You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حُلیہِ خیرالوریٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
سرکار دوجہاں ،مختار کون مکاں،باعث تخلیق کون مکاں،آقائے دو جہاں ،فخر موجودات ،زینت بزم کائنا ت،حضور پرنور، شافع یوم النشور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سراپا رحمت بن کے آئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عضوعضو معجزہ تھا۔
-------------------------------------------------------------------------------------------
ہم یہاں اس عظیم ہستی کے جسم اطہر اعضاء کی ہیت و بناوٹ و کمالات ملاحظہ کریں گے کہ
جو سارے عالموں کے لئے رحمت بن کے آئے جو ہر دکھی وبے سہارا کا سہارا بنے جنہوں نے لوگوں کے مصائب و آلام کا مداوا کیا, لوگوں کی مشکلات دور کیں ان کی خواہشات پوری کیں, بن مانگے عطاء کرتے رہے ۔
-------------------------------------------------------------------------------------------
١):۔ معطر ومطہرموئے مبارک :۔
***********************
فخر موجودات ،زینت بزم کائنا ت،حضور پرنور، شافع یوم النشور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر انور کے بال مبارک نہ بہت زیادہ گھونگریالے تھے نہ بالکل سیدھے تھے ان مہکتے ہوئے بالوں کی لمبائی کبھی دوش اطہر تک ہوتی تھی اور کبھی گوش مبارک تک ۔
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کنگھی کیا کرتے تھے تو وہی زلفیں دوش اطہر تک پہنچ جایا کرتی تھیں۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (زینت بزم کائنا ت،حضور پرنور، شافع یوم النشور) حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک کانوں کے درمیان تک پہنچتے تھے۔
صدیقئہ کائنات حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک جمہ و فرہ کے درمیان تھے یعنی کانوں اور کندھوں کے درمیان تھے ۔
(الوفاء باحوال المصطفیٰ ؐ ص ٤٤٩ فرید بکسٹال)
مدارج النبوۃ اور المواہب الدنیہ میں ہے کہ کنگھی فرماتے تو دوش اقدس تک پہنچ جاتے اور بعد ازاں گھنگھریالے ہونے کی وجہ سے سکڑ کر کانوں تک پہنچ جاتے اور حجامت بنوانے پر کانوں کے قریب ہوتے اور چند دن بعد کندھوں تک پہنچ جاتے۔
یہ موئے مبارک تو وہ موئے مبارک ہیں کہ مولائے کائنات باب العلم والحکمت حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ فخر موجودات ،زینت بزم کائنا ت،حضور پرنور، شافع یوم النشور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بال مبارک ھاتھ میں لے کر ارشاد فرمایا کہ
من اذیٰ شعرۃََمِنْ شَعْرِیْ فَالْجَنْۃ عَلیہِ حَرام
جس نے میرے بالوں میں سے ایک کی بھی توہین کی اسے تکلیف دی تو اس پر جنت حرام ہے۔
(جامع صغیرجز ثانی ص ١٤٥)
میرے آقا و مولا ،فخر موجودات ،زینت بزم کائنا ت،حضور پرنور، شافع یوم النشور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک لینے کے لئے صحابہ کرم جب ،حضور پرنور، شافع یوم النشور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حلق کرانے کیلئے بیٹھے تو صحابہ حلقہ بنا کر ان بالوں کو لینے کے لئے جمع ہو جایا کرتے تھے۔
جیسا کہ مسلم شریف کی جلد نمبر١ میں ہے کہ
فما یریدون ان تقع شعرۃ الا فی ید رجل
ہر شخص کی یہی کوشش تھی کہ ایک بال بھی اس کے ھاتھ لگ جائے۔
میرے آقائے کریم حضور پرنور، شافع یوم النشور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال مبارک وہ ہیں کہ جن کی وجہ سے سیف اللہ حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ کو جنگوں میں فتح و نصرت حاصل ہوتی تھی ۔
-------------------------------------------------
کلام الٰہی میں شمس و ضحیٰ تیرے چہرے نور فزا کی قسم
قسم شب تار میں راز یہ تھا کہ حبیب زلف دوتا کی قسم
