You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
۱۶،۱۷؍اپریل کومالیگائوں میں منعقدہ اجتماع میں امیر محترم کی آمد کے پیش ِنظر
مولانا محمد شاکر علی نوری :شخصیت، خدمات اور اثرات
از:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
***********************************
۱۷؍مارچ ۱۹۶۰ء بمقام جوناگڑھ،کاٹھیاواڑ،صوبۂ گجرات میں عالی جناب عبدالکریم میمن نوری کے یہاںداعی کبیرحضرت علامہ محمد شاکر علی نوری صاحب (امیر سنّی دعوت اسلامی ) کی ولادت ہوئی۔
آپ کے یہاں اکابر اہل سنت کی تشریف آوری ہوتی رہتی تھی جس سے ہندوستان کے مشہور علمااور مشائخ سے آپ کے گھرانے کے روابط کا پتہ چلتاہے۔
مولاناموصوف نے جونا گڑھ میں میٹرک تک تعلیم حاصل کی ،مدرسہ عرفان العلوم اپلیٹہ اور دارالعلوم مسکینیہ دھوراجی میں حفظ قرآن کیا۔ وہیں تجوید وقراء ت کا کورس بھی مکمل کیا،اس کے بعد سنی دارالعلوم محمدیہ، متصل مینارہ مسجد ممبئی میں داخل ہوئے اور جماعت خامسہ تک درس نظامی کی تعلیم حاصل کی پھر تبلیغ کے میدان میں آگئے۔
مولانا کے چند اساتذۂ کرام یہ ہیں۔حضرت مولانا غلام غوث علوی ہاشمی، حضرت مولانا نور الحق (سابق استاذ دارالعلوم محمدیہ)، مولانا محمد حنیف خان اعظمی مبارکپوری، مولانا مجیب الرحمن صاحب قادری، حضرت مولانا ظہیر الدین خان صاحب صدر المدرسین دارالعلوم محمدیہ، حضرت مولانا توکل حسین حشمتی،حضرت مولانا جان محمد برکاتی اساتذۂ دارالعلوم محمدیہ وغیرہ سے تعلیم حاصل کی اور اشرف العلما حضرت سید حامد اشرف اشرفی الجیلانی علیہ الرحمہ سے وقتاً فوقتاً استفادہ کرتے رہے۔
داعی کبیرحضرت علامہ محمد شاکر علی نوری صاحب (امیر سنّی دعوت اسلامی )کی شخصیت خدمت دین کی بدولت پوری دنیا میں انفرادی حیثیت کی حامل ہے۔
۵؍ستمبر۱۹۹۲ء کوممبئی عظمیٰ کی سرزمین پرخداورسول اکرمﷺ کے کرم وعنایت پر بھروسہ کرتے ہوئے ’’ تحریک سنّی دعوت اسلامی‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔حضرت موصوف کی قائدانہ صلاحیتوں نے اس تحریک کو عالمی تحریک بنادیا۔یہ تحریک ممبئی سے اٹھی اور دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستان اور بیرون ممالک میں اس کا غلغلہ بلند ہونے لگا۔آپ جہان بھر میں اپنی خطابت کے ذریعے اصلاح امت کا فریضہ بخوبی انجام دے رہے ہیں،ساتھ ہی تصنیف وتالیف کے ذریعے بھی رہ نمائی فرمارہے ہیں۔آپ نے ملک وبیرون ملک کے طول وعرض میں متعدددارالعلوم ا وراسلامی انگلش میڈیم اسکولوں کا قیام فرمایاہے۔ہر پانچ سالوں پر دی رائیل اسلامک اسٹریٹیجک اسٹڈی سینٹر (جارڈن)پوری دنیامیں اثرورسوخ رکھنے والے پانچ سو مسلم افراد پر مشتمل سروے رپورٹ پیش کررہاہے۔
۲۰۰۹ء اور ۱۵۔۲۰۱۴ء کی سروے رپورٹ میں مولاناموصوف کانام بھی فہرست میں موجود ہے ۔ مولانا شاکر علی نوری نے اپنے اصلاحی کاموں کی بدولت دنیا بھر میں شہرت پائی، آپ مخلص داعی، کامیاب مصلح اور اہل سنت کے عظیم عالم دین ہیں۔
