You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
سُوال:
کُفر کے کیا معنیٰ ہیں؟
-----------------------
جواب:کُفر کا لُغوی معنیٰ ہے:
کسی شے کوچُھپانا۔
(اَلمُفْرَدات ص 714 )
اور اِصطِلاح میں کسی ایک ضَرورتِ دینی کے انکا ر کو بھی کُفرکہتے ہیں اگر چِہ باقی تمام ضَروریاتِ دین کی تصدیق کرتا ہو۔
(ماخوذ از بہارِ شریعت حصّہ1 ص92)
جیسے کوئی شخص اگر تمام ضَرور يا تِ دین کو تسلیم کرتا ہو مگرنَماز کی فرضیّت یا ختم ِنبوَّت کا منکِر ہو وہ کافِر ہے۔کہ نَماز کو فرض ماننا اور سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخِری نبی ماننا دونوں باتیں ضَروریاتِ دین میں سے ہیں۔
ضَر وریاتِ دین کی تعریف
سُوال:
ضَروریاتِ دین کسے کہتے ہیں؟
--------------------------
جواب:
ضَروریاتِ دین ، اسلام کے وہ اَحکام ہیں ،جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں،
جیسے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی وَحدانِیّت(یعنی اس کا ایک ہونا)،
انبِیائے کرام عَلَیْہمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی نُبُوَّت،نَماز، روزے ، حج ، جنَّت، دوزخ ، قِیامت میں اُٹھایا جانا ، حساب و کتاب لینا وغیرھا۔
مَثَلاً یہ عقیدہ رکھنا (بھی ضروریاتِ دین میں سے ہے)کہ حُضُوررحمۃٌ لِّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتَمُ النَّبِیِّین ہیں
حُضُورِاکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا ۔
عوام سے مُراد وہ مُسلمان ہیں جو عُلَماء کے طبقہ میں شُمار نہ کئے جاتے ہوں مگر عُلَماء کی صُحبت میں بیٹھنے والے ہوں اورعِلمی مسائل کا ذَوق رکھتے ہوں۔ وہ لوگ مُراد نہیں جو دُور دراز جنگلوں پہاڑوں میں رہنے والے ہوں جنہیں صحیح کَلِمہ پڑھنا بھی نہ آتا ہو کہ ایسے لوگوں کا ضَرورياتِ دین سے ناواقِف ہونا اِس دینی ضَروری کو غیرضَروری نہ کردے گا۔ البتّہ ایسے لوگوں کے مسلمان ہونے کے لئے یہ بات ضَروری ہے کہ ضَرور یا تِ دین کے مُنکِر(یعنی انکار کرنے والے) نہ ہوں اور یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے ۔ان
سب پر اِجمالاً ایمان لائے ہوں ۔
=============
( بہارِ شريعت حصّہ 1 ص92مُلَخَّصاً)
ضَرور يا تِ دین کی مزید وضاحت کیلئے نُزْہَۃُ الْقاری شرحِ صحیح البخاری جلد اوّل صَفْحَہ 239 سے اِقتِباس مُلا حَظہ ہو،
چُنانچِہ شارِحِ بخاری حضرت علامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:
ایمان کی تعریف میں ضَرور یا تِ دین کا (جو)لفظ آیا ہے، اس سے مُراد وہ دینی باتیں ہیں جن کا دین سے ہوناایسی قَطعی یقینی دلیل سے ثابِت ہو جس میں ذرّہ برابر شُبہ نہ ہواور ان کا دینی بات ہونا ہر عام و خاص کومعلوم ہو۔
خواص سے مُرادعُلماء ہیں اور عوام سے مُراد وہ لوگ ہیں جو عالم نہیں مگر عُلماء کی صُحبت میں رہتے ہوں ۔
اِس بِنا پر وہ دینی باتیں جن کادینی بات ہونا سب کو معلوم ہے مگر ان کاثُبُوت قَطْعی نہیں تو وہ ضروریاتِ دین سے نہیں
مَثَلاً عذابِ قبر ،اعمال کاوَزن۔ یونہی وہ باتیں جن کاثُبُوت قَطْعی ہے مگر ان کا دین سے ہونا عوام و خواص سب کومعلوم نہیں تو وہ بھی ضَروریاتِ دین سے نہیں، جیسے صُلْبی بیٹی کے ساتھ اگر پوتی ہو تو پوتی کو چھٹا حصّہ ملیگا۔
جن دینی باتوں کاثُبُوت قَطْعی ہو اور وہ ضَرور یا تِ دین سے نہ ہوں ان کامُنکِر(یعنی انکار کرنے والا) اگراس کے ثُبُوت کےقَطْعی ہونے کو جانتا ہو تو کافِر ہے اور اگر نہ جانتا ہو تو اسے بتایا جائے، بتانے پر اگر حق مانے تو مسلمان اور بتانے کے بعد بھی اگر انکار کرے تو کافر ۔ (شامی ج3 ص 309)
وہ باتیں جن کا دین سے ہوناسب کومعلوم ہے مگر ان کاثُبوت قَطْعی نہیں ان کامُنکِر کافر نہیں اگر یہ باتیں ضَرور یاتِ مذہب ِ اہلسنَّت سے ہوں تو (انکار کرنے والا)گمراہ اور اگر اس سے بھی نہ ہو تو خاطی(یعنی خطارکار)۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.