You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اخلاق رسول صلی اللہ علیہ وسلم
یوں تو بہت سے مذاہب میںاخلاقیات کی تعلیم اور معاملات میں اس کے نفاذپر کافی زوردیاجاتاہے۔لیکن دین اسلام نے اخلاقیات کو نظام زندگی میں جو مقام دیا اور اسکے اظہارسے زمانے کو جو تقویت حاصل ہوی اس کی نظیر نہیں ملتی ۔اسلام کی ترویج و اشاعت میں سب سے زیادہ اہم کردار جس نے ادا کیا وہ تھا داعی اسلام رسول اللہﷺ کا اخلاق کریمانہ ، ان کا حسن سلوک ، روادری جس نے کفار عرب پر اپنا اتنا گہرا اثر چھوڑا کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کو دیکھ کر اسلام کی تعلیمات اور اس کی حقانیت کے معترف ہوئے اور دائرئہ اسلام میں داخل ہوتے چلے گئے۔
اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ انسان کی علمی عملی اور اخلاقی کمالات کا دارومدار عقل سلیم پر ہے ۔ اور حضرت وہب بن منبہ (متوفی ۱۱۰ھ ) رضی اللہ عنہ نے فر مایا :
جب سے دنیا عالم وجود میں آئی ہے، اس وقت سے قیامت تک کے تمام انسانوں کی عقل کارسول اللہ ﷺ کی عقل شریف سے موازنہ کیا جائے تو تمام انسانوں کی عقل کو رسول اللہ ﷺکی عقل شر یف سے وہی نسبت ہوگی جو ایک ذرہ کو تمام ریگستان دنیا سے نسبت ہے۔ (خصائص الکبری جلد اول صفحہ ۶۶مطبوعہ مرکزاہلسنت برکات رضا امام احمدرضاروڈپوربندرگجرات ہندــ’’سیرت مصطفی جان رحمت ٰ ﷺجلد سوم صفحہ نمبر ۴۰افادات :اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃاللہ علیہ جمع و ترتیب محمد عیسی رضوی قادری)
اور پھر رسول اللہ ﷺ کے اخلاق حسنہ کے بارے میں خالق خلق نے خود فرمادیا:
{وَإِنَّکَ لَعَلیٰ خُلُقٍ عَظِیْم} (القلم :۴)
ترجمہ: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔
(کنزلایمان فی ترجمۃالقرآن ازامام احمد رضا خان قادری برکاتی بریلوی)
خلق :
نفس کی اس راسخ کیفیت کا نام ہے جس کے باعث اعمال حسنہ بڑی سہولت و آسانی سے صادر ہو جاتے ہیں اوران کو عملی جامہ پہنانے میں کسی فکر وتدبر کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس سے معلوم ہوا کہ وہ اعمال جو کسی سے اتفاقاً یا کسی وقتی جذبہ اور عارضی خوشی سے صادر ہو تے ہیں۔ وہ خواہ کتنے ہی اعلی و عمدہ ہوں انہیں خلق نہیں کہا جائے گا ۔بلکہ خلق کا اطلاق خصال و عادات پر ہوگا جو پختہ ہوں اور جن کی جڑیں قلب وروح میں بڑی گہری ہوں یعنی جس طرح آنکھ بغیر کسی تکلف کے دیکھتی ہے اور کان بغیر کسی دقت کے ہر آواز کو سنتا ہے۔اسی طرح وہ تما م افعال حسنہ بغیر کسی دشواری کے صادر ہو جاتے ہیں۔
(تلخیص ازشرح مسلم جلد۶ صفحہ۷۵۹ از غلام رسول سعیدی پاکستا ن مطبوعہ مرکزاہلسنت برکات رضا امام احمد رضا روڈ پور بندر گجرات ہند)
حسن خلق کے لیے یہ ضروی ہے کہ انسان بخل و کنجوسی سے باز رہے،جھوٹ نہ بولے اور دیگر افعال مذمومہ سے اجتناب کرے،لوگوں کے ساتھ ایسی گفتگو اور ایسا معاملہ کرے جو پسندیدہ ہوں ،کشادہ قلبی کیساتھ اپنا مال خرچ کرے تاکہ لوگوں کی نگاہوں میںاسکا وجود محبوب ہو جائے،وہ اپنے رشتہ داروں و بیگانوں کیساتھ کشادہ روئی سے پیش آئے ،تمام معاملات میںآسانی کو ملحوظ خاطر رکھے، سب سے در گزر کرے ،کسی سے ترک تعلق نہ کرے اوراعلی و ادنی کی جانب سے جو تکلیف اسے پہنچے اس پر وہ ترش روئی کا مظاہر ہ نہ کرے۔
