے والی چیز ، اونٹ کے گلے میں گُھنگُروں اور باز(نامی پرندے) کے پاؤں کے چَھلّوں کو بھی اَجراس یا جَلاجَل کہتے ہیں۔ ہمارے ہندوستان میں بھی پہلے عورَتوں میں جھانجن کا رواج تھا ۔
حدیثِ عائشہ رضی تعالیٰ اللہ عنہا میں جو جھانجن توڑ دینے کا ذکر ہے اُس کی شرح کرتے ہوئے مفتی صاحِب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:
اِس طرح (توڑ دیں)کہ ان کے اندر کے کنکر نکال دئیے جائیں یا اس طرح کہ اسکے گُھنگُرو الگ کر دئیے جائیں یا اس طرح کہ خود جھانجھن ہی توڑدئیے جائیں غرضیکہ ان میں آواز نہ رہے ۔
(مراٰۃ المناجیح ج ۶ ص ۱۳۶)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.