You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
کیا نقش نعلین پاک متبرک ہے… ؟؟
اَلسّلامُ عَلیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَکَاتُہ
الحمدﷲ وحدہ والصلوۃ علی من الانبی بعدہ وعلی من اتبع من الصحابہ
اما بعد
عشق کا مسلمہ ضابطہ ہے کہ جس سے ہوجائے اس سے نسبت رکھنی والی ہر شے محبوب ہوتی ہے خواہ عشق حقیقی ہو یا مجازی۔ یہی وجہ ہے کہ سرور دوعالمﷺ سے عشق و محبت کا دم بھرنے والے آپﷺ سے نسبت رکھنے والے شہر مقدس، آپ کے رفقاء یعنی صحابہ کرام، آپ کی آل پاک اور آپ کی سنن سے محبت و وارفتگی رکھتے ہیں۔ آپ کے مبارک قدموں سے لگنے والے پاپوش یعنی نعلین مبارک ان کے سروں کا تاج ہے۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے
جو سر پر رکھنے کو مل جائے نعلین پاک حضورﷺ
تو پھر کہیں گے کہ تاجدار ہم بھی ہے
مولانا حسن رضا خان علیہ الرحمہ
اور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ عرض گزار ہیں
ذرے جھڑ کے تیری پیزاروں کے
تاج سر بنتے ہیں سیاروں کے
(حدائق بخشش)
جس طرح عشاق کو اپنے آقاﷺ کے اظہار عشق کا بس موقع ہی ملنا چاہئے بعینہ اسی طرح مخالفین بھی ان پروانہ شمع رسالت پر ان کے عشق کے باعث اعتراض کرنے کا موقع ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ ماہ ربیع الاول میں چونکہ مولود نبوت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے اور مسلمان اپنے نبیﷺ کے عشق کی خاطر نعلین پاک کا نعش اپنے سروں اور دلوں پر آویزاں کرتے ہیں۔ یہ منکرین کو رنج میں ڈالتا ہے ایسے ہی مواقع پر قرآن پاک کا کیا خوب ارشاد مسلمانوں سے ہے چنانچہ ارشاد خداوندی عزوجل ہے۔
ان تمسسکم حسنۃ تسؤہم
ترجمہ: اگر تم (مسلمانوں) کو کوئی چھوٹی سی بھلائی بھی پہنچے تو انہیں (منافقین) کو بری لگتی ہے
(پارہ 4 آل عمران آیت 120)
معلوم چلا کہ مسلمانوں کو خوشی ملنے پر غم کرنا منافقین کا طریقہ ہے۔ یہ تو نقش و عکس کی بات ہے ہم صحابہ کرام علیہم الرضوان کا عمل ہدیہ ناظرین کرتے ہیں کہ انہیں اس سے والہانہ کس قدر محبت و الفت تھی۔ آخر میںاس کی برکات و فوائد اور معاندین کے بے تکے اعتراضات کے جوابات بھی قلمبند کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ قبول فرمائے۔
امام احمد المقری التلمسانی علیہ الرحمہ اپنی تصنیف فتح المتعال فی مدح النعال میں تحریر فرماتے ہیں۔ محمد بن یحیی حضرت قاسم سے بیان کرتے ہیں۔
جب نبی کریمﷺ بیٹھتے حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کھڑے ہوجاتے اور اپنے نعلین مبارک پائوں سے اتار لیتے اور اپنی آستینوں میں چھپالیتے اور جب آپﷺ کھڑے ہوجاتے تو نعلین پہناتے اور آپکے ساتھ عصا پکڑ کر چلتے۔ یہاں تک کہ آپ حجرہ مبارک میں داخل ہوجاتے۔
(فتح المتعال فی مدح النعال مترجم ص171 عالمی دعوت اسلامیہ)
