You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
قوم مسلم کے حالیہ احوال بیان کرتی اور سوچنے پر مجبورکرنے والی تحریر
*****
کیا قوم مسلم معمولات کی بدترین سطح پر آچکی ہے؟؟؟
دکھاوااورریاکاری کامرض ہمارے سماج میں جڑپکڑچکاہے
چندایسے سُلگتے سوالات جن کے حل کے لیے نصف صدی چاہئے
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
=============================
قوم مسلم کے احوال پر ایک طائرانہ نظردوڑائے تو یوں معلوم ہوتاہے کہ
یہ قوم خود نہیں چاہتی ہے دنیاوآخرت میں کامیاب ہونا ۔کیوں کہ یوں لگتاہے کہ پوری دنیامیں ہر محاذ پر شکست وناکامی کے احساس کے باوجود ہم خوش وخرم ہے۔عبادتوں میں سُستی تو جگ ظاہر اور معاملات کی خرابی اپنے شباب پر۔
شاید اس قوم کو اب اس بات کی بھی فکر نہیں ستاتی کہ ہماری وجہ سے اللہ کا پسندیدہ مذہب بدنام ہورہاہے۔اکناف عالم کے حساس لوگ قرآن واحادیث کا مطالعہ کرکے اسلام سے متاثرتوہوتے ہیں مگر مسلمانوں کے کردار،افعال اور معمولات کو دیکھ کر بد ظن ہوجاتے ہیں۔اس قوم کا اب حال یہ ہوچکا ہے کہ بڑے سے بڑے مقرر کو مدعو کر لیجئے،ہزاروں کا مجمع جمع کر لیجئے،کچھ گھنٹے کے لیے حرارت ایمانی کا مظاہرہ ہوتاہے،نعرۂ تکبیر کی پرسوز صدائیں بلند ہوتی ہیں،اس کے بعد وہی سب کیاجاتاہے جو نفس مطالبہ کرتاہے۔اسی طرح بہترین اور مضبوط قلم کے دھنی سے اصلاحی مضامین وکتابیں لکھوالیجئے،پڑھتے وقت سبحان اللہ اور دادوتحسین کے کلمات تو زبان سے ادا ہوتے ہے مگروہی کیا جاتا ہے جو شریر نفس کہتاہے۔
مسلمانوں کے معاملات اس قدر بگڑ چکے ہے کہ لکھتے ہوئے بھی شرمندگی کا احساس ہورہاہے۔مگر لکھناضروری ہے کیوں کہ ان اعمال کو گناہ تو دور مسلمان اب برائی بھی محسوس نہیں کررہے ہیں ۔
مثلاً:ایک بے گھر مسلمان کو ایک رحمدل شخص نے اپنا مکان کرائے سے دیا،دس بیس سال گزرنے بعد مالک مکان کو اپنے بچوں کی شادی بیاہ کے لیے گھر کی ضرورت پیش آئی،ایک ماہ پہلے ہی اطلاع کردی گئی کہ آپ کسی اور جگہ کا بندوبست کرلیجئے،مگر اب کرایہ دار ہدیۂ تشکر پیش کرنے کی بجائے لگے صاحب پچاس ہزار کا مطالبہ کرنے۔
قارئین کرام بھی خود اس بات کے گواہ ہوں گے کہ بہت سے پرانے کرایہ دار مکان خالی کرتے وقت کس قدر بھاری بھرکم رقم کامطالبہ کرتے ہے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ بے سروسامانی کے عالم میں جس شخص نے سر ڈھانپنے کے لیے چھت فراہم کیااس کا شکریہ اداکیاجاتا۔مگر افسوس صد افسوس!شکریہ کا نذرانہ اداکرنے کی بجائے پیسوں کی خواہش۔کیااسلام اس بات کی اجازت دیتاہے ؟کیاہمارے اس عمل کی وجہ سے کل کوئی انسان کسی مسلمان کی مدد کرے گا؟
اسی طرح اکثر لوگوں کا یہ طریقہ بن چکاہے کہ اپنی ڈیوٹی سے فراغت کے بعد ان کے پاس صرف دو کام ہوتے ہیں۔اوّل بال بچوں کے ساتھ ٹیلی ویزن پر فلمیں ڈرامے اور کامیڈی سیریلس دیکھنا اور دوّم دوستوں کے ساتھ ہوٹلوں پر گپیں ہانکنا۔
جن سے اپنے گھر کے مسائل نہیں سلجھتے وہ وہائٹ ہائوس کی گتھیوں کو سلجھانے کی احمقانہ کوشش کرتے ہیں۔
جو وقت ذکر وعبادت میں گزارنا چاہئے،جو وقت گھریلوں ذمہ داریوں اور مسائل کے حل پردیناچاہئے،جو وقت بچوں کی تربیت پردیناچاہئے اور جو وقت بچوں کے ہوم ورک اور اسکول ومدرسے کے سبق یادکرانے پر دیناچاہئے ،وہ تمام وقت والدین ٹیلی ویزن اور گپیں ہانکنے کی نذر کردیتے ہیں۔ایسے معمولات میں کیابچوں میں اعلیٰ اخلاق کی توقع کی جاسکتی ہے؟
