You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حیاء کسے کہتے ہیں؟
حیاء کے معنیٰ ہیں ـــ
عیب لگائے جانے کے خوف سے جَھینپنا۔
اس سے مُراد وہ وَصْف ہے جو ان چیزوں سے روک دے جواللہ تعالیٰ اور مخلوق کے نزدیک ناپسندیدہ ہوں۔
مخلوق سے حياء
لوگوں سے شرما کر کسی ایسے کام سے رُک جانا جو ان کے نزدیک اچّھانہ ہو مخلوق سے حياء کہلاتا ہے۔ یہ بھی اچھی بات ہے کہ عام لوگوں سے حیا ء کرنا دنیاوی برائیوں سے بچائے گا اور عُلَماء وَ صُلَحاء سے حیا کرنا دینی بُرائیوں سے باز رکھے گا۔ مگر حَیاء کے اچھّا ہونے کے لئے ضَروری ہے کہ مخلوق سے شرمانے میں خالق عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی نہ ہوتی ہو اور نہ کسی کے حُقُوق کی ادائیگی میں وہ حیا رُکاوٹ بن رہی ہو۔
اللہ تعالیٰ سے حیاء
اللہ تعالیٰ سے حیاء یہ ہے کہ اُس کی ہَیبت و جلال اور اس کا خوف دل میں بٹھائے اور ہر اُس کام سے بچے جس سے اُس کی ناراضی کا اندیشہ ہو۔
حضرتِ سیِّدُنا شَہابُ الدّین سُہروردی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے عظمت و جلال کی تعظیم کے لئے روح کو جُھکانا حیاء ہے۔ اور اِسی قَبِیل (قِسم) سے حضرتِ سیِّدُنا اِسرافیل علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیاء ہے جیسا کہ وارِد ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے حیا کی وجہ سے اپنے پَروں سے خود کو چُھپائے ہوئے ہیں۔
========================
(مرقَاۃُ الْمَفَاتِيْح ج۸ ص۸۰۲ ،تحت الحدیث ۵۰۷۱ دارُالفِکْر بیروت)
سب سے بڑا باحیاء اُمّتی
حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی حیاء بھی اِسی قسم سے ہے،
جیسا کہ آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے:
میں بند کمرے میں غُسل کرتا ہوں تواللہ عَزَّوَجَلَّ سے حیاء کی وجہ سے سِمَٹ جاتا ہوں۔
====
(اَیْضاً)
ابنِ عساکِر نے حضرت سیِّدُنا ابوہُریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے رِوایت کیا کہ
آقائے دو جہاں صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:
حیا ایمان سے ہے اور عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ میری اُمّت میں سب سے بڑھ کر حیا کرنے والے ہیں۔
==========================
(اَ لْجامِعُ الصَّغِیر لِلسُّیُوْطِی ص۲۳۵حدیث ۳۸۶۹دار الکتب العلمیۃ بیروت)
یا الٰہی! دے ہمیں بھی دولتِ شرم و حیا
حضرتِ عثماں غنی با حیا کے واسِطے
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
حیاء کی2 قِسمیں:
فَقیہ ابواللَّيث سَمَرقَندی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: حیاء کی دو قسمیں ہیں:
(1) لوگوں کے مُعامَلہ میں حیاء
(2)اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مُعامَلہ میں حیاء۔
لوگوں کے مُعامَلے میں حیاء کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تُو اپنی نَظَر کو حرام کردہ اشیاء سے بچا
اور
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مُعامَلے میں حیاء کرنے سے مُراد یہ ہے کہ تو اُس کی نعمت کو پہچان اور اُس کی نافرمانی کرنے سے حیاء کر۔
===========
(تنْبِیہُ الغَافِلِین ص۲۵۸ پشاور)
