You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
یہ بھی ہر امتی پر رسول خد ا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہرحکم کی اطاعت کرے اورآپ جس بات کاحکم دے دیں بال کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کر دینا ہر امتی پر فرض عین ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے کہ
(1)اَطِیۡعُوا اللہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ
حکم مانو اللہ کااور حکم مانو رسول کا ۔(نساء)
(2) مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ
جس نے رسول کاحکم مانابے شک اس نے اﷲ کا حکم مانا۔(نساء)
(۳)وَمَنۡ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیۡقِیۡنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾
اورجواﷲ اوراس کے رسول کاحکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اﷲ نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔(نساء)
قرآن مجید کی یہ مقدس آیات اعلان کر رہی ہیں کہ اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا اور اطاعت رسول کرنے والوں ہی کے لئے ایسے ایسے بلند درجات ہیں کہ وہ حضرات انبیاء و صدیقین اور شہداء و صالحین کے ساتھ رہیں گے۔
ہر امتی کے لئے اطاعت رسول کی کیا شان ہونی چاہیے اس کا جلوہ دیکھنا ہو تو اس روایت کو بغور پڑھئیے۔
سونے کی انگوٹھی پھینک دی
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے ہے۔آپ نے اس کے ہاتھ سے انگوٹھی نکال کر پھینک دی اور فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی چاہتا ہے کہ آگ کے انگارہ کو اپنے ہاتھ میں ڈالے؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد لوگوں نے اس شخص سے کہا کہ تو اپنی انگوٹھی کو اٹھا لے اور( اس کو بیچ کر) اس سے نفع اٹھا۔ تو اس نے جواب دیا کہ خدا کی قسم!جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس انگوٹھی کو پھینک دیا تو اب میں اس انگوٹھی کو کبھی بھی نہیں اٹھا سکتا۔( اور وہ اس کو چھوڑ کر چلا گیا) (2)(مشکوٰۃ جلد۲ ص۳۷۸ باب الخاتم)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.