You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
قوم افراد کے مجموعے کا نام ہے۔ یعنی عام سی بات ہے کہ لوگوں کا مجموعہ ایک معاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ اب ان کے رویے اس معاشرے پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ میں عموماً مسلمانوں کی بات کرتا ہوں۔ چونکہ ہم مسلمان ہیں لہٰذا ایک امت ہونے کے ناطے تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اور میں (عبدالرزاق قادری) امت مسلمہ کے اتحاد اور وحدت کا خواہش مند اور قائل بھی ہوں۔ اسلام ہمارا دین ہے۔ اسلام محض ایک مذہب نہیں ہے۔ یہ ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔
(Islam is a complete code of life)اس کے مختلف پہلوؤں میں سے ایک پہلو مذہب بھی ہے۔ اور علوم کے ماہرین میں اختلافات نئی تحقیقات کے لیے نئی راہیں متعین کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ اسلام میں بطورِ دین کوئی عالِم دین کسی سے کوئی اختلاف نہیں رکھتا۔ البتہ مذہبی تعلیمات میں اپنی اپنی تحقیقی رائے اپنی اپنی علمی و فکری بساط کے مطابق ہو سکتی ہے۔ مثلاً ایک جہاندیدہ اور عمر رسیدہ شخص کی رائے ایک لا اُبالی قسم کے کم عمر اور ناتجربہ کار نوجوان کی رائے سے مختلف ہوگی۔عین ممکن ہے کہ وہ دونوں ایک ہی طرح سوچتے ہوں۔اسی طرح ایک حجرہ نشین نوجوان مفتی صاحب کا فتویٰ ذرا جذباتی ہو سکتا ہے بہ نسبت اس بزرگ مفتی کے جو کئی ممالک کے حالات کا گہرا مشاہدہ کرچکا ہو۔ عالم گیر سوچ رکھنے والا اور ایک شہر تک محدود خصوصاً لاہور جیسے مسلمان شہر تک رسائی رکھنے والا دو مختلف زاویوں سے نکتہ نظر پیش کرنے والے ہو سکتے ہیں۔حالانکہ مدعا دونوں کا تحقیقی فتویٰ پیش کرنے کا ہے۔ اور وہ دونوں حضرات اس میں سچے بھی ہیں۔ اپنے سے بہتر اور اعلیٰ تحقیق یا رائے کے سامنے سر خم تسلیم کرنا اعلیٰ ظرفی ہے، دلیری ہے، بہادری ہے نہ کہ اعتراض برائے اعتراض اور مخالفت برائے مخالفت کا ایک باب وا کر دینا کوئی عقلمندی ہے۔ انسان عظیم تب ہوتا ہے جب وہ مخالف کا مکمل مؤقف جان کر حکمت اور دانائی سے جواب دے۔ علمی جواب پیش کرکے اُسے فریق مخالف کو منوا لینا کس پر فرض ہے؟ باؤلے پن سے اپنا وقار بھی جاتا رہتا ہے چہ جائیکہ کسی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑجانا اور عاشقی میں عزت سادات بھی گنوا بیٹھنا!!! میں چونکہ ایک سادہ سا واجبی سا طالب علم ہوں لہٰذا اَنَا کے بُتوں کی زد میں آکر مسلمانیت کا جنازہ نکلتا ہوا دیکھنامجھے تکلیف دیتا ہے۔بالفرض کسی صاحب کی ایک آنکھ خراب ہوجائے تو اُسے ’’اوئے کانے‘‘ کہہ دینے سے اُس کے دل میں ملال پیدا ہوگااور دیکھنے کو بھی اس طرزِ تخاطب پر افسوس ہوگا۔