You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
’’گلزارِ نعت‘‘ پر ایک نظر
ڈاکٹر محمد حسین مشاہدرضوی
جنوبی ہند کے نو عمر و تازہ کار نعت گو شاعر و ادیب ، عالم و صحافی مولانا غلام ربانی فداؔ صاحب نے دنیاے ادب کے لیے اپنی تقدیسی شاعری کا اولین دل کش ودل نشین تحفہ ’’گلزارِ نعت‘‘ کے نام سے پیش کیا ہے ۔ جو اپنے دامن میں الفت و عقیدتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تعظیم و توقیرِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے خوش نما گوہرہاے آب دار لیے ہوئے ہے۔فدا ؔ صاحب نے ’’گلزارِ نعت‘‘ کا انتساب جہانِ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوب کر طلوع ہونے والے درخشاں ستاروں کے نام کرتے ہوئے اپنے اولین و حسین گلدستۂ عقیدت و محبت کو ان مقدس ہستیوں کے نام نذرانۂ عقیدت کیا ہے جن کی آنکھیں حسرتِ دیدارِ گنبدِ خضرا میں خاموش و پُرسکوں راتوں میں اشکوں کے گوہرِ نایاب لُٹا تی ہیں۔ فداؔ صاحب کا یہ والہانہ اظہاریہ عاشقانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دربارِ مدینہ کی حاضری کے لیے بے قرار دلوں کے تئیں ان کے مخلصانہ سوزِ دروں کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے ۔ فدا ؔ صاحب کا یہ خوب صورت اور پاکیزہ تصور و تخیل آپ کے سچے عاشقِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اورمخلص خادمِ نعت ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
نعت گوئی ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں؛ بل کہ یہ شرف اسی سعادت مند کو حاصل ہوتا ہے جس پر فضلِ خداوندی اور فیضِ جنابِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی پُر نور چادر سایا کناں ہوتی ہے۔ سچ کہا ہے کہنے والوں نے کہ نعت گوئی کسبی نہیں بل کہ وہبی چیز ہے ۔ اچھے اچھے نام ور شعرا بھی اس میدان میں اپنا فکری و فنی اظہاریہ پیش کرنے سے گریز کرتے نظر آتے ہیں ۔ فداؔ صاحب لائقِ تحسین و آفرین ہیں کہ انھوں نے انتہائی قلیل عمری میںمیدانِ نعت گوئی میں قدم رکھا اور کامیابی کی منزلیں پار کررہے ہیں؛ جس کا ثبوت پیشِ نظر مجموعۂ کلام ’’گلزارِ نعت ‘‘ ہے ۔ ۱۹۸۸ء میں آنکھ کھولنے والا یہ نوعمر شاعر بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میںجن شاعرانہ نزاکتوں اورفنی لطافتوں کے ساتھ نغمہ سرا و نوا سنج ہے ۔ ان کو دیکھتے ہوئے عقل متحیر ہوئے بغیر نہیں رہتی ۔کہیں کہیں زبان و بیان کی خامیاں راہ پاگئی ہیں لیکن کہیں کہیں یہ احساس ابھرتا ہے کہ یہ اتنی کچی عمر کے شاعر کا کلام ہے یا بڑی عمر کے کسی کہنہ مشق شاعرکا …
’’گلزارِ نعت ‘‘ میں شامل نعتیہ کلام شاعرِ محترم کی ذاتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے الفت و عقیدت کے اظہار میں محتاط رویوں کا حامل نظر آتا ہے۔ آپ نے نعتیہ شاعری کے اصول و ضابطہ کو فنی و شعری مہارت کے ساتھ برتنے میں کامیابی کا مظاہرہ کیا ہے۔ چوں کہ آپ نے نعتیہ ادب کا وسیع مطالعہ و مشاہدہ کیا ہے۔نعتیہ ادب پر جاری کتابی سلسلوں کو گہرائی سے پڑھا اور پرکھا ہے۔ساتھ ہی ساتھ آپ خود بھی ہندوستان سے حمد و نعت کے حوالے سے پہلے معیاری ادبی رسالہ سہ ماہی ’’جہانِ نعت‘‘ کے مدیرِ اعلیٰ ہیں ۔ مذکورہ رسالہ میں نعت، آدابِ نعت، تنقیدِ نعت ، نعتیہ کلام میں موضوع روایتیں اور نعتیہ ادب میں احتیاط کے تقاضے وغیرہ جیسے روشِ عام سے منفرد اور جداگانہ موضوعات پر مضامین و مقالات کی کہکشاں سجی رہتی ہے۔ جس شاعر و مدیر کی ادارت میں شائع ہونے والے سہ ماہی رسالہ میں اس قسم کے مضامین کی اشاعت عمل میں آتی ہو اس کے کلام میں حزم و احتیاط کا پایا جانا ضروری ہوجاتا ہے کہ دوسروں کو نصیحت کرتے ہوئے خود عمل کرنا بہتر ہوتا ہے ۔ بہ ایں سبب جب ہم ’’گلزارِ نعت ‘‘ کا انتقادی جائزہ لیتے ہیں تو یہ امر مترشح ہوتا ہے کہ شاعر نے اپنے عقائد و نظریات اور جذباتِ محبت و الفت کے بیان میں موضوع و من گھڑت واقعات و قصص سے اجتناب برتا ہے ۔ ’’گلزارِ نعت‘‘کووارداتِ قلبی اور اظہارِ عشق میں نعتیہ ادب کی قابلِ احترام اور پاکیزہ روایتوں کی علم برداری کا اشاریہ بنانے میں فداؔ صاحب کامیاب و کامران دکھائی دیتے ہیں۔