-------------------------------------------------------------------------------------------
شکم مبارک:۔
یہ شکم مبارک وہ ہے کہ جس کے بارے میں تاجدار بریلی شہنشاہ ولایت امام العاشقین امام احمد رضا خان فرماتے ہیں کہ
-------------------------------
کل جہاں ملک اور جو کی روٹی غذا
اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام ۔
-------------------------------
نور مجسم شفیع معظم سرکار دوجہاں ،مختار کون مکاں،باعث تخلیق کون مکاں،آقائے دو جہاں ،فخر موجودات ،زینت بزم کائنا ت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شکم مبارک اور سینہ اطہر ہموار اور برابر تھاسینہ اقدس کے درمیان میں موئے مبارک کا ایک پرنور خط تھا جو ناف تک تھا۔آپ کا سینہ اقدس کسی قدر ابھرا ہوا اور چوڑا تھا۔
یہ شکم مبارک وہ شکم مبارک ہے کہ جو کبھی کھانے سے سیر نہیں ہواصدیقہ کائنات حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ آپ نے کبھی سیر ہوکر کھانا نہیں کھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فقر اختیاری کا عالم یہ تھا کہ آپ کئی کئی دن فاقہ کرتے مگر اس کی شکایت کبھی کسی سے نہیں کی۔
یہ آپکا فقر اختیاری تھا اگر آپ چاہتے تو شاہانہ زندگی بسر کر سکتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں میں خزانوں کی چابیاں تھیں آپ تو وہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
-----------------------------
واللہ یعطی وانا قاسم
کہ اللہ مجھے عطاکرتا ہے اور میں تقسیم کرنے والاہوں۔
---------------------------------------------
مالک کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں
دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں۔
---------------------------------------------
شفا شریف میں ہے کہ صدیقہ کائنات حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں آپ کے فاقہ کی حالت دیکھ کر رو پڑتی تھی ۔
اور آپ کے شکم مبارک پر ہاتھ پھیرتی اور کہتی کہ میں آپ پر واری جاؤں اتنا تو قبول کرلیں کہ جسمانی قوت قائم رہے تو( آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر قرباں جائیں )آپ فرماتے کہ
-------------------------------------------------------------
مالی وللدنیا اخوانی من اولی العزم من الرسل صبرواعلی ما ھو اشد من ھذا
مجھے دنیا سے کیا کام میرے برادر اولوالعزم رسل تو اس سے بھی زیادہ حالت پر صبر کیا کرتے تھے۔
-----------------------------------------------------------------------------
میرے آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ بغیر افطار کیے کئی کئی دن روزہ رکھا کرتے تھے تو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے آپ کو دیکھ کر روزے رکھنے شروع کر دیے تو صحابہ کرام کمزور ہونا شروع ہو گئے جب صحابہ کرام کمزور ہونا شروع ہوئے ان کی کمزوری ظاہر ہوئے تو آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم تھا مگر تعلیم امت کے لئے پوچھا)تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منع فرمایا تو صحابہ کرام عرض کرتے کہ ۤآپ خود روزہ رکھتے ہیں اور ہمیں منع کرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے کہ
------------------------------------------------------
لست کاحد منکم انی اطعم واسقی وانی ابیت اطعم واسقی
میں تمہارے جیسا نہیں ہوں
------------------------------------------------------
اب وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ آقاکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرح بشر ہیں تو وہ اس کو سامنے رکھیں کہ "لست کاحد منکم "آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نور بھی ہیں بشر بھی ہیں اور بشر ہماری طرح کے نہیں بلکہ
