You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حضرت سیِّدُناسری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی سلسلۂ عالیہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کے 10ویں شیخ ہیں ۔ آپ کی پیدائش تقریباً۱۵۵ھ میں بغداد شریف میں ہوئی ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا نام سرُّالدین اور کنیت ابوالحسن ہے اور سری سقطی کے نام سے مشہور ہیں ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والدِ گرامی کا نام حضرت مغلس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تھا ۔
ولی کی دعا کی تاثیر
حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے لوگو ں نے دریافت کیا کہ ابتدائے حالِ طریقت سے کچھ آگاہ فرمائیں تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ ایک روز حضرت حبیب راعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا گزر میری دُکان سے ہو ا ۔میں نے انہیں روٹی کے کچھ ٹکڑے پیش کئے تاکہ فقراء میں تقسیم فرمادیں اس وقت انہوں نے مجھے دعا دی :'' خدا تجھے نیکی کی توفیق دے ۔''اسی دن سے اپنی دنیا کو سنوارنے کا خیال میرے دل سے جاتا رہا ۔ آپ حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مرید و خلیفہ تھے اور انہیں سے علوم ظاہرو باطن اکتساب فرمایا۔
آپ کی وصیت
حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جو کہ آپ کے بھانجے تھے ارشاد فرماتے ہیں کہ جب حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بیمار ہو گئے تو میں آپ کی عیادت کو گیا۔ آپ کے پاس ہی ایک پنکھا پڑا ہو اتھا۔ میں نے اس کو اٹھا لیا اور آپ کو جھلنے لگا۔آپ نے ارشاد فرمایا کہ جنید!اسے رکھ دو کیونکہ آگ ہو اسے زیادہ تیز اور روشن ہوتی ہے۔ حضرت جنید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ سے عرض کیا کہ آپ کی کیا حالت ہے؟آپ نے ارشاد فرمایا:
''عَبْدٌ مَمْلُوْکٌ لَا یَقْدِرُ عَلٰی شَیْءٍ
(یعنی وہ غلام جسے کسی کام کا اختیار نہیں ہوتا)، حضرت جنید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ سے عرض کیا کہ کچھ وصیت فرمائیں،تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ مخلوق کی صحبت کی وجہ سے خالق عَزَّوَجَلَّ سے غافل نہ ہونا۔(الروض الفائق۱۱۶)
وصال
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انتقال ۱۳ رمضان المبارک ۲۵۳ھ بروزمنگل صبح صادق کے وقت 98برس کی عمر میں ہوا۔آپ کا مزار شریف بغداد میں مقام شونیز میں ہے۔ اللہ عَزّوَجَلَّ کی اِن پر رحمت ہو اور اِن کے صد قے ہماری مغفِرت ہو
شرابی کو نمازی بنا دیا
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک مرتبہ ایک شرابی کو دیکھا جو نشے کی حالت میں مدہوش زمین پر گرا ہو ا تھااور اسی نشے کی حالت میں اللہ ،اللہ کہہ رہا تھا ۔ آپ نے اس کا منہ پانی سے صاف کیا اور فرمایا کہ اس بے خبر کو کیا خبر کہ ناپاک منہ سے کس ذات کا نام لے رہا ہے ؟آپ کے جانے کے بعد جب شرابی ہوش میں آیا تو لوگوں نے اس کو بتایا کہ تمہاری بے ہو شی کی حالت میں تمہارے پاس حضرت سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی تشریف لائے تھے اور تمہارامنہ دھو کر چلے گئے ہیں ۔