You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
مفتی غلام دستگیرقصوری حنفی نقشبندی محلہ چاہ بیبیاں اندرون موچی گیٹ لاہور میں پیدا ہوئے۔والد گرامی کا نام مولانا حسن بخش صدیقی تھا۔بڑے بھائی مولانا محمد بخش مسجد’’ملامجید‘‘لاہور میں ایک عرصہ تک خطابت کے فرائض انجام دیتے رہے۔والدہ ماجدہ شیخ المشائخ حضرت مولانا غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری(خلیفہ شاہ غلام علی مجددی دہلوی) کی ہمشیرہ تھیں۔مولانا قصوری کو مولانا غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری کا شاگرد،داماد،مرید باصفا اور خلیفہ ہونے کا شرف حاصل تھا۔مولانا قصوری نے منقولات ومعقولات میں کمال حاصل کیا اور اپنی ذہانت اور محنت کی بدولت اپنے اساتذہ سے خراج تحسین حاصل کیا۔
۲۵جنوری۱۸۸۳ء میں ایک غیرمقلد حافظ محمدلکھوی(مولف تفسیر محمدی پنجابی)نے ایک مناظرہ میں آپ کے آباؤ اجداد اور اساتذہ کی بابت سوال کیا تو مولانا قصوری نے جواب دیا:
’’میراخاندان بزرگوار قصور بہت مشہور ہے جن سے اطراف ہند و پنجاب و ڈیرہ جات تک کے خاص و عام فیض یاب و تاثیر المرام ہیں۔ماسوائے اس فقیر کے قبلہ و کعبہ استاد و مرشید میاں قصوری علیہ الرحمۃ (میاں غلام محی الدین قصوری)نے اپنے خاندان کے فیض سے بڑھ کر رئیس اہل علم و تمیز ختم المحدثین والمفسرین مولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی علیہ الرحمۃ سے علم حدیث و تفسیر میں سند مستند حاصل کیا اور فقیرنے ان سے بہرہ یاب ہو کر کتابیں لکھیں جن کو علمائے عرب و عجم نے پسند فرمایا۔(ابحاث فریدکوٹ:۱۵۵)
مولانا غلام محی الدین قصوری کے وصال کے بعد آپ نے اپنے ماموں زاد صاحب زادہ سید عبدالرسول علیہ الرحمۃ سے بعض کتب درسیہ پڑھیں۔(ابحاث فرید کوٹ:۳۸)
ایک مناجات میں آپ اپنے پیرومرشد اور اساتذہ کا ذکر یوں کرتے ہیں؛
بہ پیر دہلوی پیرقصوری
ہماں غواص دریائے حضوری
غلام شاہ علی آں پاک مدفن
غلام محی الدین آن قبلہ من
اخی عبدالرسول استاد احقر
فرضی اللہ علیہم تاج بر سر
(ابحاث فرید کوٹ:۳۸)
آپ انجمن حمایت اسلام،لاہور کے شعبۂ تصانیف کے انچارج رہے ۔ستمبر۱۸۷۸ء میں آپ نے عیسائیوں کے ایک رسالہ’’تحریف القرآن‘‘کے جواب میں رسالہ تحریر کیا اور انجمن سے شائع کروایا،آپ نے اپنی تصانیف کی آمدن انجمن کے فنڈ میں شامل کرادی۔(تذکرہ علمائے اہل سنت لاہور:۲۰۲ بحوالہ نوائے وقت ۲۶مارچ ۱۹۶۷)
