You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حضرت یونس علہہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے شہرننوویٰکے باشندوں کی ہدایت کے لئے رسول بنا کر بھجا تھا۔
ننو یٰ: - یہ موصل کے علاقہ کا ایک بڑا شہر تھا۔ یہاں کے لوگ بت پرستی کرتے تھے اور کفر و شرک مں مبتلا تھے۔ حضرت یونس علہہ السلام نے ان لوگوں کو ایمان لانے اور بت پرستی چھوڑنے کا حکم دیا۔ مگر ان لوگوں نے اپنی سرکشی اور تمرد کی وجہ سے اللہ عزوجل کے رسول علہ السلام کو جھٹلادیا اور ایمان لانے سے انکار کردیا۔ حضرت یونس علہ السلام نے انہںس خبر دی کہ تم لوگوں پر عنقریب عذاب آنے والا ہے۔ یہ سن کر شہر کے لوگوں نے آپس مںک یہ مشورہ کار کہ حضرت یونس علہم السلام نے کبھی کوئی جھوٹی بات نہںپ کہی ہے۔ اس لئے یہ دیکھو کہ اگر وہ رات کو اس شہر مںہ رہں جب تو سمجھ لو کہ کوئی خطرہ نہںی ہے اور اگر انہوں نے اس شہر مںس رات نہ گزاری تو ینن کرلنال چاہے کہ ضرور عذاب آئے گا۔ رات کو لوگوں نے یہ دیکھا کہ حضرت یونس علہو السلام شہر سے باہر تشریف لے گئے۔ اور واقعی صبح ہوتے ہی عذاب کے آثار نظر آنے لگے کہ چاروں طرف سے کالی بدلاضں نمودار ہوئںے اور ہر طرف سے دھواں اٹھ کر شہر پر چھا گار۔ یہ منظر دیکھ کر شہر کے باشندوں کو ینہ ہو گال کہ عذاب آنے والا ہی ہے تو لوگوں کو حضرت یونس علہ السلام کی تلاش و جستجو ہوئی مگر وہ دور دور تک کہںب نظر نہںن آئے۔ اب شہر والوں کو اور زیادہ خطرہ اور اندیشہ ہو گاو۔ چنانچہ شہر کے تمام لوگ خوف ِ خداوندی عزوجل سے ڈر کر کانپ اٹھے اور سب کے سب عورتوں، بچوں بلکہ اپنے مویو حں کو ساتھ لے کر اور پھٹے پرانے کپڑے پہن کر روتے ہوئے جنگل مںن نکل گئے اور رو رو کر صدقِ دل سے حضرت یونس علہد السلام پر ایمان لانے کا اقرار و اعلان کرنے لگے۔ شوہر بوکی سے اور مائں بچوں سے الگ ہو کر سب کے سب استغفار مں مشغول ہو گئے اور دربارِ باری مںن گڑگڑا کر گریہ و زاری شروع کردی۔ جو مظالم آپس مںض ہوئے تھے ایک دوسرے سے معاف کرانے لگے اور جتنی حق تلفالں ہوئی تھںر سب کی آپس مںا معافی تلافی کرنے لگے۔ غرض سچی توبہ کر کے خدا عزوجل سے یہ عہد کرلاے کہ حضرت یونس علہر السلام جو کچھ خدا کا پغارم لائے ہںع ہم اس پر صدقِ دل سے ایمان لائے، اللہ تعالیٰ کو شہر والوں کی بے قراری اور مخلصانہ گریہ و زاری پر رحم آیا اور عذاب اٹھا لار گا ۔ ناگہاں دھواں اور عذاب کی بدلا ں رفع ہو گئںو اور تمام لوگ پھر شہر مںل آکر امن و چنہ کے ساتھ رہنے لگے۔
اس واقعہ کو ذکر کرتے ہوئے خداوند قدوس نے قرآن مجدے مں یوں ارشاد فرمایا ہے کہ:۔
فَلَوْ لَا کَانَتْ قَرْیَۃٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَہَاۤ اِیۡمٰنُہَاۤ اِلَّا قَوْمَ یُوۡنُسَؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوۡا کَشَفْنَا عَنْہُمْ عَذَابَ الۡخِزْیِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنٰہُمْ اِلٰی حِیۡنٍ ﴿۹۸﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ تو ہوئی ہوتی نہ کوئی بستی کہ ایمان لاتی تو اس کا ایمان کام آتا ہاں یونس کی قوم جب ایمان لائے ہم نے ان سے رسوائی کا عذاب دناد کی زندگی مںۤ ہٹا دیا اور ایک وقت تک انہںِ برتنے دیا۔ (پ۱۱،یونس:۹۸)