اسی طرح آپ دیکھ لیجئے بہت سے ایسے گھرانے آپ کو نظرآئینگے جہاں ایک چھوٹی سی کھولی میں بوڑھے ماں باپ کسمپرسی اور قیدخانہ کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔صرف دووقت کی روٹی ان کے سامنے رکھ دی جاتی ہے۔تہوراوں پر خود کیلئے اور بیوی بچوں کے لیے اعلیٰ وعمدہ کپڑوں کی خریداری اور والدین کے لیے سستے لباس کی تلاش۔اے مسلمانو!کیاصرف دو وقت کاکھاناکھلا دیناہی ماں باپ کا حق ہے ؟
کیااسلام نے والدین کے بس اتنے ہی حقوق وفرائض بیان فرمائے ہے؟گھریلومسائل کس گھر میں نہیں ہوتے؟
لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ بوڑھے والدین کو ایک کمرے میں قید کردیاجائے۔اسلام تو یہ کہتاہے کہ والدین پر اسی طرح شفقت ،محبت اور مروت سے پیش آئوجیسارحم انہوں نے ہم پر بچپن میں کیاتھا۔
افسوس !قوم سے فرامین خداورسول کے احکامات پر عمل کرنے کااحساس بھی جاتارہا ۔(الاماشاء اللہ )جو بچہ اپنے ماں باپ کا نہیں ہوسکتااس سے پڑوسیوں اوراہل محلہ کے حقوق کی ادائیگی کی امید کیسے کی جاسکتی ہے؟
بچوںکے اعلیٰ تعلیم میں داخلے کے وقت بعض لوگ کہتے ہے کہ بڑی بڑی ڈگریاں دلانا غریبوں کے بس کی بات نہیں،میں کہنا چاہتاہوں یہ فکر اس وقت کیوں پیداہورہی ہے جب بچہ کالج اوریونی ورسٹی کی دہلیز پر قدم رکھنے والاہے۔
یہ فکر غریب باپ کے دل میں اس وقت کیوں نہیں پیداہوئی جب وہ ہزاروں روپیہ سنیماگھروں میں خرچ کررہاتھا،یہ فکر اس وقت کہاں گئی تھی جب غریب باپ ہزاروں روپئے چائے کی چسکی،سگریٹ کے دھنویں،پان کی پیک اور گٹکے کے تھوک میں اڑارہاتھا،چھوٹے چھوٹے رسومات وتہوراوں کابہانہ لے کر مختلف مقامات کی سیر سپاٹے میں ہزاروں روپئے اڑاتے وقت یہ فکر کیوں نہیں پیداہوئی؟اگر پہلے سے منصوبہ بنایاجاتا،سرمایہ کاری کی جاتی تو نہ صرف بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرتابلکہ تعلیم کے بعد بچے کو اپنے پیروں پر کھڑاہونے کے لیے بھی بھرپور سرمایہ ہوتا۔اپنی فضول خرچیوں پر پابندی لگائے تو تعلیمی محاذ پرکامیاب ہونایقیناممکن ہے۔اپنے منصوبہ بندی کے فقدان کو یہ کہہ کر نظر انداز کردیناکہ اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرناغریب کی بساط سے باہر ہے کہاں کی عقل مندی ہے ؟
آج ایک مزدور بھی بڑے سے بڑااینڈرائیڈہینڈسیٹ رکھ رہاہے۔مہینے کا پانچ سو روپئے کا نیٹ ریچارج کررہاہے۔ایسانہیں ہے کہ ہم مزدوروں کے اعلیٰ وعمدہ موبائل فون رکھنے کے خلاف ہے، بلکہ لکھنے کامقصد یہ ہے کہ جو کام ایک معمولی سے فون سے ہوسکتاہے تو کیاضرورت ہے فضول خرچی کرنے کی۔جو کام سائیکل سے ہوسکتاہے اس کے لیے موٹر سائیکل کی کیاضرورت ؟دراصل مسلمان دن دبہ دن خواہشات میں مبتلا ہوتے جارہے ہیں اوراپنی خواہشات کو ضرورت کا نام دیاجارہاہے۔،دکھاوااورریاکاری کامرض ہمارے سماج میں جڑپکڑچکاہے۔ذراتنہائی میں بیٹھ کرسوچئے کہ کیااسلام اس طرح کی فضول خرچی کی اجازت دیتا ہے۔اسلام ہمارے اسٹینڈرنظرآنے،ہائی فائی سسٹم اپنانے،شوق وخواہشات کی تکمیل کرنے سے نہیں پھیلاہے،اسلام پھیلاہے مسلمانوں کے اخلاق،کردار اور معمولات کو دیکھ کر۔ خدارا خدارا!اپنے اعمال ومعمولات کو سدھاریئے،مت کیجئے اپنی ذات سے اسلام کو بدنام۔اگر ہم اسلام کو فائدہ نہیں پہنچاسکتیںتو کم ازکم نقصان نہ پہنچائیں۔
میری تحریر طبع یارکو بے چین کرتی ہے وہی لکھتاہوں جو کچھ دل پر گزرتی ہے
عطا ء الرحمن نوری( جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا) موبائل نمبر:9270969026
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.