لیکن اگر ادب و احترام کے ساتھ پوچھا جائے ’’ارے بھائی صاحب! کیا آپ کی یہ آنکھ خراب ہے؟‘‘ تو اس کے دل میں مخاطب کے لیے عزت پیدا ہوگی اور دیکھنے والے پر بھی اچھا تاثر پڑے گا۔اب وہ شخصیات جنہیں قوم کے لیے ایک نمونہ (آئیڈیل) بننا تھا اگر وہی جھوٹی انا کی خاطرمسخرہ پن پر اتر آئیں گی تو قوم پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔اپنی ذات سے وابستہ چھوٹی چھوٹی اغراض کی خاطر اگر رویے سرد رکھے جائیں اور اپنی بڑی بڑی خامیاں دور نہ کی جائیں تو اُمت کیسے اپنے مصلحین کے نقشِ قدم پر نہ چلے گی؟ یعنی دوسروں کو نصیحت خود میاں فصیحت(فضیحت)! یعنی قوم کو ہم ایک بھدّا قسم کا مزاج بطورِ نمونہ تحفہ پیش کرتے ہیں اور بہتر نتائج کے منتظر بھی ہیں!!!ہمارا قول و فعل کا تضاد کب ختم ہوگا؟اگر کوئی تعلیم یافتہ شخص بنیادی اسلامی ضروریات (دین) کا اقرار کرتا ہے تو علمی اختلاف اُس کا حق ہے۔ اگر ماحول اور معاشرہ ہی ایسا بنا دیا جائے کہ ہر چھوٹے بڑے کا ادب و احترام طاقِ نسیاں ہوجانا ایک معمول بن جائے تو ذلت ہمارا مقدر ہوگی! ہم انتشار و افتراق کا شکار ہوں گے! اس سے نئی نسل کے خیالات پراگندہ ہوں گے! اُمت فتنوں کی زد میں ہوگی۔ دیکھیے صاحب! اللہ عزوجل نے موت و حیات کو اس لیے تخلیق فرمایا کہ وہ امتحان لے کہ کو ن نیک عمل کرتا ہے! نیکی کا حکم کون دیتا ہے بُرائی سے کون روکتا ہے! ہم جتنا زورِ بازو سازشیں کرنے میں لگاتے ہیں جتنا وقت پروپیگنڈے کرنے میں صَرف ہوتے ہیں اس کی بجائے ہم یہی وقت ، ذہن اور زور اپنے محلے کے لوگوں کی اصلاح پر خرچ نہیں کیوں نہیں کرتے؟ہم ایک عملی نمونہ بن کر دوسروں کے آئیڈیل کیوں نہیں بن جاتے؟ہم کم وسائل و اسباب میں اعلیٰ اقدار والی زندگی بسر کرنے کی عملی تصویر بن کر کیوں نہیں دکھاتے کہ زندگی یوں بھی بسر ہوتی ہے؟ ہم فقیرانہ آئے صدا کرچلے !میاں خوش رہو دعا کرچلے! کا مصداق کیوں نہیں بن جاتے؟ گنوار لوگوں والی کھینچا تانی سے اہلِ علم کب باز آئیں گے ؟ کیا جاہلوں کے طرزِ زندگی اور تعلیم یافتہ حضرات کی تہذیب میں فرق نہیں ہونا چاہیے؟ ہم کب نیک نام ہوجائیں گے؟ حضرتِ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے مطابق مسلمانوں پر جب بھی بُرا وقت آیا تب اسلام نے مسلمانوں کی مدد کی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج ہم پر بُرا وقت آرہا ہے تو ہم اسلام سے دورہوتے جارہے ہیں! اور رُسوائی ہمارا مقدر بنتی جارہی ہے۔ آئیے ایک بار پھر کسی بند کمرے میں چھپ کر اپنا اپنا محاسبہ کرکے اسلام کی مدد کے بل پر عالمگیر سوچ کو اپنالیں اور قوم و ملت کے لیے عملی طور پر کچھ اچھا کر جائیں۔ اللہ عزوجل سب کوہدایت کی توفیق ارزانی فرمائے۔ آمین
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.