محمد بشر لا کالبشر بل ھو یاقوت بین الحجر
----------------------------------------------------------------------------------------
چہرہ مبارک:۔
کس قلم کی طاقت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والضحیٰ والے چہرہ کے نقشہ کا احاطہ کر سکے وہ رخ انور کہ جس کا عرب و عجم سارا دیوانہ تھا اور ہے جس کے ایک بار نظارہ کے لئے دنیا ترستی تھی اور جو اس چہرہ انور کا نظارہ کر لیا کرتے تھے تو وہ بے ساختہ کہہ اٹھتے تھے کہ
لم ار قبلہ ولا بعدہ
ایسا حسین و جمیل چہرہ ایسا رخ زیبا نہ ہم نےاس سے پہلے کبھی دیکھا اور نہ بعد میں۔ وہ ایسا چہرہ تھا کہ جس چہرہ انور کا نور اللہ نے ستر ہزار پردوں میں چھپا رکھا تھا پھر بھی سارا عالم اس والضحیٰ والے چہرہ کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے بے تاب رہتا تھا ۔
چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ میں رات کے وقت کپڑے سی رہی تھی کہ میرے ھاتھ سے سوئی گر گئی کافی تلاش کی مگر نہ ملی کہ اچانک آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ کے رخ انور سے ایسی نور کی کرن نکلی کہ میرے ھاتھ سے گری ہوئی سوئی مل گئی ۔
(حجۃ اللہ علی العالمین ص ٦٨)
---------------------------------------------------------------------------------------
سیدنا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ے زیادہ حسین وجمیل نہیں دیکھا یوں معلوم ہوتا کہ آفتاب آپ کے چہرہ اقدس میں چل رھا ہے ۔
حضرت حسان بن ثابت فرماتے ہیں کہ
----------------------------
واحسن منک لم تر قط عینی
واجمل منک لم تلد النسائ
خلقت مبراء من کل عیب
کانک خلقت کما تشائ
---------------------------
دوسری جگہ فرماتے ہیں کہ
------------------------------
متیٰ یبدء فی اللیل البھیم جبینہ
یلح مثل مصباح الدجیٰ المؤقد
---------------------------
(زرقانی علی الموہب جز رابع ص ١٩١)(شرح دیوان حسان ص ١٥٧)
حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ
------------------------------------------------------------
کان اذ ضحک یتلا لوفی الجدر
جب آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہنستے تو دیواریں روشن ہو جاتی تھی۔
------------------------------------------------------------
حضرت جابر بن سمرہ فرماتے ہیں کہ
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ تلوار کی طرح چمکیلا تھا۔
------------------------------------------------------------------------------------------
ریش مبارک:۔
میرے آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی داڑھی مبارک گھنی تھی اور چہرہ انور اس کے گھیرے میں اس طرح معلوم ہوتا تھا کہ جیسے رحل میں قرآن رکھاہوا ہو۔
النہایہ میں ہے کہ داڑھی کے وہ بال جو قبضہ سے زائد ہوں ان کا کاٹنا واجب ہے ایسے ہی میرے آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ آپ اپنی داڑھی مبارک کی لمبائی اور چوڑائی سے زائد بال کاٹا کرتے تھے یہ روایت حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص سے مروی ہے۔
(فتح القدیر جلد دوم ص ٧٦ باب مایوجب القضائ)
یزید بن فارسی سے روایت ہے (طویل روایت ہے میں حلیہ مبارکہ کے بیان والا حصہ نقل کر رھا ہوں آپ آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خواب میں دیکھا حلیہ حضرت عباس سے بیان کررہے ہیں )
آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قد درمیانہ اور گندم گون سفیدی مائل رنگت آنکھیں سرمئی خونصورت ہنسی والے گول چہرہ والے کہ ان کی داڑھی دائیں بائیں بھری ہوئی تھی اور سینہ کو چھپائے ہوئے تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر ےم آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بیداری میں بھی دیکھتے تو بھی آپ کے حلیہ شریفہ کی اس سے زیادہ تعریف نہ کرتے۔