انہیںخصائل حمیدہ میں تمام اخلاق حسنہ اور افعال کریمانہ منحصر ہیں۔اور رسول اللہ ﷺ میں یہ تما م صفات جلیلہ اور جمیلہ کامل صورت میں پائی جاتی ہیں۔اسی لئے اللہ تبارک و تعالی نے اپنے حبیب ﷺ کے ا خلاق کی تعریف مذکورہ بالا آیت میں خود ہی فرمائی ۔
جب سے یہ دنیا آباد ہے تب سے آج تک کوئی نہ کو ئی انسان پیداہوتا رہا ہے۔ جس نے لوگوں کواپنی سیرت و کردار کو بہتر بنانے کی دعوت دی اور سب کا دائرہ بھی مختلف رہا ہے۔ سبھی نے کسی ایک علاقہ، خطہ شہر یا ایک ملک یا تو پوری قوم کے لیے یہ کام کیا اور بہتر سے بہتر ماحول اور معاشرہ بنا نے کی کوشش کی۔ مگر عام طور پہ دنیا کے دوسرے معلمین اخلاق کے ساتھ یہ المیہ رہا ہے کہ وہ جن اخلاقی اصول کی تبلیغ کر تے ہیں اور جن ملکوتی صفات کو اپنانے پہ زور دیتے ہیں ۔ خود انکی اپنی زندگی میں ان تعلیمات کا اثر بہت کم ہوتا ہے۔ مگررسول اللہ ﷺ کی زندگی مبارک میں ایسا نظر نہیں آئے گابلکہ جو جتنی گہرائی سے دیکھے گا وہ اس قدر رسول اللہ ﷺ کے اخلاق اور پاکیزہ کردار کا مداح ہو گا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ جن کو تقریباً دس سال بارگاہ رسالت میں خدمت کا شرف حاصل ہے ان سے روایت ہے۔
حدثنا سعید بن منصور و ابوالربیع قالا حدثنا حماد بن زیدعن ثابت البنانی عن انس بن مالک قال
خدمت رسول اللہ ﷺ عشر سنین واللہ ما قال لی اُفاً قط لا قال لی لشیء لم فعلت کذا وھلا فعلت
کذا
زادابوالربیع لیس مما یصنعہ الخادم ولم یذ کر قو لہ و اللہ۔
( مسلم شریف باب حسن خلقہ ﷺحدیث نمبر۵۸۹۲)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
میں دس سال رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں رہا خدا کی قسم آپ نے کبھی مجھ سے اف نہ کہا اور نہ کبھی مجھ سے یہ کہا کہ تم نے ایساکام کیوں نہیں کیا؟ یا ایساکام کیوں کیا ؟
ایک روایت میں ہے جو کام خادم نہیں کرتا اور قسم کا ذکر نہیں ہے۔
ایک اور حدیث میں ہے۔
حدثنا شیبان بن فرّوخ و ابو الربیع قالا حدثنا عبدالوارث عن ابی التّیا ح عن انس بن مالک قال
کان رسول اللہ ﷺ احسن ا لناس خلقاً ۔
( مسلم شریف باب حسن خلقہ ﷺحدیث نمبر۵۸۹۷)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
رسول اللہ ﷺ کے اخلاق سب سے اچھے تھے۔
اسی طرح حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاجو زوجہ ہونے کی حیثیت سے رسول اللہﷺ کے بہت قریب تھیں ۔انکے پاس کچھ صحابہ اکرام رضی اللہ عنہم رسول اللہﷺ کے خلق کے متعلق پوچھنے کے لیے گئے تو حضرت عائشہ نے فرمایا:
کان خلقہ القران (تفسیر ابن کثیرجلد ۸،۷ صفحہ ۱۵۰)
آپ کا اخلاق ،قران ہے ۔
اس میں یہ اشارہ ہے کہ جس طرح قران مجید کے معانی غیر متناہی ہیں اسی طرح رسول اللہ ﷺکے خلق عظیم کے مراتب غیرمتناہی ہیں۔رسول اللہ ﷺکے اخلاق ،بنو آدم میں سب سے اعلی و افضل ہیں ۔بلکہ نوع انسانی کو رسول اللہ ﷺکے طفیل ہی اخلاق حسنہ حاصل ہوئے۔