مولانامحمد شاکر نوری صاحب کو تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا ازہری دام ظلہ ، سجادہ نشین آستانہ ٔ غوث اعظم قادریہ بغدادا شریف اور شہزادہ سید العلماء حضرت سید حسنین میاں نظمی مارہروی علیہ الرحمہ سے مختلف سلاسل کی اجازت وخلافت حاصل ہے ۔امیر محترم دینی تعلیم کو عام کرنے کے لیے ایک سو گیارہ مدارس قائم کرنے کا عزم رکھتے ہیں جب کہ اب تک ایسے ۲۵؍مدارس اسکول قائم ہوچکے ہیں ۔ مولاناکے منصوبوں میں انگلش میڈیم اسکول اور ہاسپٹل کا قیام بھی شامل ہے۔مولاناموصوف کا وقت تبلیغی اسفار،تربیت،مبلغین،تحریک کی بہتر تنظیم اور اپنے مدارس کی نگرانی اور تجارت جیسے امور میں صرف ہوتاہے۔ہر سال حج وعمرہ کی سعادت سے سرفراز ہوتے ہیں۔موصوف کوخانۂ کعبہ مقدسہ کے اندرون میں عبادت کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ہر تین سال پر مجلس شرعی جامعہ اشرفیہ مبارک پور کا ایک سہ روزہ فقہی سمیناراورآخر میں اجلاس عام بھی منعقد کراتے ہیں۔تصنیف وتالیف سے بھی رشتہ ہے۔ماہ رمضان کیسے گزاریں؟،گلدستۂ سیرت النبیﷺ،مژدۂ بخشش (نعتوں کا مجموعہ)،عظمت ماہ محرم اور امام حسین،قربانی کیا ہے ؟،امام احمد رضااور اہتمام نماز،بے نمازی کا انجام،مسلم کے چھ حقوق، حیات خواجہ غریب نواز،خواتین کا عشق رسول اور خواتین کے واقعات ‘‘وغیرہ آپ کے اصلاحی قلم کی شاہکار ہیں ۔ مولانااپنے خون جگر سے اپنی اصلاحی تحریک ’’سنّی دعوت اسلامی ‘‘کی سینچائی میں مصروف ہیں۔
مولانا محمد شاکرعلی نوری صاحب اپنے سینے میں ایک درد مند دل رکھتے ہیں جو امت مسلمہ کی زبوں حالی ، تحصیل علوم کے تئیں ان کی عدم دلچسپی اور دین سے دوری کو دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے ،ان کی خواہش ہے کہ سنی دعوت اسلامی کی خدمات کو اتنی وسعت دے دی جائے کہ ہماری نوجوان نسل دین سیکھنے پر آمادہ ، اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے میں سنجیدہ ہو جائے ۔ ان کے افکار میں دینی روشنی موجود ہو ، ان کے کردار وعمل سے اسلام کی کرنیں پھوٹیں ، وہ دینی وعلمی اعتبار سے پختہ کار ہوجائیں ۔اور سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ انھیں سچا عشق رسول ﷺ حاصل ہو جائے ۔ ’’ زمیں کے اوپر کام ، زمیں کے نیچے آرام ‘‘، اور’’ اتحاد زندگی ہے اور اختلاف موت ‘‘ نوجوان علما کا مطمح نظر ہو ، ان میں دعوتی مزاج پیدا کیا جائے ، انھیں سیاسی شعور عطا کیاجائے ، دور حاضر کے چیلنجز کا ادراک ہو ، جائز حدود میں رہتے ہوئے ماڈرن ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے ، دینی وعصری تعلیم کا پختہ انتظام ہو اور تعلیم کے ساتھ ساتھ منظم تربیت کا بھی انتظام ہو ۔ انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ’’ ایک مرتبہ میں نے حضور مفکر اسلام دام ظلہ سے عرض کیا کہ اختلافات کی ناگفتہ بہ پوزیشن میں دین کا کام کیسے کیا جائے ؟ تو بڑی پیاری بات انھوں نے ارشاد فرمائی ، کہاکہ’’تم اپنے حصے کی شمع جلاتے جاؤ ۔ ‘‘ یعنی کسی کی فکر کیے بغیر جتنا کام تم کر سکتے ہو اتنا ضرور کرو ۔ ‘‘ ۱۶؍ ،۱۷؍ اپریل بروز جمعرات جمعہ ۲۰۱۵ء کو شہر مالیگائوں میں عالمی تحریک سنّی دعوت اسلامی کے زیر انتظام دو روزہ عظیم الشان سنّی اجتماع کا انعقاد ہو رہاہے۔تمام مسلمانوں بالخصوص ریاست مہاراشٹر کے مسلمانوں سے التماس ہیکہ اجتماع کی خوب خوب تشہیر کریں اور کثیر تعداد میں مع دوست واحباب کے شرکت کریں۔
(استفادۂ خصوصی:برکات شریعت مجلد،جام نور نومبر۲۰۰۹ئ،اہل سنت کی آواز،۲۰۱۴ئ)
عطا ء الرحمن نوری( جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.