You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
صادق رضامصباحی،ممبئی
EMAIL:[email protected]
عیدمیلادالنبی:کچھ باتیں ذمے داروں سے
تعظیم اوراتباع دومختلف لفظ ہیں اور ددنوں کی معنیاتی سرحدیں بھی الگ الگ ہیں ۔اسلام کے ماننے والوں کودونوں کاحکم ہے ۔اسلام کی کلیت پراسی وقت بھرپورعمل ہوسکے گاجب اپنے مقتداورہنماکی تعظیم بھی بجالائی جائے اوراس کے ارشادات وفرمودات کواتباع وعمل کے رشتے سے ہم کنارکیاجائے بصورت دیگرکوئی بھی مسلمان مکمل طورپراسلام کانام لیوانہیں قراردیاجاسکتا۔مگرعصری ماحول کے جبراوردین کے حوالے سے بے اطمینانی نے مسلمانوں کے ذہنوں میں دین ومذہب کامعنی گڈمڈکردیے ۔یہ صورت حال دین کے کسی ایک پہلوسے متعلق نہیں ہے بلکہ دین کی پوری کلیت ا س کی زدمیں ہے ۔یہ مسلمانوں کی بدنصیبی ہی توہے کہ دین کے احکامات وہدایات کورسوم ورواج کامجموعہ سمجھ لیاگیاہے ۔ عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ جس دن نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ آرائے کائنات ہوئے ۔یہ معظم ، مقدس ،متبرک،تاریخی اورتاریخ سازدن بھی مجموعۂ رسم ورواج بن کررہ گیا ہے۔ہم مسلمانوں کوا س عظیم دن سے نہ کچھ سیکھنے کی توفیق ہوتی ہے اورنہ سکھانے کی ۔ ظاہرہے کہ انسان جب تک خودکوئی چیزنہ سیکھے تووہ دوسروںکوکیوں کرسکھانے کافریضہ انجام دے سکتاہے؟
ایک بڑی غلط فہمی جوذہنوں میں پرورش پاچکی ہے بلکہ ا س کے مظاہراندرون سے بیرون تک منتقل بھی ہوچکے ہیں وہ علاقائی رسوم وروایات کودین سے منسوب کرناہے ۔ ظاہرہے کہ رواج کسی بھی طرح کے ہوں اگروہ دین کے احکام کے مطابق نہیں ہیں تودین سے ان کاکوئی بھی تعلق نہیں۔ انہیں اپنانے کی کسی بھی صور ت میں اجازت نہیں دی جا سکتی لیکن اگروہ احکام شرعیہ سے متصادم نہیں ہیں تواس کی اجازت دی جاسکتی ہے مگروہ دین کاحصہ نہیں کہلاسکتے۔جلوس عیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم میں بعض چیزیں ایسی درآئی ہیں جوعلاقائی رسم ورواج کاحصہ ہیں۔ اسلام میں نہ ان کی شرعی حیثیت ہے اورنہ اسلاف سے ان کاکوئی ثبوت مگرچوں کہ ہمیں اس مبارک موقع پرہرطرح کی جائزومباح خوشی منانے اوردوسروں کواس کی ترغیب دینے کاحکم ہے۔ ا س لیے اس کی صرف اتنی ہی مقدارکی اجازت ہوگی کہ دین کاکوئی بھی حکم ا س سے متصادم نہ ہوتاہو۔اگرایساہے تواسے اپنانا کسی بھی حال میں جائزنہیں ہوگاچہ جائیکہ اسے رسولِ گرامی وقارصلی اللہ علیہ وسلم کے یومِ ولادت کے موقع پراپنایاجائے ۔انصاف سے بتائیے کہ ہماراجلوس کیاواقعتاًایساہے کہ اسے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کیاجائے؟یہ جلوس بدعات وخرافات ،ہلڑبازی اورموسیقی والی نعتوں پررقص وسرود اورڈی جے کامجموعہ بن کررہ گیاہے ۔