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی رضی اللہ عنہ نے یہاں ایک لطیف نکتہ بیان فرمایا :
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنے قول’’کان خلقہ القران‘‘ سے مقصد یہ تھا کہ رسول اللہﷺ کا اخلاق،اخلاق ربانی کا عکس جمیل تھا ۔لیکن بارگاہ خدا وندی کا ادب ملحوظ رکھتے ہوئے یہ نہیں کہا کہ رسول اللہ ﷺاخلاق خدا سے متصف و مزین تھے بلکہ یہ کہا کہ رسول اللہﷺ کااخلاق ،قران کریم کے اوامرونواہی کے عین مطابق تھا۔ ( )
الغرض: جو جس قدر رسول اللہ ﷺ کے قریب رہا وہ اتنا ہی زیادہ متائثر ہوا ۔اور یہ بھی کہ ہر حلم و بردبار سے کوئی نہ کوئی لغزش اور کوئی نہ کوئی زبان کی بے احتیاطی پائی جاتی ہے مگر رسول اللہ ﷺکے کردار کا عالم یہ تھا کہ آپ کے خلاف، دشمنوں کی ایذا رسانی اور بدزبانی و بداخلاقی جس قدر بڑھتی جاتی رسول اللہ ﷺ کے صبرو حلم میں اسی قدر اضافہ ہوتا جاتا۔
آج چودہ سو سال گزرجانے کے بعد بھی دشمنان رسو ل اللہﷺ کی کیا مجال کہ آپ کو بد اخلاق کہ سکیں۔قرآن پاک نے رسول اللہﷺ کے حسن معاملہ کو یوں بیان فرمایا۔
فبما رحمۃ من اللہ لنت لھم ولوکنت فظاً غلیظ القلب لا نفضوا من حولک (النسائ۱۵۹)
ترجمہ: تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل ہو اور اگر تند مزاج ،سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہو جاتے۔ (کنزالایمان )
اس آیت کی تفسیر ابن کثیر میں یوں ہے۔
اللہ تعالی اپنے نبیﷺپر اور مسلمانوں پر احسان جتاتاہے کہ نبی ﷺ کے ماننے والوںاور ان کی نا فرمانی سے بچنے والوںکے لیے اللہ تعالی نے نبیﷺ کے دل کو نرم کردیا ہے۔اگر اسکی رحمت نہ ہوتی تو اتنی نرمی اور آسانی نہ ہوتی۔حضرت امام حسن بصری رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ یہ حضورﷺ کے اخلاق ہیںجن پر آپ کی بعثت ہوی ہے۔مسند امام احمد میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوامامہ کا ہاتھ پکڑکر فرمایا ـ‘اے ابو امامہ بعض مومن وہ ہین جن کے لیے میرا دل تڑپ اٹھتا ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیںمیں رسول اللہﷺ کی صفتوںکو اگلی کتابوں مین بھی پاتا ہوںآپ سخت دل،سخت کلام،بازاروںمیںشورمچانے والے اور برائی کا بدلہ برائی سے لینے والے نہیںبلکہ درگزرکرنے والے اور معافی دینے والے ہیں(تفسیرابن کثیر مترجم سورہ آل عمران آیت ۱۵۹)
اوراس آیت کی تفسیرمیں صدرالافاضل مولانامحمدنعیم الدین مرادآبادی لکھتے ہیں۔
اور آپ کے مزاج میں اس درجہ لطف و کرم اور رافت و رحمت ہوئی کہ روز احد، غضب نہ فرمایا۔
(خزائن العرفان فی تفسیرقرآن)
دشمنوں نے قرآن پاک کے اس اعلان کو سنا مگر کسی کی مجال نہ ہوئی کہ اس کے خلاف بولے۔
رسول اللہﷺ کبھی کسی کے جذبات سے نہ کھیلتے نہ کسی مذہب یا اسکی کتابوں کی توہین ہونے دیتے ۔ چنانچہ فتح خیبر سے بے شمار اموال غنیمت مسلمانوں کو دستیاب ہوے۔ ان میں تورات کے متعدد نسخے بھی تھے ۔یہود کو معلوم ہوا تو بارگاہ رسالت میں حاضر ہوکر عرض کی کہ تورات، انکی مقدس کتاب ہے اس لیے اس کتاب کے جتنے نسخے مسلمانوں کے پاس ہیں وہ ہمیں واپس کر دیے جائیں۔ تو رسول اللہ ﷺ نے بلا تامل مسلمانوں کو حکم دیا :