(شمائل ترمذی ص ٣٠مطبوعہ امین کمپنی اردو بازار دھلی انڈیا)
میرے پیارے آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ریش مبارک کو تیل بھی لگایا کرتے تھے اور کنگھی بھی کیا کرتے تھے اور مونچھیں کٹوایا کرتے تھے ۔
-------------------------------------------------------
ریش خوش معتدل مرہم ریش دل
ہالہ ماہ ندرت پہ لاکھوں سلام
------------------------------------------------------------------------------------------------
لب اور دندان مبارک:۔
آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لب مبارک نہایت خوبصورت اور سرخی مائل تھے دندان مبارک کشادہ روشن وتاباں تھے جب کلام فرماتے تو دندان مبارک سے نور نکلتا ہوا دکھائی دیتا اور جب تبسم فرماتے تو در و دیوار روشن ہو جایا کرتے تھے۔
اسی لیے تو شاعر کہتا ہے کہ۔
جگمگاتے ہوئے سرکار کے دلکش دنداں
خود بنا دیتے ہیں ذروں کو بھی ماہ تاباں
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کلام فرماتے تو
رای کالنور یخرج من بین ثنایاہ
(حجۃ اللہ ص ٦٨١)
ترجمہ :۔
ایک نور نظر آتا تھا جو آپ کے دندان مبارک سے نکلتا تھا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ آقا و مولیٰ مولا کائنات حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب تبسم فرماتے
یتلاء فی الجدر
(ترمذی شریف)
ترجمہ:۔
(تو دندان مبارک سے نور شعاعیں نکلتیں)جن سے دیواریں منور ہو جاتیں۔
انہی لبوں کے بارے میں امام احمد رضا بریلوی فرماتے ہیں کہ
پتلی پتلی گل قدس کی پتیاں
ان لبوں کی نزاکت پہ لاکھوں سلام
اور
دندان مبارک کے بارے میں فرمایا کہ
جس کے گچھے سے لچھے جھڑیں نور کے
ان ستاروں کی نزہت پہ لاکھوں سلام
-------------------------------------------------------------------------------------------
گردن،کندھے اور پشت مبارک:۔
میرے آقا و مولیٰ مولا کائنات نور مجسم شفیع معظم حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گردن انور انتہائی خوبصورت تھی اعتدال کے ساتھ طویل اور چاندی نما سفید تھی آپ کی گردن حسین وجمیل تھی گویا کہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ گردن چاندی کی صراحی تھی ۔
اور آپ کے کندھے مبارک بھی ایک عجیب ہی شان کے مالک تھے وہ بھی ایسے حسین و جمیل تھے کہ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے چاندی میں ڈھلے ہوئے ہیں۔
مستدرک میں ہے کہ
فاتح خیبر شیر خدا با ب العلم والحکمت حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھوں مبارک کی قوت کا یہ عالم تھا کہ
اگر میں چاہتا تو مجھے آسما ن تک پہنچا دیتے۔
مسند امام احمد بن حنبل میں ہے کہ صحابی رسول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
میری نظر آقائے دوجہاں سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر پڑی تو ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ وہ چاندی میں ڈھلی ہوئی ہے۔
مسند امام احمد بن حنبل جلد نمبر ٣ صفحہ نمبر ٤٢٦
خالق کائنات مالک کائنات مالک ارض و سماں اللہ رب العزت کے پیارے محبوب کریم سرکار کون و مکاں مختار کون ومکاں راحۃ العاشقین شمس العارفین امام المرسلین حضور پر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیاری بغلیں پاک و صاف طیب و طاہر تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بغلیں پاکیزہ خوشبودار تھیں آپ کی بغلوں کا رنگ متغیر نہیں ہوتا تھا۔
صحابی رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
ایک دفعہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کے لئے ھاتھ اٹھائے اور اتنے بلند کئے کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگی۔
سبحان اللہ