تعلیم سے فراغت کے بعد جب مولانا قصوری نے عملی میدان میں قدم رکھا تو شہرت وقبولیت نے آپ کے قدم چومے ، آپ کے نام کا شہرہ ہوا،جہاں جاتے کثیر لوگ آپ کے مواعظ میں شرکت کرتے۔ علماء کی مجالس آپ کے دم قدم سے جلا پاتیں۔اس وقت علمائے لاہور میں آپ کے معاصرین میں بڑی نادر ہستیاں تھیں جن میں سے چند کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
مولانا غلام محمد بگوی،مولاناذاکر بگوی،خلیفہ حمیدالدین،مولانا نور احمد،مولاناغلام قادر بھیروی، مولانا فیض الحسن سہارنپوری،مولانا عبداللہ ٹونکی۔
مولانا قصوری نے سب سے پہلے مرزا قادیانی پر فتویٔ کفر لگایا اور علمائے حرمین شریفین کی تصدیقات حاصل کر کے شائع کیا۔مرزا قادیانی کے عقائد باطلہ کے رد میں سب سے پہلی کتاب بھی آپ نے ہی تحریر کی۔مرزا قادیانی نے کئی بار آپ کو مباہلہ کو چیلنج دیا مگر ہر بار فرار ہوگیا۔(تفصیل کے لئے مولانا کی کتاب ’’فتح رحمانی‘‘ملاحظہ فرمائیں)
ردقادیانیت کے سلسلہ میں مولانا قصوری کی خدمات کو دیکھ کر غیرمقلدین نے مولاناقصوری پر ہاتھ صاف کرنے کی ناکام سعی کی چنانچہ غیر مقلدین میں سے مولوی مقتدیٰ حسن اور قاضی صفی الرحمن مبارکپوری نے لکھا ہے’’مولانا غلام دستگیرقصوری قادیانی فتنے کا مقابلہ کرنے والوں کی صف اول میں تھے۔آپ کاشمار پنجاب کے ممتاز علمائے اہل حدیث میں ہوتا تھا۔(تذکرۃ المناظرین،حصہ اول،ص:۲۱۷مطبوعہ دارالنوادر،اردوبازار لاہور-قادیانیت اپنے آئینے میں:۲۵۳مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ،لاہور)
غیرمقلد حضرات کی دیدہ دلیری، کذب گوئی،ہٹ دھرمی اور ضدکا بھی کوئی ٹھکاناہے کہ ایک ایسی شخصیت کے متعلق جھوٹ بولاجس کی ساری زندگی مسلک اہل سنت کی نشرواشاعت اورغیرمقلدین حضرات کے تحریری و تقریری ردمیں گزری،جس پر ان کی تصنیفات شاہد ہیں:ابحاث فریدکوٹ،ظہوراللمعہ فی ظہرالجمعہ،عمدۃ البیان فی اعلان مناقب النعمان، تحقیق صلوٰۃ الجمعہ،تحفہ دستگیریہ،عروۃ المقلدین،ظفرالمقلدین، نصرۃالابرار،جواب اشتہار کفریت الصلوٰۃوالسلام علیک یارسول اللہ -یہ سب تصانیف مولانا نے غیرمقلدین کے رد میں ہی تحریر کیں-
فاضل بریلوی امام احمد رضا علیہ الرحمۃ آپ کی دینی خدمات کے معترف تھے پنجاب کے لوگوں نے امام اہل سنت امام احمد رضا کو لاہور تشریف لانے کی دعوت دی توآپ نے فرمایا:
’’وہابیوں کے سرکوپ مولانا غلام دستگیرقصوری کے ہوتے ہوئے مجھے آنے کی ضرورت نہیں۔‘‘ (تذکرہ علمائے اہل سنت لاہور:۲۰۴)
۱۵جمادی الاول۱۳۰۸ھ کوبریلی سے روانہ ہوتے ہوئے مولاناقصوری نے فاضل بریلوی کی کتاب’’سبحن السبوح عن عیب کذب المقبوح‘‘پر تقریظ رقم فرمائی۔
اہل سنت کا یہ بطل جلیل عالم نبیل۱۳۱۵ھ-۱۸۹۷ء میںاس جہان فانی سے رُخصت ہوا اور قصور کے مشہور(شرف صاحب نے قبرستان کا نام نہیں لکھا) قبرستان میں آپ کی آخری آرامگاہ بنی۔(تذکرہ اکابر اہل سنت،جلد۱،ص:۳۰۹)