کہ تورات کے جتنے بھی نسخے انہیں ملے ہیں ادب و احترام کے ساتھ واپس کر دیے جائیں۔
چنانچہ صحابہ کرام نے تمام نسخے لوٹا دیے ۔
علامہ پیر کرم شاہ ازھری اپنی کتاب ــــــــ ’’ضیاء النبی ‘‘میںرقمطراز ہیں:
ڈاکٹر اسرائیل ویلفنس نے اپنی تصنیف ’’تاریخ الیھود فی بلادالعرب‘‘ میں اس واقعہ کا تذکرہ کیا ہے اور رسول اللہﷺ کی عالی ظرفی اور کشادہ دلی پر حیران و ششدرہ ہوکر رہ گیا وہ لکھتا ہے۔
پیغمبراسلامﷺکے اس کریمانہ سلوک سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ دوسرے مذاہب کے مقدس صحیفوں کا حضور ﷺ کے قلب مبارک میں کتنا احترام تھا یہودی آج بھی حضور ﷺکے اس احسان کے معترف ہیں۔
اس کریمانہ طرز عمل کے بر عکس رومیوںنے جب یروشلم پر سنہ۷۰بعد مسیح قبضہ کیا تو ان ہوں نے ان کی مقدس کتابوں کو نذرآتش کر دیا اور اپنے پائوں تلے روند ڈالا تھا۔ اسی طرح نصاری نے جب اسپین میں یہودیوں کے خلاف مہم چلائی تھی تو انہوںنے بھی توریت کے جتنے نسخے پائے تھے انہیںجلا کر خاکستر بنا دیا تھا ،کتنا واضح تفاوت ہے پیغمبر اسلامﷺ کے طرز عمل میں اور دوسرے فاتحین کے طرز عمل میں؟
(ضیاء النبی جلد چہارم صفحہ ۲۴۸ از علامہ پیر کرم شاہ ازہری مطبوعہ فاروقیہ بک ڈپو جامع مسجد دہلی)
یہ رسول اللہﷺکا طریقہ کا راور اخلاق ہے۔ اور اسلام کے ترویج و اشاعت میں اخلاق رسول اللہ ﷺ کاہی کردار ہے کہ آپ نے اپنے اخلاق کی تلوار سے بہت سے سنگ دل حضرات کو بھی اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ گویارسول اللہﷺ کا اخلاق کریما نہ صرف اپنے اہلبیت ،صحابہ، و فادار اور غلاموں کے ساتھ صرف نہ تھا بلکہ کفار بھی آپ کے اخلاق کریما نہ سے خوب مستفیض ہوے ۔آپ کے تواضع، حسن معاشرت،جو دوسخا،عدل وانصاف،توکل علی اللہ،قناعت،مریض کی عیادت،سلام میں پہل،سائل کوعطاکرناکبھی جھڑکنا نہیں،غریب نوازی، تعزیت،لوگوںسے مداورت ومحبت،دشمنوںکے لیے بھی دعائیں کرنا،یہ وہ اوصاف کریمانہ ہیں جن کا اعتراف ہر ایک کو ہے ۔خواہ وہ کافر ہویا مسلم سب کے ساتھ آپ مناسب سلوک واخلاق کا برتاوُکرتے جس کا اعتراف اپنے بیگانے سبھی کرتے رہے۔
تیرے خُلق کو حق نے عظیم کہا تیری خلق کو حق نے جمیل کیا
کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگاشہاتیرے خالق حسن وادا کی قسم
رسول اللہﷺ کے ساتھ ظلم و زیاتی ہوتی اور رسول اللہ ﷺعفوودر گزر فرما دیا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے کا شانئہ اقدس میں ایک کافر، مسلمان ہوا اور اس خیال سے کہ اہل بیت اطہار بھوکے رہیں سب کھاناکھا لیا ۔رسول اللہ ﷺنے حجرہ شریف میں اسے ٹھرایا۔رات میں اسکی طبیعت خراب ہوگئی اور تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ رفع حاجت کرتا رہا۔شرمندگی کی وجہ سے کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے حجرہ شریف میںغلاظت پھیلائی اور تمام بستر خراب کردیا ۔اور صبح ہوتے ہی وہاں سے چل دیا ۔جب رسول اللہ ﷺ مہمان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے حجرہ میں تشریف لائے تو یہ کیفیت ملاحظہ فرمانے پر ،رسول اللہ ﷺ نے خود نجاست کو صاف فرمایا ۔