ابھی بھی کوئی کہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثل ہوں تو اس کی عقل پر تف ہے۔
خصائص الکبریٰ میں ہے بنی حریش کے ایک ثقہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ماعز بن مالک کو ان کے اقرار بالزنا پر سنگسار کرنے کا حکم دیا تو ان کے جسم پر پتھر برستے دیکھ کر مجھ میں کھڑا رہنے کی طاقت نہ رہی قریب تھا کہ میں گر پڑتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے تھام لیا تو وہ ایسا وقت تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بغل مبارک سے پسینہ گر رھا تھا کہ جس سے کستوری کی خوشبو آرہی تھی۔
سبحان اللہ
حُلیہِ خیرالوریٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم :۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ان مبارک بغلوں کی یہ بھی خصوصیت ہے کہ ساری دنیا کے انسانوں کی بغلوں کا رنگ متغیر ہوتا ہے مگر سرکار دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بغلوں مبارکہ کا رنگ متغیر نہیں ہوتا تھا ۔
----------------------------------------------------------------------------
حلیہ مقدسہ سے برکت حاصل کرنے کے لیے نفس اسلام ٹیم یہاں حضرت مولانا محمد کامل صاحب چراغ ربانی نعمانی ولید پوری رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے منظوم حلیہ مبارکہ کے چند اشعار نقل کرتی ہے،
حضرت مولانا موصوف نے اپنی کتاب ’’پنجہ نور‘‘ میں تحریر فرمایا کہ
حلیۂ مقدسہ
روحِ حق کا میں سراپا کیا لکھوں
حلیہ نورِ خدا میں کیا لکھوں
-------------------------------------------------------------
پر جمالِ رحمۃٌ للعالمیں
جلوہ گر ہو گا مکانِ قبر میں
-------------------------------------------------------------
اس لئے ہے آگیا مجھ کو خیال
مختصر لکھ دوں جمالِ بے مثال
-------------------------------------------------------------
تا کہ یاروں کو مرے پہچان ہو
اور اس کی یاد بھی آسان ہو
-------------------------------------------------------------
تھا میانہ قد و اوسط پاک تن
پر سپید و سرخ تھا رنگ بدن
-------------------------------------------------------------
چاند کے ٹکڑے تھے اعضاء آپ کے
تھے حسین و گول سانچے میں ڈھلے
-------------------------------------------------------------
تھیں جبیں روشن کشادہ آپ کی
چاند میں ہے داغ وہ بے داغ تھی
-------------------------------------------------------------
دونوں ابرو تھیں مثالِ دو ہلال
اور دونوں کو ہوا تھا اِتصال
-------------------------------------------------------------
اِتصال دو مہ "عیدین" تھا
یاکہ ادنیٰ قرب تھا ’’قوسین‘‘ کا
-------------------------------------------------------------
تھیں بڑی آنکھیں حسین و سرمگیں
دیکھ کر قربان تھیں سب حور عیں
-------------------------------------------------------------
کان دونوں خوب صورت ارجمند
ساتھ خوبی کے دہن بینی بلند
-------------------------------------------------------------
صاف آئینہ تھا چہرہ آپ کا
صورت اپنی اس میں ہر اک دیکھتا
-------------------------------------------------------------
تابہ سینہ ریش محبوبِ الٰہ
خوب تھی گنجان مو ، رنگ سیاہ
-------------------------------------------------------------
تھا سپید اکثر لباسِ پاک تن
ہو ازار و جبہ یا پیر ہن
-------------------------------------------------------------
سبز رہتا تھا عمامہ آپ کا
پر کبھی سود و سپید و صاف تھا
-------------------------------------------------------------
میں کہوں پہچان عمدہ آپ کی
د ونوں عالم میں نہیں ایسا کوئی
================================
طالب دعا،
نفس اسلام ٹیم
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.