مسلمانوں کے انداز سے ایساظاہرہوتاہے کہ مسلمان گویاجلوس کے دن زیادہ سے زیادہ شرکت کرکے اپنی قوت کامظاہرہ کرناچاہتے ہوں ۔ہم لاکھ چیخیں ،تحریریں لکھیں ،تقریریں کریں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم پیغمبرامن تھے ،سفیرمحبت تھے ،انسانیت وروادی کے داعی تھے اورسارے عالم کے لیے رحمت تھے مگرہمارے عمل اوراندازسے اس کی تکذیب ہی ہوتی ہے ۔بلاشبہہ مسلمان اپنے نبی کی تعظیم توضروربجالاتے ہیں اورمگراطاعت نہیں کرتے توجب تک اطاعت نہیں ہوگی تو تعظیم حقیقتاً تعظیم نہ ہوگی بلکہ یہ غیرشعوری طورپر توہین کااشاریہ بن جائے گی ۔
عیدمیلادالنبی کے جلوس سے اگرہمارے اندرتقدس واحترام کاجذبہ نہ جاگے توایساجلوس ،جلوس عیدمیلادالنبی کیوں کرہوسکتاہے اورکیوں اسے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت سے منسوب کیاجاسکتاہے؟اگرجلوس میں وہی سب کچھ روارکھاجائے جوغیروں کے یہاں ہوتاہے یامسلمانوں کے درمیان شادی بیاہ وخوشی کے مواقع پرہوتاہے تو پھران دونوں کے درمیان کیافرق رہ جائے گا؟ہم ڈی جے بجاتے ہیں ،موسیقی والی نعتیں سنتے ہیں اورلائوڈاسپیکرکی آوازاتنی تیزکردیتے ہیں کہ کان کی پڑی آوازبھی سنائی نہیں دیتی۔ اس سے صوتی آلودگی پھیلتی ہے مریضوں اوربوڑھوں کو تکلیف پہنچتی ہے ۔کسی کوکسی بھی طرح کی تکلیف دیناتوہروقت منع ہے مگرعیدمیلادالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک موقع پرخاص طورپرکوشش کی جائے کہ ہمارے حرکت سے کسی کوچھوٹی سی بھی تکلیف نہ ہو۔ان ساری چیزوں کودیکھ کرکیاہمارایہ جلوس اسلامی جلوس معلوم ہوتاہے ۔؟اگراس مبارک دن پریہ جلوس نہ نکالاجائے تولگے گاکہ یہ کسی دنیادارقائدکاجلوس ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت کانہیں۔
بعض ہمارے نوجوان بھائی اس موقع پراپنی طاقت کامظاہرہ کرتے ہیں۔ ایسی ایسی حرکتیں کرتے ہیں جواسلامی احکام کے بھی خلاف ہیں اور ہمارے ملک کے قوانین کے بھی خلاف ہیں ۔حالانکہ ہمیں جہاں اسلام کے احکام پرعمل کرنے کا حکم دیاگیاہے وہیں اپنے وطن اوراپنے ملک کے قوانین کاتحفظ بھی ہماری ذمے داری ہے ۔ہم دیکھتے ہیں جلوس کے موقع پرٹریفک کابہت بڑامسئلہ پیداہوجاتاہے جس سڑک سے جلوس گزرتاہے وہاں ٹریفک کی لمبی قطارلگ جاتی ہے اورسڑک پرآنے جانے والوں کوپریشانی کاسامناکرناپڑتاہے ۔جلوس عیدمیلادالنبی کے یہ شایان شان نہیں کہ ا س کی وجہ سے کسی کوکچھ تکلیف ہو۔ایک بات یہ دیکھی گئی ہے کہ موسیقی والی نعتیں سن کراورڈی جے کے زورپرہمارے نوجوان بھائی رقص کرتے ہیں ،بدتمیزیاںکرتے ہیں اورخلافِ شرع امورانجام دیتے ہیں ۔ جلوس عیدمیلادالنبی میں ان خرافات وبدعات کی اجازت ہرگزنہیں دی جاسکتی۔ اس ضمن میں شہراورمحلوں کی انجمنوں،تنظیموں اوراداروں کے ذمے دارن جوجھانکیوں کااہتمام کرتے ہیں،اس طرح کی حرکتیں کرنے والے نوجوانوں کو سمجھائیں اورجلوس کے تقدس واحترام کی نصیحت کریں بصورت دیگرانہیں جلوس سے الگ کرنے میں بھی کوئی باک محسوس نہ کریں کیو ںکہ ان کے اس طرزعمل سے اسلام کے متعلق غیروں میں غلط فہمیاں پیداہوتی ہیں اورغلاظت اسلام کے پاکیزہ چہرے پرآتی ہے۔ اس لیے خداراا س اندازسے قطعاًپرہیزکیاجائے۔