صحابہ کرام کو اس کی اس حرکت پہ سخت غصہ آیا ۔اور وہ شخص عجلت میں اپنی تلوار بھول گیا تھا ۔چونکہ تلوار بہت اچھی تھی اس لیے اسے واپس لوٹنا پڑا۔ آکر اس نے دیکھا کہ خود رسول اللہ ﷺ اپنے ہاتھوں سے گندگی صاف فرما رہے ہیں ۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سزا دینے کا ارادہ فرما یا تو رسول اللہ ﷺ نے منع فرمادیا،کہ یہ میرا مہمان ہے۔ اور اس سے فرمایا :
تم اپنی تلوار بھول گئے تھے ۔جہاں تم نے رکھی تھی وہاں سے اٹھالو۔
رسول اللہ ﷺ کے اس خلق عظیم سے وہ بہت متائثر ہوا اور مشرف بہ اسلام ہو گیا ۔
(سیرت مصطفیٰ ﷺجلد سوم صفحہ نمبر ۶۸ افادات :اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃاللہ علیہ جمع و ترتیب محمد عیسی رضوی قادری)
اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جن سے رسول اللہ ﷺ کے عفوودرگزر اور عالی ظرفی کا اندازہ ہوتا ہے،۔اور خلق عظیم کی مکمل تفسیر ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کو اللہ تبارک وتعالی جل جلالہ نے اشرف ا لخلق بنایالیکن رسول اللہ ﷺ کی عجز و انکساری کی یہ حالت ہوتی کہ:
ایک مرتبہ ایک شخص دربار رسالت میں حاضر ہوا۔ تو جلالت نبوت کی ہیبت سے ایک دم خائف ہو کر لرزہ براندام ہو گیا ۔اور کاپنے لگا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ
تم بالکل نہ ڈرومیں نہ کوئی بادشاہ ہوں اور نہ کوئی جبار حاکم میں تو قریش کی ایک عورت کا بیٹا ہوں جو خشک گوشت کی بوٹیاں کھایا کرتی تھیں۔
اور فتح مکہ کے دن جب فاتحانہ حیثیت سے رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ہجوم میں شہر کے اندر داخل ہونے لگے تو اس وقت آپ پر تواضع اور انکساری کی ایسی تجلی نمودار تھی کہ آپ، اونٹنی کی پیٹھ پر اس طرح سر جھکائے ہوے بیٹھے تھے کہ آپ کا سر مبارک کجاوہ کے اگلے حصہ سے لگا ہوا تھا ۔
فاتح مکہ ﷺنے اس دن ایسا اخلاق و کردارپیش فرمایا،جس کی مثال تاریخ عالم کے کسی بھی باب میں نہیں ہے۔
رسول اللہ ﷺنے کفارو مشرکین سے ایک سوال فرمایا۔اے گروہ قریش تمہارا کیا خیال ہے میں تم سے کیسا سلوک کرنے والا ہوں؟ اس نے ان پر لرزہ طاری کر دیا ۔اور انکے جسم کانپ رہے تھے ،کچھ لوگ بھاگ رہے تھے ،کچھ جان بچانے کی خاطر مکہ کی پہاڑیوں پہ چڑھ گئے تھے۔ عجیب کیفیت تھی ۔لیکن لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا :
آپ کریم نبی ہیں ،کریم النفس بھائی ہیں، اور ہمارے کریم وشفیق بھائی کے فرزند ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو قدرت و اختیار بھی عطا فرمایا ،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ،آج میں تم سے وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کہا تھا ۔
لاتثریب علیکم الیوم یغفراللہ لکم وہوارحم الاحمین اذہبواوانتم الطلقآء
( ضیاألنبی جلد۴صفحہ ۵۴۴’زادالمعاد جلد ۳ صفحہ۲۴۴)
(الشفاء بتعریف حقوق المصطفی الباب الثانی فصل الثانی عشرجلد اول صفحہ ۷۷مطبوعہ مرکزاہلسنت برکات رضا امام احمد رضا روڈ پور بندر گجرات ہند)