غلام ربانی فداؔ نے اپنی نعتوں کے حوالے سے سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزگی و نفاست ، حسن اخلاق،اسوۂ حسنہ، جلال و جمال، معجزات و کمالات، اختیارات و تصرفات، جود و سخا، عفو ودرگزر، لطف و عطاکے علاوہ فراقِ حبیب (ﷺ)، ہجرِ دربارِ رسول(ﷺ) ، آپ سے استغاثہ و فریاد ، احساسِ گناہ، شفاعت طلبی، اصلاحِ معاشرہ، انقلابِ امت وغیرہ جیسے موضوعات کو پیش کیا ہے۔ ’’گلزارِنعت‘‘ میں نعتیہ کلام کے علاوہ مناقب وقصائد کی فصلِ بہاری بھی مشامِ جاں کو معطر کرتی ہے ، فداؔ نے اپنے بزرگوں کے ساتھ جس ارادت و عقیدت کا شاعرانہ اظہار کیا ہے اس کے پُرخلوص ہونے سے انکار ممکن نہیں ہے۔
بہ اعتبارِ مجموعی فداؔ صاحب کی نعت گوئی تصنع و بناوٹ ، افراط و تفریط اور مبالغہ آرائی سے پاک و صاٖف ہے ۔ آپ کے اشعار عقیدت و محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینہ دار ہیں ۔بعض بحریں دل آویز و مترنم ہیں ۔الفاظ و تراکیب کا رکھ رکھاو بھی دل کش و دل نشین ہے۔ آپ کی یہ شعری کاوش قابلِ ستایش ہے ۔ اتنی کم عمری میں ایسا عمدہ ذخیرۂ نعت و منقبت اہلِ علم و دانش کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں یقیناکامیابی حاصل کرے گا۔ کتاب معنوی لحاظ سے خوب صورت تو ہے ہی ، صوری لحاظ سے اسے دیدہ زیب بنانے میں مزید کوشش کی جاسکتی تھی ۔کمپوزنگ اور سیٹنگ کی طرف سے بے اعتنائی نہ برتیں تو بہتر ہوگا ۔ قاری کو کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے جمالیاتی پہلو بھی متاثر کرتا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ آیندہ اس سمت بھی توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔ بہ ہر کیف! میں فداؔ صاحب کو ’’گلزارِ نعت‘‘ کی اشاعت پر ہدیۂ تبریک و تہنیت پیش کرتا ہوں ۔ شاعرانہ نزاکتوں اور لطافتوں کومشق و ریاضت سے مزیدنکھارتے ہوئے اظہارِ عقیدت و محبت میں فدا ؔ صاحب مستقبل کے بہترین نعت گو شاعر کی حیثیت سے دنیاے ادب میںمقامِ اعتبار حاصل کرتے ہوئے سرخ رُو ہوسکیں؛ یہی میری دلی تمنا اور دعاے قلبی ہے۔اخیر میں ’’گلزارِ نعت‘‘ سے چند اشعار نشانِ خاطر کرتے ہوئے لطف و سرور حاصل کریں ؎
ہم نے بزمِ خیال سے اپنی
لذّتِ یادِ مصطفا مانگی
دل میں یہ آرزو لیے زندہ ہوں آج تک
سرکار میرے گھر میں ہوں ، ایسی بھی شام ہو
جو شمع یادِ نبی کی جلائی جاتی ہے
تو روشنی کی کرن دل پہ چھائی جاتی ہے
صرف ہو شوقِ عبادت نہ رہے زر کی ہوَس
اور دل سے نہ کبھی اُلفتِ سرور جائے
نیچی نظریں کیے دربار میں ہم آتے ہیں
غم کے مارے ہیں لیے سیکڑوں غم آتے ہیں
ہم کو سرکار بچا لیجے کہ ظالم انساں
ہم پہ کرنے کے لیے مشقِ ستم آتے ہیں
تاریک جو راہیں ہیں ہوجائیں گی وہ روشن
سرکار کی یادوں کو ہم راہِ سفر رکھیے
نظر کے سامنے جب گنبدِ خضرا رہے گا تو
زبا ں خاموش ہوگی اور یہ دل بولتا ہوگا
عشقِ احمد میں ہوئے گم تو حقیقت یہ ہے
نعت گوئی میں عجب ہم کو مزا ملتا ہے
پڑھتے رہتے ہیں عقیدت سے درود اور سلام
غنچۂ حسرت و ارمان کھِلا ملتا ہے
میں جب بیٹھتا ہوں فداؔ نعت لکھنے
تو موتی سے جھڑتے ہیں نوکِ قلم سے
ان کا غلام ہوں میں اعزاز کم نہیں ہے
آقا کا میرے مجھ پر کس دم کرم نہیں ہے
کیا ان کی بڑائی کا ہو ذکر فداؔ ہم سے
بس ببعدِ خدا ان کا رتبہ ہی بڑا دیکھا
دونوں جہاں کے وہ قاسم ہیں ، پھر بھی چٹائی کا بستر
فاقوں میں مُسکانے والے ، میرے آقا میرے حضور
(۲۷؍ ربیع الاول ۱۴۳۲ھ / ۳؍ مارچ ۲۰۱۱ء)
{……}
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.