You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
میلاد مصطفی ﷺ بزبان مصطفیٰ ﷺ
{الحمد اللہ رب ا لعالمین۔ و الصلاۃ والسلام علی رسول الکریم۔ عمابعد فاعوذوباللہ من الشیطن الرجیم۔}
قال اللہ تبارک وتعالیٰ فی القرآن المجید۔
و انک لعلیٰ خلق عظیم۔(القلم ۲۸:۴)
ترجمہ: اور بیشک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں۔
قل یا یھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔الذی لہ الملک السموات والارض۔
ترجمہ: آپ فرما دیں:اے لوگو :میں تم سب کی طرف اس اللہ کار سول (بن کر آیا) ہوں۔ جس کے لیے تمام آسمانوں اور زمین کی بادشاہت ہے۔
قال الرسول اللہ ﷺ :
قال حضرت ابو ھریرہ : یارسول اللہ: متی وجبت لک النبوۃ؟ قا ل الرسول اللہ ﷺ بین خلق آدم و نفخ الروح فیہ۔
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :یارسول اللہ ﷺ آپ کو شرف نبوت سے کب نوازا گیا؟ آپ ﷺ نے فرمایا ۔( میں اس وقت بھی نبی تھا)جب آدم علیہ السلام ابھی تخلیق اور روح کے مرحلے میں تھے۔
حضورنبی کریم ﷺ کا معمول مبارک تھا کہ آپ ﷺ صحا بہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ مختلف موضوعات پر خطبا ت اِ رشاد فرماتے۔ اور کبھی کبھی اپنے نسب مبارک اور ولادت مبارک کے بارے میں بھی اِرشاد فرماتے۔میں اس زمرے میں چند احادیث مبارکہ آپ کے گوش گزار کروں گا جن میں حضور نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کے اجتماع میں اپنی ولادت باسعادت کا تذکرہ فرمایا ہے۔
۱: حضرت مطلب بن ابی وداعہ سے مروی ہے:
جاء العباس الی رسول اللہ ﷺ فکانہ سمع شیئاًََ، فقام النبی ﷺ علی المنبر، فقال: من انا؟ فقالوا: انت رسول اللہ، علیک السلام، قال :انا محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ان اللہ خلق الخلق فجعلنی فی خیرھم فرقۃ، شم جعلھم فرقتین، فجعلنی فی خیرھم فرقۃ، شم جعلھم قبائل،فجعلنی فی خیرھم قبیلۃ،شم جعلھم بیوتا، فجعلنی فی خیرھم بیتا و خیرھم نسباً۔ (ترمذی،الجامع الصحیح، کتاب الدعوات ۵:۵۴۳،رقم:۳۵۳۲)
ترجمہ: ’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ رسول اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے،(اس وقت ان کی کیفیت ایسی تھی) گویا انہوں نے (حضور نبی اکرم ﷺ کے متعلق کفار سے) کچھ (نازیبا الفاظ) سن رکھے تھے ( اور حضور نبی اکرم ﷺ کو بتانا چاہتے تھے)۔ (حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات حضور ﷺ کو بتائے یا آپ ﷺ علم نبوت سے جان گئے) تو حضور ﷺ منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا:میں کون ہوں ؟ سب نے عرض کیا: آپ پر سلام ہو ، آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں عبداللہ کابیٹا محمد (ﷺ) ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور اس مخلوق میں سے بہترین گروہ (انسان) کے اندر مجھے پیدا فرمایا اور پھر اس گروہوں (عرب و عجم) میں تقسیم کیا اور ان میں سے بہترین گروہ (عرب ) میں مجھے پیدا کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس حصے قبائل بنائے اور ان میں سے بہترین قبیلہ (قریش ) کے اندر مجھے پیدا کیا اور پھر اس بہترین قبیلہ کے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب (بنو ہاشم) میں پیدا کیا۔ـ‘‘
۲: حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔
قلت: یارسول اللہ ! ان قریشاًجلسوافتذاکرواأحسابھم بینھم،فجعلوا مثلک کمثل نخلۃ فی کبوۃ من الأرض،فقال النبی ﷺ ان اللہ خلق الخلق فجعلنی من خیرھم من خیر فرقھم و خیر الفریقین، ثم تخیر القبائل فجعلنی من خیر قبیلۃ، ثم تخیر البیوت فجعلنی من خیر بیوتھم فأنا خیر نفساً و خیرہم بیتا۔
(ترمذی،الجامع الصحیح، ابواب المناقب، باب فی فضل النبی ﷺ ۵:۵۸۴، رقم:۳۶۰۷)
ترجمہ: ’’ میں نے عرض کیا:یارسول اللہ ﷺ: قریش نے ایک مجلس میں اپنے حسب و نسب کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی مثال کھجور کے اس درخت سے دی جو کسی ٹیلہ پر ہو۔اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے ان کی بہترین جماعت میں رکھا اور ان کے بہترین گروہ میں رکھا اور دونوں گروہوں میں سے بہترین گروہ میں بنایا، پھر قبائل کو منتخب فرمایا اور مجھے بہترین قبیلے میں رکھا، پھر اُس نے گھرانے منتخب فرمائے تو مجھے اُن میں سے بہتر گھرانے میں رکھا، میں اُن میں سے بہترین فرد اور بہترین خاندان والا ہوں۔‘‘
۳: حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور رحمت عالم ﷺ نے فرمایا:
ان اللہ اصطفی من ولد ابراھیم اسماعیل، واصطفی من ولد اسماعیل بنی کنانۃ، واصطفی من بنی کنانۃ قریشاً، واصطفی من قریش بنی ھاشم،واصطفانی من بنی ھاشم۔ (ترمذی،الجامع الصحیح، ابواب المناقب، باب فی فضل النبی ﷺ ۵:۵۸۳، رقم:۳۶۰۵)
ترجمہ: ’’بے شک رب کائنات نے ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے اسماعیل علیہ السلام کومنتخب فرمایا،اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو، اور اولاد کنانہ میں سے قریش کو، اور قریش میں سے بنی ہاشم کو،اور بنی ہاشم میں سے مجھے شرف انتخاب سے نوازا اور پسند فرمایا۔‘‘
آپ ﷺ نے اصطفی کا لفظ اس لیے بیان کیا کہ صاحب نسب، مصطفی ﷺ (چنے ہوئے) ہیں ۔
اسی طرح کی بیشمار احادیث مبارکہ ﷺ اور بھی موجود ہیں ۔جن میں حضور اکرم ﷺ نے اپنی ولاد ت مبارکہ کا تذکرہ فرمایا ہے۔
مضمون نگا ر: محمد مد ثر القادری فیصل آباد پاکستان
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.