شرابی یہ سن کر بہت ہی شرمندہ ہو ا اور شرم وندامت سے رونے لگا اور نفس کو ملامت کر کے بولا: ''اے بے شرم !اب تو حضرت سری سقطی علیہ رحمۃ اللہ القوی بھی تم کو اس حالت میں دیکھ کر چلے گئے ہیں،خدا سے ڈر اور آئندہ کے لئے توبہ کر ۔'' رات میں حضرت سری سقطی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ندائے غیبی سنی کہ اے سری سقطی !تم نے ہمارے لئے شرابی کا منہ دھویا ہے ہم نے تمہاری خاطر اس کا دل دھو دیا ۔جب حضرت نماز تہجد کے لئے مسجد میں گئے تو اس شرابی کو تہجد کی نماز پڑھتے ہوئے پایا۔آپ علیہ رحمۃ اللہ القوی نے اس سے دریافت فرمایا کہ تمہارے اندر یہ انقلاب کیسے آگیا ۔تو اس نے جواب دیا کہ آپ مجھ سے کیوں دریافت فرمارہے ہیں جبکہ خود آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس پر آگاہ فرمادیا ہے۔(الروض الفائق،ص۲۴۴)
آپ کے چند ملفوظاتِ حسنہ
(۱)۔امیر پڑوسیوں، پیشہ ور قاریوں اور بد خُلق علما سے دور رہو۔
(۲)۔جو شخص چاہے کہ اس کا دین سلامت رہے، جان و مال کی خیر ہو اور غم میں کمی ہو، اُسے چاہئے کہ خلق سے مناسب فاصلہ رکھے۔
(۳)۔کھانا اتنا کھانا چاہئے جس سے زندگی قائم رہے۔
(۴)۔کپڑے پہننے میں نمائش باعثِ عذاب ہے۔
(۵)۔رہائش کے لئے محلات بنانے سے جنت نہیں مل سکتی۔
(۶)۔وہ علم بیکار ہے جس پر عمل نہ کیا ہو۔
(۷)۔مومن وہ ہے جو کاروبار زندگی میں بھی یادِ الٰہی سے غافل نہ ہو۔
(۸)۔کاش تمام مخلوقات کا غم میرے دل پر ہوتا تاکہ سب فارغ البال ہوتے۔
(۹)۔اگر کوئی اپنے ادب سے عاجز آتا ہے تو دوسروں کے ادب سے ہزار بار عاجز آتا ہے۔
(۱۰)۔تم کو ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جن کا فعل ان کے قول سے مطابق نہیں رکھتا، مگر بہت کم ایسے بھی ملیں گے جن کا فعل و عمل ان کی زبان سے عین مطابق ہو۔
(۱۱)۔سب سے بڑا دانشور وہ ہے جو کلام اللہ شریف کی آیات مبارکہ پر غور و فکر کرے اور ان سے تدبر و تفکر کو کام میں لائے۔
(۱۲)۔جو اپنے نفس کا طیع ہوجاتا ہے اس کے لئے تباہی کے سواء کچھ نہیں ہے۔
(۱۳)۔جو شخص اپنے آپ کو بلند مرتبہ کہلوانا پسند کرے نگاہِ حق سے گرجاتا ہے
(۱۴)۔حسنِ خُلق یہ ہے کہ خلقت تجھ سے راضی ہو۔
(۱۵)۔محض گمان پر کسی سے علاحدگی اختیار مت کرو۔
(۱۶)۔بغیر عتاب کے کسی کی صحبت مت چھوڑو۔
(۱۷)۔اس شخص سے بچو جو باعزت ہو کر مجلس میں بیٹھے اور بے عزت ہوکر نکالا جائے۔
(۱۸)۔عشق حقیقی تو وہ ہے جو جذبہ عمل کو تیز کردے۔
(۱۹)۔حق پر چلنے والے کا پاؤں شیطان کے سینہ پر ہوتا ہے۔
(۲۰)۔علم کی مثال سمندر جیسی ہے خواہ کتنا ہی خرچ کرو کم نہ ہوگا۔
(۲۱)۔جو شخص چاہتا ہے کہ اس کا دین سالم رہے اور اس کا بدن آرام سے رہے اور رنج و غم میں ڈالنے والے کلام کے سننے سے بچا رہے تو اس کو چاہئے کہ لوگوں سے الگ تھلگ ہوجائے اس لئے کہ یہ زمانہ عزلت اور وحدت کا ہے ۔
(۲۲)سب سے بڑی قوت یہ ہے کہ تم اپنے نفس پر غالب آجاؤ اور جو شخص اپنے نفس کی تادیب سے عاجز ہے تو پھر اپنے غیر کی تادیب سے بدرجہ اولیٰ عاجز ہوگا ۔
(۲۳)تین چیزیں اللہ تعالیٰ کی ناراضی کی علامت ہیں : لہو و لعب کی کثرت ، ہنسی مذاق اور غیبت و شکایت ۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.