فِطری اور شَرْعی حیاء
فِطری و شَرْعی (شَر۔عی) اعتِبار سے بھی حَياء کی تقسیم کی گئی ہے۔
فِطری حیاء
فِطری حیاء وہ ہے جسےاللہ تعالیٰ نے ہر جان میں پیدا فرمایا ہے اور یہ پیدائشی طور پر ہر شَخْص میں ہوتی ہے-
شَرْعی حیاء
شَرْعی حیاء یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اپنی کوتاہیوں پر غور کر کے نادِم و شرمندہ ہو اور اِس شرمندَگی اوراللہ تعالیٰ کے خوف کی بِناء پر آئندہ گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کی کوشِش کرے۔
عُلَماء (عُ۔ لَ۔ مائ) فرما تے ہیں کہ
حیاء ایک ایسا خُلق ہے جو بُرے کام چھوڑنے پر اُبھارے اور حق دار کے حق میں کمی کرنے سے روکے۔
==================
(مِرْقَاۃُ الْمَفَاتِيْح ج۸ ص۸۰۰ ،تحت الحدیث ۵۰۷۰)
حیاء میں تمام اسلامی اَحکام پوشیدہ ہیں
حیاء کے بارے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ایک ایسا خُلق ہے جس پر اسلام کا مَدَار ہے اور اس کی تَوجِیہ(یعنی وجہ)یہ ہے کہ انسان کے اَفعال دو طرح کے ہیں
(۱) جن سے حیا کرتا ہے
(۲) جن سے حیا نہیں کرتا۔
پہلی قسم حرام و مکروہ کو شامل ہے اور ان کا ترک مَشرُوع (یعنی موافِقِ شَرع) ہے۔
دوسری قسم واجِب، مُستحب اور مُباح کو شامل ہے، ان میں سے پہلے دو کا کرنا مَشرُوع اور تیسرے کا کرنا جائز ہے۔
یوں یہ حدیثِ مُبارَکہ
جب تو حیا نہ کرے تو جو چاہے کر۔
ان پانچوں اَحکام کو شامل ہے۔
=================
(مِرْقَاۃُ الْمَفَاتِيْح ج۸ ص۸۰۲ ،تَحْتَ الْحَدِیث ۵۰۷۱)
حیاء کے اَحکام
- حیاء کبھی فرض و واجِب ہوتی ہے جیسے کسی حرام و ناجائز کام سے حَیاء کرنا
- کبھی مُستَحب جیسے مکروہِ تنزیہی سے بچنے میں حياء،
- اور کبھی مُباح (یعنی کرنا نہ کرنا یکساں) جیسے کسی مُباحِ شَرْعی کے کرنے سے حیاء۔
==========
(نزھۃ القاری ج۱ ص۳۳۴)
حیاء کا ماحول سے تعلُّق
اسلامی بھائیو!
حیاء کی نَشوونُما میں ماحول اور تربیَّت کا بَہُت عمل دَخْل ہے۔
حیادار ماحول مُیَسَّر آنے کی صورت میں حیاء کو خوب نِکھار ملتا ہے جبکہ بے حیاء لوگوں کی صحبت قلب و نگاہ کی پاکیزگی سَلْب کر کے بے شرم (بے۔شرْ۔مْ) کر دیتی ہے اور بندہ بے شمار غیر اَخلاقی اور ناجائز کاموں میں مُبتَلا ہو جاتا ہے اس لئے کہ حیاء ہی تو تھی جو برائیوں اور گناھوں سے روکتی تھی۔ جب حیاء ہی نہ رہی تو اب بُرائی سے کون روکے؟
بَہُت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بدنامی کے خوف سے شرما کر بُرائیاں نہیں کرتے مگر جنہیں نیک نامی و بدنامی کی پرواہ نہیں ہوتی ایسے بے حیا لوگ ہر گناہ کر گزرتے، اَخلاقیات کی حُدُود توڑ کر بداَخلاقی کے میدان میں اُتر آتے اور انسانيت سے گِرے ہوئے کام کرنے
میں بھی نَنگ و عار محسوس نہیں کرتے۔
خُلْقِ اِسلام
اسلام میں حیاء کو بَہُت اَہَمِّیَّت (اَھَمْ۔ مِیْ۔ یَتْ) دی گئی ہے۔
چُنانچِہ حدیث شریف میں ہے:
بے شک ہر دین کا ایک خُلْق ہے اور اسلام کا خُلق حیاء ہے۔
====================
(سُنَن ابن ماجہ ج۴ ص۴۶۰ حدیث ۴۱۸۱ دارُالمَعْرِفۃ بيروت)
یعنی ہر اُمَّت کی کوئی نہ کوئی خاص خَصْلت ہوتی ہے جو دیگر خصلتوں پر غالِب ہوتی ہے اور اسلام کی وہ خصلت حیاء ہے۔ اسلئے کہ حیاء ایک ایسا خُلْق ہے جو اَخلاقی اچھّائیوں کی تکمیل، ایمان کی مضبوطی کا باعِث اور اسکی عَلامات میں سے ہے۔