آج تم پرکوئی گرفت نہیں ،اللہ تعالی تمہارے سارے گناہوں کو معاف فرمائے اور وہ سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے۔
جائو،چلے جائومیری طرف سے تم آزاد ہو۔
یہ مژدہ ان بد زبان لوگوں کو سنا رہے ہیں جن ہوںنے رسول اللہﷺ کو ساحروکذاب کہا تھا۔
جن سنگد لوں نے شعب ابی طالب میں تین سال تک محصور رکھا تھا۔
جن ہوںنے مہاجرین حبشہ کو واپس مکہ مکرمہ لانے کی کوشش کی تھی تاکہ ان پر ظلم وستم کا سلسلہ جاری رکھ سکیں۔
جن ہوںنے رسول اللہﷺ کو مکہ سے جلا وطن کیا تھا اور قتل کی سازش رچی تھی۔
جن سفاکوں نے حضرت حمزہ کو شہید کیا تھا ۔ان کے کان ،ناک کاٹے اور سینہ کو چاک کرکے جسم مبارک کو بدنما بنانے کی سعی کی تھی۔
یہ مژدہ ان لوگوں کو سنایا کہ، جب آپ عمرہ کے لیے تشریف لائے تومکہ میں داخل ہونے سے روک کر دیا اپنی من مانی شرائط پر صلح کی۔
رسول اللہﷺ نے ایسے ناہنجار لوگوں کو اس وقت یہ مژدہ سنایا جب آپ کو مکمل فتح حاصل ہو چکی تھی اور مکہ کی
فضائوں میں اسلام کا پرچم لہرارہا تھا۔
عفو و درگزر کا جو بے مثال مظاہرہ رسول اللہﷺ نے فرمایا انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے ۔کسی بادشاہ نے ،کسی سیاسی راہنما نے ،کسی حاکم نے اور کسی فاتح نے اس کریمانہ اخلاق کا کبھی مظاہرہ نہیں کیا ۔
(ضیاالنبی ﷺ جلد چہارم صفحہ ۲۴۷)۔
اس مژدہ جاں فزا کو سن کر ان پر شادی مرگ کی کیفیت طاری ہو گئی۔ گویا قبروں سے زندہ کر کے اٹھائے گئے ہیں ۔اس کرم و عطا کو دیکھ کر لوگ جوق در جوق آگے بڑھ کر رسول اللہ ﷺ کے دست مبارک پہ تائب ہو کر اسلام قبول کر نے لگے۔
کہ کوئی فاتح اعظم اپنے خون کے پیاسے دشمنوں کے ساتھ بھی ایسا سلوک کر تا ہے؟
یہ ہے اللہ تبارک وتعالی کے فرمان ،خلق عظیم کی اصل صورت ہے جسے قرآن پاک نے آیت مذکورہ میںبیان فرمایا ۔
جو اخلاق ،رسول اللہ ﷺ کے ہیں وہ ایسے افضل و اعلیٰ ہیںاور قوت بیان و تحریر سے باہر ہیں ۔بس اسے اپنے زندگیوں میں اتارنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا و آخرت سنور جائے اور لوگوں تک اسلام کی صحیح تصویر پہونچے۔
رسول اللہﷺ اور آپ کے خلفا جب لشکروں کو کافروں کے خلاف جنگ کے لیے روانہ کرتے تو نصیحت فرماتے کہ کافروں کے بچوں کو نہ مارنا ، ان کی خواتین کو کچھ نہ کہنا ، ان کے بوڑھوں کو کچھ نہ کہنا، ان کے پھل دار درختوں کو نہ کاٹنا ۔
رسول اللہﷺنے عام حالت کے ساتھ ساتھ جنگ مین بھی اسلامی اخلاق کا اس طرح مظاہرہ کیا اور اسکی پابندی کا حکم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کودیا۔
رسول اللہﷺکے اخلاق حسنہ کے جو نمونے ملتے ہیں ان کے مطابق ہمیں بھی اپنی زندگی گزارنی چاہیے اور اخلاق نبویﷺکا پیغام دنیا بھر میں عام کرنا چاہیے ۔تاکہ سلیم الفطرت انسان ،اخلاق نبویﷺکے واقعات سے متائژہوکر ان سے سبق حاصل کرے اور انمیں سے خوش نصیب انسان ،اسلام کے سایہ میںآکر اپنی دنیا اور آخرت کو سنوارسکے۔
اخلاق نبویﷺکا یہی پیغام کل بھی تھا ،آج بھی ہے اور رہتی دنیا تک اسکی گونج سنائی دیتی رہیگی۔
(محمد طاہر رضا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.