مطلب یہ ہے کہ جب کسی قوم پر عذاب آجاتا ہے تو عذاب آجانے کے بعد ایمان لانا مفدر نہں ہوتا مگر حضرت یونس علہل السلام کی قوم پر عذاب کی بدلایں آجانے کے بعد بھی جب وہ لوگ ایمان لائے تو ان سے عذاب اٹھا لات گاگ۔
عذاب ٹلنے کی دعا:۔ طبرانی شریف کی روایت ہے کہ شہر ننوویٰ پر جب عذاب کے آثار ظاہر ہونے لگے اور حضرت یونس علہ السلام باجود تلاش و جستجو کے لوگوں کو نہںا ملے تو شہر والے گھبرا کر اپنے ایک عالم کے پاس گئے جو صاحب ِ ایمان اور شخِج وقت تھے اور ان سے فریاد کرنے لگے تو انہوں نے حکم دیا کہ تم لوگ یہ وظفہے پڑھ کر دعا مانگو
یَاحَیُّ حِیْنَ لاَ حَیَّ و َیَاحَیُّ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَیَاحَیُّ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ
چنانچہ لوگوں نے یہ پڑھ کر دعا مانگی تو عذاب ٹل گا ۔
لکن مشہور محدث اور صاحب ِ کرامت ولی حضرت فضلذ بن عالض علہو الرحمۃ کا قول ہے کہ شہر ننولیٰ کا عذاب جس دعا کی برکت سے دفع ہوا وہ دعا یہ تھی کہ
اَللّٰھُمَّ اِنَّ ذُنُوْبَنَا قَدْ عَظُمَتْ وَجَلَّتْ وَاَنْتَ اَعْظَمُ وَاَجَلُّ فَافْعَلْ بِنَا مَا اَنْتَ اَھْلُہٗ وَلاَ تَفْعَلْ بِنَا مَانَحْنُ اَھْلُہٗ
بہرحال عذاب ٹل جانے کے بعد جب حضرت یونس علہت السلام شہر کے قریب آئے تو آپ نے شہر مںَ عذاب کا کوئی اثر نہںَ دیکھا۔ لوگوں نے عرض کاج کہ آپ اپنی قوم مںہ تشریف لے جایئے۔ تو آپ نے فرمایا کہ کس طرح اپنی قوم مںَ جا سکتا ہوں؟ مںا تو ان لوگوں کو عذاب کی خبر دے کر شہر سے نکل گات تھا، مگر عذاب نہںم آیا۔ تو اب وہ لوگ مجھے جھوٹا سمجھ کر قتل کردیں
گے۔ آپ یہ فرما کر اور غصہ مں بھر کر شہر سے پلٹ آئے اور ایک کشتی مںن سوار ہو گئے یہ کشتی جب بچں سمندر مں پہنچی تو کھڑی ہو گئی۔ وہاں کے لوگوں کا یہ عقدنہ تھا کہ وہی کشتی سمندر مں کھڑی ہو جایا کرتی تھی جس کشتی مںن کوئی بھاگا ہوا غلام سوار ہوجاتا ہے۔ چنانچہ کشتی والوں نے قرعہ نکالا تو حضرت یونس علہی السلام کے نام کا قرعہ نکلا۔ تو کشتی والوں نے آپ کو سمندر مںک پھنکی دیا اور کشتی لے کر روانہ ہو گئے اور فوراً ہی ایک مچھلی آپ کو نگل گئی اور مچھلی کے پٹ مںو جہاں بالکل اندھیرا تھا آپ مقدی ہو گئے۔ مگر اسی حالت مںو آپ نے آیت کریمہ
لَآ اِلٰہَ اِلآَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَo(پ۱۷،الانبیاء:۸۷)
کا وظفہ پڑھنا شروع کردیا تو اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس اندھیری کوٹھڑی سے نجات دی اور مچھلی نے کنارے پر آکر آپ کو اُگل دیا۔ اس وقت آپ بہت ہی نحف و کمزور ہوچکے تھے۔ خدا عزوجل کی شان کہ اُس جگہ کدو کی ایک بلی اُگ گئی اور آپ اُس کے سایہ مں۔ آرام کرتے رہے پھر جب آپ مںن کچھ توانائی آگئی تو آپ اپنی قوم مں تشریف لائے اور سب لوگ انتہائی محبت و احترام کے ساتھ پشہ آ کر آپ پر ایمان لائے۔
(تفسیر الصاوی،ج۳،ص۸۹۳،پ۱۱، یونس:۹۸)
حضرت یونس علہ السلام کی اس دردناک سرگزشت کو قرآن کریم نے ان لفظوں مں۱ باپن فرمایا ہے:۔
