You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
یادرہے کہ خبر یاتو کثیر طرق یعنی اسانید سے مروی ہوگی یا قلیل طرق سے۔ اس کثرت و قلت طرق کے اعتبار سے خبر کی چار اقسام ہیں:
۱۔خبرِ متواتر
۲۔خبرِ مشہور
۳۔خبرِ عزیز
۴۔خبرِ غریب
(۱)۔۔۔۔۔۔خبرِ متواتِر:
وہ حدیث جس کو سند کے ہر طبقہ میں راویوں کی اتنی بڑی تعداد روایت کرے جس کا جھوٹ پر متفق ہونا عقلا محال ہو اور سند کی انتہاء امرِ حسی پر ہو۔
خبرِ متواتر کی شرائط
حدیث کے درجہ تواتر تک پہنچنے کیلئے چار شرائط ہیں:
(۱)حدیث کے راوی کثیر ہوں۔
(۲)یہ کثرت سند کے تمام طبقات میں پائی جائے یعنی ابتداء سے انتہاء تک راوی کثیر ہوں۔
(۳)یہ کثرت اس درجہ کی ہوکہ عادۃ یا اتفاقا ان کا جھوٹ پر متفق ہونا محال ہو۔
(۴)سند کی انتہاء امرِ حسی پر ہویعنی سند کا آخر سَمِعْنَا یا رَأَیْنَا، وغیرہ الفاظ ہوں اور اگر سند کی انتہاء امر عقلی پر ہو مثلا عالم کا حادث ہونا تو یہ خبر متواتر نہیں۔
مثال:
مَنْ کَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّداً فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہٗ مِنَ النَّارِ
ترجمہ :جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھا اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔اس حدیث پاک کو ستر سے زائد صحابہ کرام علیہم الرضوان نے روایت کیا۔
حکم:
خبرِ متواتر پر عمل کرنا واجب ہے اور یہ علم ضروری (علم بدیہی)کا فائدہ دیتی ہے اس کے راویوں کے حالات پربحث کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
خبر متواتر کی اقسام
خبرمتواتر کی دو قسمیں ہیں:
(۱)۔۔۔۔۔۔متواترِ لفظی
(۲)۔۔۔۔۔۔متواترِ معنوی
(۱)۔۔۔۔۔۔متواترِ لفظی:
وہ خبر جس کے الفاظ اور معانی دونوں متواتر ہوں۔
مثال:
اس کی مثال اوپر گزرچکی ہے۔(مَنْ کَذَبَ۔۔۔۔الخ)
(۲)۔۔۔۔۔۔متواترِ معنوی:
وہ خبر جس کے صرف معانی متواتر ہوں الفاظ متواتر نہ ہوں۔
مثال:
متواتر معنوی کی مثال وہ احادیث ہیں جن میں دعا کے وقت ہاتھ اٹھانے کا ذکر ہے یہ احادیث ۱۰۰کے لگ بھگ ہیں جن میں سے ہر حدیث میں یہ الفاظ موجود ہیں: اَنَّہ، رَفَعَ یَدَیْہٖ فِي الدُّعَاءِ یعنی آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے دعا میں ہاتھ بلند فرمائے۔اب اگرچہ یہ عمل مختلف مواقع اور مختلف اوقات میں ہوااور ان میں سے ہر واقعہ متواتر نہیں لیکن ان میں تمام احادیث میں یہ بات قدر مشترک ہے کہ سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے دعا میں ہاتھ بلند فرمائے۔
==========================
(۲)۔۔۔۔۔۔خبرِ مشہور (1):
وہ حدیث جس کے راوی ہر طبقے میں کم ازکم تین ہوں لیکن حدِ تواتر سے کم ہوں۔
مثال:
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ۔ (مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ)
ترجمہ: کامل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دیگر مسلمان سلامت رہیں۔
حکم:
اس سے علم طمانینت حاصل ہوتاہے اور اس سے ثابت ہونے والا حکم واجب العمل ہوتاہے۔
----------------
1۔۔۔۔۔۔کبھی اس حدیث کو بھی مشہور کہہ دیا جاتاہے جو لوگوں کی زبان پر مشہور ہو خواہ اس کی ایک سند ہو یا ایک بھی نہ ہو اور یہ مشہورِ لغوی ہے نہ کہ اصطلاحی جیسے:'' اَلْعَجَلَۃُ مِنَ الشَّیْطَانِ''، جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے۔
----------------
=============================
(۳)۔۔۔۔۔۔خبرِعزیز:
وہ حدیث جس کی سند کے کسی بھی طبقے میں کم ازکم دو راوی رہ جائیں، یعنی سند کے کسی بھی طبقے میں دو راوی آگئے تو حدیث عزیز ہوگی، اگرچہ دیگر طبقات میں دو سے زائد راوی ہوں۔
مثال:
لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی أَکُوْنَ أَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَّالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ أَجْمَعِیْنَ
(البخاری ومسلم)
ترجمہ:
تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔
اس حدیث مبارک کو صحابہ کرام میں سے حضرت ابوہریرہ اور حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہما نے روایت کیا پھر حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے حضرت قتادہ اور عبد العزیز نے پھر حضرت قتادہ سے شعبہ اور سعید نے پھر عبد العزیز سے اسماعیل بن علیہ اور عبد الوارث نے۔
حکم:
خبرِ عزیز ظن کا فائدہ دیتی ہے لیکن قرائن وشواہد سے قوت پاکریہ بھی واجب العمل حکم کا فائدہ دیتی ہے۔
============================
(۴)۔۔۔۔۔۔خبرِ غریب:
وہ حدیث جس کی سند کے کسی بھی طبقہ میں ایک راوی رہ جائے ،اب یہ عام ہے چاہے یہ تفرد ایک طبقے میں پایا جائے یا ایک سے زائد یا جمیع طبقات سند میں۔
مثال:
اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ (اعمال کادارومدار نیتوں پر ہے)
سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے اس حدیث کو روایت کرنے میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ متفرد (تنہاہیں) ۔کبھی یہ تفرد سند کے تمام طبقات میں ہوتاہے۔
حکم:
خبر غریب ظن کا فائدہ دیتی ہے تاہم اس کی تائید میں قرائن وشواہد کے ملنے سے اس پربھی عمل ضروری ہوجاتاہے۔
--------------------------
خلاصہ:
خبر متواتر کے علاوہ حدیث کی آخری تین اقسام(مشہور، عزیزاور غریب) میں سے ہر ایک کو خبرِ واحد بھی کہتے ہیں۔لہذا شروع میں حدیث کی یوں تقسیم کی جاسکتی ہے۔
حدیث کی دو اقسام ہیں:
(۱)۔۔۔۔۔۔متواتر
(۲)۔۔۔۔۔۔اخبار آحاد۔
پھر اخبار آحاد کی تین قسمیں ہیں:
(۱)۔۔۔۔۔۔مشہور (۲)۔۔۔۔۔۔عزیز (۳)۔۔۔۔۔۔غریب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
-----------------------------------------
نصاب اصول حدیث
مع
افادات رضویۃ
پیشکش
مجلس المدینۃ العلمیۃ (دعوتِ اسلامی )
(شعبہ درسی کتب)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.