علماے کرام انہیں سمجھاتے ہیں اورائمہ مساجدجمعے کے خطبوں میں ا س کی تنبیہ کرتے ہیں مگرچوں کہ ہمارے مسلمان بھائیوں کودین کاہرحکم اپنی نفسانیت کے آئینے میں دیکھنے کی عادت پڑچکی ہے ا س لیے وہ لوگ وہی کام کرتے ہیں جہاں کے رجحانات ومذاق کی تسکین ہوتی ہو۔اس تناظرمیں سوائے اس کے اورکوئی چارہ ہی نہیں کہ شہرکے ذمے داران اوربااثرلوگوں کی دوکمیٹیاں تشکیل دی جائیں ۔ایک کمیٹی ایسے افرادپرنگاہ رکھے جوغیرشرعی امورکاارتکاب کرتے نظرآئیں اوردوسری ٹریفک کے نظام کوبحال رکھنے کے لیے کام کرے ۔
ایک طرف تواسلام اورنبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے غلط فہمیوں کی ایک طویل فہرست ہے۔ پورامغرب ہمارے خلاف سینہ تانے کھڑاہے ۔ امریکہ میں بنی توہین آمیزاوردردناک فلم INNOCENESE OF MUSLIMکوبنے ہوئے زیادہ دن نہیں گزرے مگریہ مسلمان ہی ہے جواس تعصب ، عداوت اورغلط فہمی کی آگ میں مزیدپٹرول ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ہماری ذلتیں اپنی انتہاکی آخری حدکوپہنچ چکی ہیں ہم پرقیامت پرقیامت ٹوٹ رہی ہے کیااب اوربھی کسی خطرناک قیامت کا انتظار ہے ؟عیدمیلادالنبی بڑامبارک ومسعوددن ہے۔ یہ بڑااچھاموقع ہے کہ تعلیمات نبوی کوعام کیاجائے اوراسلام کے متعلق غلط فہمیوں کاازالہ کیاجائے ۔اگرہم اپنی ذمے داری پوری کرنے لگیں توہمیں کبھی بھی کسی سے کوئی شکوہ نہ ہو۔ہم غیروںکے تئیں ا س لیے ہمیشہ شکوہ سنج رہتے ہیں کہ ہم اپنی ذمے داریاں اورفرائض فراموش کرکے دوسروں سے امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں اورجب وہاں سے امیدکادامن سرکتامحسوس ہوتاہے توواویلہ کرنے لگتے ہیں۔اس لیے ان غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے ہمیں ہی آگے آناہوگا۔ایک بات یہ بھی یادرکھنے کی ہے کہ غیروں کاکام کانٹے بچھاناہے۔ ان کواگریہ کرناہوتوشوق سے کریں ہم توصرف ان کی راہ میں پھول ہی بچھائیں گے ۔اگرہم بھی ان کے ا س عمل پر ردعمل پرآمادہ ہوجائیں توپھرہمارے اوران کے درمیان فرق کیارہ جائے گا اورہمارے پیشوامحمدعربی مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تعلیمات کی اہمیت ومعنویت کیسے واضح ہوگی ۔ آئیے ہم سب مل کرعیدمیلادالنبی کے جلوس کوبامقصدبنائیں اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کاجھنڈاگھرگھرلہرائیں ۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.