وَ اِنَّ یُوۡنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیۡنَ ﴿139﴾ؕاِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُوۡنِ ﴿140﴾ۙفَسَاہَمَ فَکَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیۡنَ ﴿141﴾ۚفَالْتَقَمَہُ الْحُوۡتُ وَ ہُوَ مُلِیۡمٌ ﴿142﴾فَلَوْلَاۤ اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیۡنَ ﴿143﴾ۙلَلَبِثَ فِیۡ بَطْنِہٖۤ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوۡنَ ﴿144﴾ۚؒفَنَبَذْنٰہُ بِالْعَرَآءِ وَ ہُوَ سَقِیۡمٌ ﴿145﴾ۚوَ اَنۡۢبَتْنَا عَلَیۡہِ شَجَرَۃً مِّنۡ یَّقْطِیۡنٍ ﴿146﴾ۚوَ اَرْسَلْنٰہُ اِلٰی مِائَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیۡدُوۡنَ ﴿147﴾ۚفَاٰمَنُوۡا فَمَتَّعْنٰہُمْ اِلٰی حِیۡنٍ ﴿148﴾ (پ23،الصافات:139تا148)
ترجمہ کنزالایمان:۔ اور بشکَ یونس پغمبر وں سے ہے جب کہ بھری کشتی کی طرف نکل گاس تو قرعہ ڈالا تو دھکلےب ہوؤں مںس ہوا پھر اسے مچھلی نے نگل لا3 اور وہ اپنے آپ کو ملامت کرتا تھا تو اگر وہ تسبحم کرنے والا نہ ہوتا ضرور اس کے پٹْ مںک رہتا جس دن تک لوگ اٹھائے جائںح گے پھر ہم نے اسے مد ان پر ڈال دیا اور وہ بمایر تھا اور ہم نے اس پر کدو کا پڑِ اُگایا اور ہم نے اسے لاکھ آدمواں کی طرف بھجای بلکہ زیادہ تو وہ ایمان لے آئے تو ہم نے انہں ایک وقت تک برتنے دیا۔
درسِ ہدایت:۔
(۱)ننوتیٰ والوں کی سرگزشت سے یہ سبق ملتا ہے کہ جب کسی قوم پر کوئی بلا عذاب بن کر نازل ہو تو اُس بلا سے نجات پانے کا ییس طریقہ ہے کہ لوگوں کو توبہ و استغفار مںر مشغول ہو کر دعائںب مانگنی چاہںق تو امدی ہے کہ بندوں کی بے قراری اور اُن کی گریہ و زاری پر ارحم الرٰحمین رحم فرما کر بلاؤں کے عذاب کو دفع فرما دے گا۔
(۲)حضرت یونس علیہ السلام کی دل ہلا دینے والی مصیبت اور مشکلات سے یہ ہدایت ملتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے خاص بندوں کو کس کس طرح امتحان میں ڈالتا ہے۔ لیکن جب بندے امتحان میں پڑ کر صبر وا ستقامت کا دامن نہیں چھوڑتے اور عین بلاؤں کے طوفان میں بھی خدا کی یاد سے غافل نہیں ہوتے تو ارحم الرٰحمین اپنے بندوں کی نجات کا غیب سے ایسا انتظام فرما دیتا ہے کہ کوئی اس کو سوچ بھی نہیں سکتا۔ غور کیجئے کہ حضرت یونس علیہ السلام کو جب کشتی والوں نے سمندر میں پھینک دیا تو ان کی زندگی اور سلامتی کا کون سا ذریعہ باقی رہ گیا تھا؟ پھر انہیں مچھلی نے نگل لیا تو اب بھلا ان کی حیات کا کون سا سہارا رہ گیا تھا؟ مگر اسی حالت میں آپ نے جب آیت کریمہ کا وظیفہ پڑھا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں مچھلی کے پیٹ میں بھی زندہ و سلامت رکھا اور مچھلی کے پیٹ سے انہیں ایک میدان میں پہنچا دیا اور پھر انہیں تندرستی و سلامتی کے ساتھ اُن کی قوم اور وطن میں پہنچا دیا۔ اور ان کی تبلیغ کی بدولت ایک لاکھ سے زائد آدمیوں کو ہدایت مل گئی۔
-------------
قرآنی واقعات وعجائبات کابہترین گلدستہ
عَجَائِبُ القرآن
مع
غَرَائِبِ القرآن
مؤلف
شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا عبدالمصطفٰی اعظمی
رحمۃ اللہ علیہ
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.