تصانیف
۱۔عمدۃ البیان فی اعلان مناقب النعمان(۱۲۸۵ھ)
یہ کتاب وہابیوں کے شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی کی مشہورتصنیف’’ معیار الحق‘‘کے جواب میں لکھی گئی تھی۔ پہلے فارسی میں طبع ہوئی بعد میں اس کا اردو ترجمہ شائع ہوا۔مطبع مصطفائی لاہور سے طبع ہوئی،کل صفحات(فارسی ایڈیشن)۳۲ہیں۔کتاب پر مولانا غلام نبی(للہ شریف والے)،مولانا غلام نبی احمدی اور خلیفہ حمیدالدین کی تقاریظ ہیں۔
۲۔تحفہ دستگیریہ جواب اثنا عشریہ(۱۲۸۵ھ)
اس کتاب میں مولوی غلام علی قصوری ثم امرتسری کے احناف پر دس اعتراضات کا جواب ہے۔استمداد باہل القبور و ارواح اولیاء پر مفصل دلائل ہیں۔کل صفحات ۱۴۴ ہیں،مطبع مصطفائی لاہور سے طبع ہوئی۔مولانا حافظ نورالدین چکوری،حافظ کرم الدین،مولانا عبداللہ صدرالدین،غلام غوث صاحب اور مولانا صدرالدین کی تقاریظ بھی شامل کتاب ہیں۔
۳۔تحقیق صلوٰۃ الجمعہ
مولانا قصوری نے اس کے متعلق تحریر کیا ہے کہ یہ کتاب ’’تذکرۃ الجمعہ‘‘ کے جواب میں تحریر کی۔
۴۔مخرج عقائد نوری بجواب نغمہ طنبوری (۱۲۹۴ھ)
رُسوائے پنجاب پادری عماد الدین نے ’’نغمہ طنبوری‘‘ میں اسلام پر بڑے رکیک حملے کئے تھے،مولانا نے اس کتاب میں اس کے خیالات کی پُرزور تردید کی ،لدھیانہ میں مولانا نے اس پادری سے مناظرہ کر کے شکست فاش دی۔مولانا نے اس رسالہ کے متعلق تحریر کیا ہے کہ ’’ رسالہ موصوفہ کی ایک ہزار جلدیں عمائدین بریلی کی سعی سے چھپ کر مفت تقسیم ہوہیں۔‘‘(ہدیۃ الشیعتین:۸مطبوعہ مطبع محمد،لاہور)
۵۔ہدیۃ الشیعتین المعروف بہ منقبت چار یار مع حسنین رضی اللہ عنہما
یہ کتاب فارسی اول فارسی زبان میں شائع ہوئی اور مولانا نے اس کا تاریخی نام’’ہدیۃ الشیعتین‘‘(۱۲۹۰ھ) رکھا بعد ازاں آپ نے اس کا اردو ترجمہ بنام’’منقبت چاریار مع حسنین‘‘(۱۲۹۵ھ)کیا۔دونوں نام تاریخی ہیں۔ اس میں شیعہ اور خوارج کے نظریات کا مدلل رد کیا گیا ہے۔مولانا قصوری اس رسالہ کے متعلق تحریر کرتے ہیں’’رسالہ(مخرج عقائد نوری) جب نواب صاحب محمد ابراہیم علی خان صاحب بہادر والیٔ کوٹلہ مالیر کی نظر سے گزرا تو فقیر کو انہوں نے کوٹلہ میں بلوایا چنانچہ فقیر جمادی الاولیٰ ۱۲۹۵ھ میں ان کے پاس آیا اور ان کے حسن اخلاق سے وہاں پر چندے قیام رہا اس اثنا میں ’’ہدیۃ الشیعتین‘‘کا اردو ترجمہ مرتب ہوا۔پھر۱۲۹۸ھ میں فقیرنے بدیں غرض سفر کیا کہ اس کی فتوح سے یہ رسالہ چھپواکر مفت بانٹاجائے تاکہ اجرنشرعلوم حقہ ہاتھ آئے پس گوجرانوالہ وزیرآباد سیالکوٹ جموں سے ہو کر ڈیرہ اسمعیل خان بنوں عیسیٰ خیل میں جانا ہوا۔حق تعالیٰ ان دینی بھائیوں کو جزائے خیر عطافرمائے جن کی امداد سے گیارہ سو جلد چھپ کر تیار ہو گیا اب مسلمانوں کو بلا قیمت دی جائیں گی۔‘‘(ہدیۃ الشیعتین:۸مطبوعہ مطبع محمد،لاہور)