چُنانچِہ
ایمان کی عَلامت
حضرتِ سیِّدُنا ابو ہُریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مَروی ہے کہ رسولُ اﷲ عَزَّوَجَلَّ و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:
ایمان کے ستّرسے زائد شُعْبے (عَلامات)ہیں اور حیاء ایمان کا ایک شُعبہ ہے۔
=====================
(صحِیح مُسلِم ص۳۹ حدیث ۳۵ دار ابن حزم بيروت)
حیاء ایمان سے ہے
ایک اور حدیث شریف میں ہے:
حیاء ایمان سے ہے۔
=============
(مُسْنَدُ ابی یعلیٰ ج۶ ص۲۹۱حدیث ۷۴۶۳ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
یعنی جس طرح ایمان، مومِن کو کُفر کے اِرتکِاب سے روکتا ہے اِسی طرح حیاء باحیا کو نافرمانیوں سے بچاتی ہے۔ یوں مَجازاً اسے ایمان سے فرمایا گیا۔ جس کی مزید وضَاحت و تائید حضرتِ سیِّدُنا ابنِ عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کی اِس روایت سے ہوتی ہے:
بے شک حیاء اور ایمان دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں تو جب ایک اُٹھ جائے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے۔
======================
(اَلْمُسْتَدْرَک لِلْحاکِم ج۱ ص۱۷۶حدیث ۶۶ دار المعرفۃ بیروت)
کثرتِ حیاء سے مَنع مت کرو
حضرتِ سیِّدُنا ابنِ عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ
سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایک انصار ی کو ملاحَظہ فرمایا:
جو اپنے بھائی کوشَرم وحیاء کے مُتَعَلِّق نصیحت کر رہے تھے( یعنی کثرتِ حَیاء سے مَنْع کر رہے تھے)
تو فرمایا:
اسے چھوڑ دو، بے شک حَیاء ایمان سے ہے۔
================
(سُنَنُ اَ بِی دَاو،د ج۴ ص۳۳۱ حديث ۴۷۹۵ دار احياء التراث العربی بیروت)
اسلامی بھائیو!
معلوم ہوا حیاء جتنی زیادہ ہو اُتنی اہی چّھی ہے ۔ مگر افسوس کہ اب بعض لوگ حیاء کا مذاق اُڑاتے نظر آتے ہیں اور شرمیلے اسلامی بھائی پر ہنستے ہوئے کہتے ہیں یہ تو لڑکی کی طرح شرماتا ہے! یاد رکھئے حیاء میں بھلائی ہی بھلائی ہے۔ چُنانچِہ
حیاء خیر ہی خیر ہے
حضرتِ سیِّدُنا عمران بن حُصَیْن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ
اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب عَزَّوَجَلَّ و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:
حیاء صرف خیر (یعنی بھلائی) ہی لاتی ہے۔
=============
(صحِیح مُسلِم ص۴۰حدیث ۳۷)
وَسوَسہ:
یہاں یہ وَسوَسہ آسکتا ہے کہ بعض اوقات حياء انسان کو حق بات کہنے، شرعی حُکْم در یافت کرنے، نیکی کی دعوت دینے، اور انفِرادی کوشِش کرنے، وغيرہ مَدَنی کاموں سے روک کر اُسے بھلائی سے محروم کرديتی ہے تو پھر یہ صرف بھلائی تو نہ لائی!
علاجِ وَسَوسہ۔
جواب یہ ہے کہ حدیثِ پاک میں حیاء کے شرعی معنٰی مراد ہیں اور حیاءِ شَرعی کبھی بھی نیکیوں سے نہ روکے گی بلکہ ان پرمزید اُبھارے گی۔
حدیث شریف میں ہے:
حیاء سب کی سب خیر (یعنی بھلائی) ہے۔
=================
(سُنَنُ اَ بِی دَاو،د ج۴ ص۳۳۱حديث ۴۷۹۶ )
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.