یہی وجہ ہے کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کو صاحب النعلین کا لقب حاصل ہے۔ امام احمد مقری علیہ الرحمہ اسی صفحہ پر حضرت انس رضی اﷲ عنہ کے متعلق رقم طراز ہیں کہ ایک جماعت جن میں ابن سعد بھی ہیں، نے روایت کیا کہ حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ نبی اکرمﷺ کے کفش بردار اور دیگر اشیائے سنبھالنے اور اٹھانے والے تھے
(صفحہ نمبر 171)
ضیاء النبی میں پیر کرم شاہ الازہری جلد 5 ص 583 پر لکھتے ہیں کہ حضرت انس رضی اﷲ عنہ کو یہ شرف حاصل تھا کہ حضورﷺ کے پاپوش بردار تھے۔
مسند احمد ابو یعلی، ابن حبان اور مستدرک میں حضرت ابو سعید حذری رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسالت مآبﷺ نے فرمایا۔ تم میں سے کون ہے جو معانی قرآن پر اس طرح جہاد کرے گا جس طرح میں نے اس کے نزول پر کیا ہے؟ کسی نے عرض کیا کہ یارسول اﷲﷺ کیا وہ ابوبکر ہیں؟ فرمایا نہیں۔ عرض کی کیا وہ عمر ہیں؟ فرمایا نہیں، اس کے بعد فرمایا یہ کام خاصف النعل ہی کریں گے (فتح المتعال فی مدح النعال مترجم ص 3)
خاصف النعل یعنی جوتے گانٹھنے والے چونکہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ حضور اقدس علیہ السلام کے نعلین شریف گانٹھا کرتے تھے، اس لئے یہ لقب ان کے حصہ میں آیا۔
یوں تو خدمت اقدس میں عموماً صحابہ کرام حاضر رہا کرتے تھے مگر حضرت عبداﷲ ابن مسعود، حضرت انس اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اﷲ عنہم خاص نعلین شریفین کے خدمت گزار تھے۔
یہ تو نعلین پاک کی اصل کے متعلق چند کلمات حوالہ قرطاس کئے۔ اب چند سطور نعلین پاک کے نقش و عکس وشبیہ کے متعلق بھی تحریر کی جاتی ہیں۔
بڑے بڑے فضلاء نے نعلین شریفین کے نقش کی برکتوں کے بارے میں مستقل تالیفات کی ہیں۔ ابو جعفر احمد بن عبدالمجید جوکہ اپنے زمانہ کے بڑے نیک بزرگ گزرے ہیں۔ فرماتے ہیں۔ میں نے ایک طالب علم کو نعلین شریفین کا نقشہ دیا۔ ایک دن وہ آیا اس نے بتایا کہ میں نے کل رات اس نقش کی برکت کو خود ملاحظہ کیا۔ میری بیوی کو شدید درد ہوا۔ قریب تھا کہ وہ جان دے دیتی۔ میں نے اسی نعل شریف کا نقش اسی جگہ رکھا جہاں درد ہورہا تھا۔ میں نے عرض کی اللھم ارنی برکۃ صاحب ہذا النعل یااﷲ مجھے اس نعل شریف والے کی برکتیں عطا فرما تو اسی وقت وہ تندرست ہوگئی۔
امام ابو اسحاق سلمی الاندالسی جو ابن الحاج کے نام سے معروف ہیں وہ فرماتے ہیں کہ ابو القاسم بن محمد نے فرمایا کہ اس کی برکت تجربات سے پایہ ثبوت کوپہنچی ہوئی ہے جو شخص اس سے تبرک حاصل کرنے کے لئے اسے پکڑتا ہے تو باغیوں کی بغاوت اور دشمنوں کے غلبہ پانے سے اس کو امان مل جاتی ہے۔ ہر سرکش شیطان کے شر سے اور ہر چشم بد کے اثر سے وہ محفوظ ہوجاتا ہے اور وہ عورت جسے زچگی کی تکلیف ہو اگر وہ اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑلے تو اس کی یہ تکلیف دور ہوجاتی ہے اور بچہ بفضلہ تعالیٰ آسانی سے ہوجاتا ہے۔