۶۔توضیح دلائل و تصریح ابحاث فرید کوٹ
ریاست فرید کوٹ کے راجہ نے اپنے اہتمام میں علمائے اہل سنت اور غیرمقلدین کے درمیان بڑے مناظرے کرائے۔ان تمام مناظروں میں ملک کے بڑے جید علماء شریک ہوتے تھے۔مولانا قصوری نے ان مباحث کو یک جا جمع کر کے ترتیب دیا اور آخر میں مہاراجہ فرید کوٹ کا فیصلہ بھی درج ہے۔یہ کتاب نظریاتی اختلافات کی ایک تاریخی روئیداد ہے اور خاص کر مسئلہ تقلید میں خاصا مواد جمع کیا گیا ہے۔
۷۔جواب اشتہار کفریت الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ
۱۲جولائی ۱۲۹۵ھ کو گوجرانوالہ میں غیرمقلدین کی طرف سے ایک اشتہار شائع ہوا جس میں ’’الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ‘‘پڑھنے کو کفر لکھا گیا۔گوجرانوالہ میں سے چند لوگوں نے مولانا قصوری سے رابطہ کیا۔مولانا بنفس نفیس تشریف لے گئے اور مشتہرین کو دعوت بھجوائی کہ تشریف لائیے اور اپنی تسلی تشفی کر لیجئے مگر وہ حضرات صریح انکاری ہوئے،مولانا خود پہنچ گئے تو مفرور ہو گئے بالآخر مولانانے اشتہار کا جواب تحریر کیا جسے مولانا کے ایک عقیدت مند شیخ رحیم بخش نے چھپوا کر مفت تقسیم کیا۔رسالہ کے آخر میں حافظ عبدالعلی نقشبندی صاحب کی پنجابی نظم ہے جس میں مولانا قصوری کو خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
۸۔عروۃ المقلدین بالہام القوی المبین
مسئلہ تقلید پر ایک نہایت اہم ،دلائل و براہین سے مزین کتاب ہے۔۱۳۰۰ھ میں مطبع قادری،قصور سے فضل حق قصوری کی تصحیح کے ساتھ طبع ہوئی۔کل صفحات ۳۲ ہیں۔
۹۔ظفرالمقلدین
یہ کتاب مولانا قصوری نے ’’ظفرالمبین‘‘مصنفہ مولوی محی الدین لکھوی کے جواب میں تحریر کی۔
۱۰۔رجم الشیاطین براغلوطات البراہین:[۱۳۰۳ھ]
یہ کتاب عربی زبان میں ہے جس کو مولانا قصوری نے اپنی کتاب’’تحقیقات دستگیریہ‘‘ سے ملخص کیا اور علمائے حرمین شریفین سے تصدیقات حاصل کیں۔اس کتاب پرمولانا رحمت اللہ کیرانوی کی تصدیق بھی ہے۔اسی کتاب کے ذریعہ سے علمائے حرمین شریفین کو فتنۂ قادیانیت کی اطلاع ملی۔یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب مرزا قادیانی ملعون کو بہت کھٹکتی تھی اور وہ کہتا تھا’’مولوی غلام دستگیر قصوری وہ بزرگ تھے جنہوں نے میرے کفر کے لئے مکہ معظمہ سے کفر کے فتوے منگوائے تھے۔‘‘(حقیقۃ الوحی:۲۵۹،روحانی خزائن،جلد۲۲،ص:۲۵۹)
۱۱۔جواہرمضیہ رد نیچریہ