امام ابوبکر قرطبی علیہ الرحمہ نے اس کی تمثال کی برکات کے بارے میں پورا قصیدہ نقل کیا ہے۔ اس کے تین اشعار یہاں نقل کئے جاتے ہیں
ففعھا علی اعلیٰ المفارق انہا
حقیقتہا تاج وصورتہا نعل
باخمص خیر الخلق حازت مزیۃ
علی التاج حتی باہت المفرق الرجل
شفاء لذی سقم رجاء لبآئس
امان لذی خوف کذا یحسب الفضل
ترجمہ: اس کو اپنے سر کی چوٹیوں پر رکھو۔ حقیقت میں یہ تاج سلطانی ہے۔ اگرچہ اس کی صورت جوتے کی سی ہے، یہ وہ نعل شریف ہے جسے خیر الخلق کے پائوں کے تلوے کے ساتھ لگنے سے تاج پر بھی فضیلت حاصل ہوگئی۔ یہاں تک کہ وہ پائوں سروں پر فضیلت لے گئے۔ یہ بیماری کے لئے شفا کا پیغام ہے۔ مایوسی کے لئے امید کی کرن ہے۔ خوفزدہ کے لئے امان کا پیغام ہے اور اسی طرح اس نعلین شریفین کے نقش کے فضائل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
(ضیاء النبی جلد 5 ص 603 تا 604، ضیاء القرآن پبلشرز لاہور)
محقق علی الاطلاق شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمتہ القوی مدارج النبوت میں فرماتے ہیں کہ مواہب میں اس کا تجربہ لکھا ہے کہ مقام درد پر نعلین شریفین کا نقشہ رکھنے سے درد سے نجات ملتی ہے اور پاس رکھنے سے راہ میں لوٹ مار سے محافظت ہوجاتی ہے اور شیطان کے مکروفریب سے امان میں رہتا ہے اور حاسد کے شر وفساد سے محفوظ رہتا ہے۔ مسافت طے کرنے میں آسانی رہتی ہے اس کی تعریف و مدح اور اس کے فضائل میں قصیدے لکھے گئے ہیں (مدارج النبوت،مترجم ج 1ص 578، ضیاء القرآن پبلشرز لاہور)
امام احمد مقری تلمسانی اس کے برکات و فوائد کے متعلق لکھتے ہیں۔ یہ جس لشکر میں ہو، اس کو کبھی شکست نہ ہو جس قافلے میں ہو وہ قافلہ لوٹ مار سے محفوظ رہے جس گھر میں ہو وہ گھر جلنے سے محفوظ رہے گا جس سامان میں ہو وہ چوری ہونے سے محفوظ رہے گا۔ جس کشتی میں ہو وہ ڈوبنے سے محفوظ رہے گی جو کوئی صاحب نقش نعل سے کسی حاجت میں توسط کرے وہ حاجت پوری ہو اور ہر مشکل آسان ہو۔
(فتح المتعال فی مدح النعال مترجم ص 247)
اس کی چند برکات ہم نے اکابر کی کتابوں سے نقل کیں، اس کے علاوہ بھی اس کی برکات بے شمار و بے حد ہیں جس نے مزید تفصیل دیکھنی ہو وہ علامہ مقری تلمسانی کی فتح المتعال فی مدح النعال اور علامہ عبدالحی لکھنوی علیہ الرحمہ کے رسالے غایۃ المقال فیما یتعلق بالنعال میں دیکھے۔ یہ رسالہ 158 صفحات پر مشتمل ہے۔
منکرین اس کی روک تھام میں خوب زور لگاتے ہیں۔ ان کی طرف سے ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ تم تو تصاویر سے منع کرتے ہو اور دوسری طرف نعلین کی تصاویر بھی بناتے ہو، اس کا جواب یہ ہے کہ جس تصویر کے بنانے کو حرام کیا گیا ہے وہ جاندار کی تصاویر ہیں جبکہ نعلین میں جان کہاں؟لہذا اس کا نقش بالکل جائز ہے۔ یہ اعتراض و جواب فتح المتعال سے نقل کیا گیا ہے جس سے ظاہر ہوا کہ علامہ احمد مقری تلمسانی علیہ الرحمہ کے دور میں بھی اس کے منکرین موجود تھے حالانکہ علامہ کی ولادت 992ھ اور وفات 1041ھ ہے۔
دوسرا اعتراض ان کی طرف سے یہ ہے کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ یہ اسی نعلین کا نقش ہے جو نبی کریمﷺ استعمال فرمایا کرتے تھے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ائمہ مشرق کے پاس حضور اکرمﷺ کے نعلین شریفین موجود تھے کیونکہ یہ بنی ابن الحدید کے پاس اور پھر شام کے جامعہ اشرفیہ میں موجود تھے۔ ابن رشید وغیرہ نے جب مشرق کا سفر کیا تو اس نے اس کی مثال بنوالی۔ اس کے علاوہ صدیوں سے ائمہ اپنی کتابوں میں اس کا نقش نقل کرتے آئے ہیں۔ جن میں علامہ ابن عساکر، ابن الحاج، ابن المرجل، امام عراقی، حافظ زین الدین، سراج الدین بلقینی، امام سخاوی، اور علامہ سیوطی علیہ الرحمہ شامل ہیں
(فتح المتعال ص 192 اور 195)
تیسرا اعتراض ان کی طرف سے یہ ہے کہ جب تم بھی تسلیم کرتے ہو کہ یہ اس اصل کا عکس و شبیہ بھی ہے تو اس قدر تعظیم کیوں کرتے ہو، تعظیم تو اصل کی ہوتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن پاک جو پڑھا ہوا نازل کیا گیا وہ تو کلام نفسی ہے اور جو کتابت کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے یہ اس کا عکس و نقل ہے پھر اس کی تعظیم بھی نہ کی جائے حالانکہ اگر بطور تحقیر اس کو گندی جگہ پھینک دیا جائے تو آدمی کافر ہوجاتا ہے۔
اس کے متعلق ان کا چوتھا اعتراض یہ ہے کہ نعل پاک لگے ہونے کی صورت میں آدمی ایسی گلیوں سے بھی گزرتا ہے جہاں گٹر کا گندا پانی کھڑا ہوتا ہے اور گندے پانی کی نالیاں بھی ہوتی ہیں اور بیت الخلاء میں جانا پڑتا ہے، اس سے اس کی بے ادبی ہوتی ہے لہذا یہ نہیں لگانا چاہئے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تو جاہلانہ اعتراض ہے کیونکہ ادب کا دارومدار دراصل عرف پر ہے جسے لوگوں کا جم غفیر جو سلیم الطبع اور ذی فہم ہوں، ادب کہے وہ ادب ہے اور جسے بے ادبی کہے وہ بے ادبی ہے۔ نعل پاک کے نقش لگے ہونے کی صورت میں گلیوں سے گزرنے کو جبکہ اس میں نالیاں بھی ہوں کوئی بے ادبی نہیں کہے گا۔ ہاں جہاں تک بیت الخلاء کا تعلق ہے تو ضرور اسے اتار کر جانا چاہئے یا اتار کر جیب میں ڈال لیں۔ ورنہ تو مساجد کے برابر گلیوں میں گٹروں اور نالیوں کا گندا پانی آہی جاتا ہے اور بلکہ عین مسجد سے متصل فنائے مسجد میں باتھ روم بنائے جاتے ہیں تو کیا مساجد کی تعمیرات کا سلسلہ روک دیا جائے لوگ قرآن پاک گھر کے لئے خرید کر بھی تو انہی گلیوں سے لاتے ہیں جن کے متعلق تمہارا گندے ہونے کا قول ہے۔
تاج والے بھیک مانگیں آپ کی نعلین کی
تاجور کھاتے ہیں صدقہ آپ کی نعلین کاﷺ
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.