مولانا قصوری کو ایک شخص مسمّٰی خلیفہ محمدفضل الرحمن (امام جامع مسجد کنپ فیروزپور)کی طرف سے۱۳۰۴ھ میں ایک خط موصول ہوا جس میں ترجمان نیچریت اخبار’’تہذیب الاخلاق‘‘ ۱۵ربیع الاول ۱۲۹۵ھ کے ایک مضمون کی شرعی حیثیت دریافت کی گئی۔تہذیب الاخلاق کے متعلقہ پرچہ سے مضمون کی نقل بھی ہمراہ تھی۔اس خط کے جواب میں مولانا قصوری نے یہ کتاب تحریر فرمائی اور مطبع گلزار محمدی، لاہور سے ۱۳۰۴ھ میں طبع کروا کر مفت تقسیم کروائی۔اس کتاب کی وجہ تالیف کے متعلق مولانا قصوری خود تحریر فرماتے ہیں:
’’خان صاحب بہادر سی۔ایس۔آئی(سرسید احمدخان) نے جو اخبار’’ تہذیب الاخلاق‘‘ میں حدیث صحیح من تشبہ بقوم فھو منھم کو مردود لکھ کر کفار کے شعار میں مشابہت ہر قسم کو روا کردیا ہے اور تفسیرالقرآن میں فرضیت روزہ رمضان المبارک و حج بیت اللہ شریف کامنکر ہو کر، فرشتوں کے وجود اور دوزخ بہشت کے موجود ہونے کا بھی انکار کرکے، نماز میں استقبال قبلہ کو مشابہ بت پرستی کے لکھ دیا، پھر دولت مندوں کے واسطے بیاج لینے دینے کی حلت کا فتوی دے کر، سارے نبیوں کے معجزات کا منکر ہو کر، حضرت مسیح علیٰ نبینا و علیہم السلام کے بن باپ پیدا ہونے کو جھوٹ مقرر کرکے آپ کو یوسف نجار کا بیٹا بنا دیا ہے۔الغرض سب دینوں کوجھٹلا دیا ہے تو غیرت اسلامی کے رُوسے محمدابوعبدالرحمن فقیر غلام دستگیر ہاشمی صدیقی حنفی قصوری نے منقول اور معقول کی سند سے اس کا رد لکھ کر علماء دین کی تصدیق سے موید کرا کر چھپوایاہے کہ بلا قیمت سب کو دیے جائیں تاکہ بندگان خدائے عزوجل دھوکہ میں نہ آئیں راہ راست سے انحراف نہ پائیں اور جو نیچری ہیں وہ بھی اگرنظر انصاف سے اس مبارک رسالہ کو ملاحظہ فرمائیں گے تو بفضلہ تعالیٰ صراط مستقیم پر آ جائیں گے۔‘‘(جواہر مضیہ رد نیچریہ: سرورق)
۱۲۔ظہوراللمعہ فی ظہر الجمعہ
یہ کتاب مطبع صحافی،لاہورسے ۱۲۹۹ھ میں طبع ہوئی۔مولانا قصوری اس کتاب کی وجہ تالیف تحریرفرماتے ہیں:
’’موفق حقیقی عزوجل کی توفیق سے فقیر محمد ابو عبدالرحمن غلام دستگیر ہاشمی حنفی قصوری کان اللہ لہ نے یہ مبارک رسالہ اصلاح غلطیات رسالہ تبصرۃ الجمعہ فی جمیع الامکنۃ والازمنۃ اور نیز تفسیر محمدی و انواع محمدحافظ محمدلکھوی کی مخالفت اہلسنت کے جواب میں تالیف کرکے علماء اہلسنت سے جو فی زمانہ مسند افتا ء وغیرہ پر متمکن ہیں تصدیق کرا کر تائید دین متین کے واسطے شائع کیا ۔
۱۳۔تحقیق تقدیس الوکیل
اس کتاب میںمولانا نے بڑی تحقیق سے تقدیس اُلوہیت کوبیان کیا اور ابن تیمیہ اور اس کے مویدین ومقلدین کی بے راہ روی کا نوٹس لیا۔(عقیدۂ ختم نبوت،ج۱،ص:۱۳۷ملخصاً)
۱۴۔تحقیقات دستگیریہ فی رد ہفوات براہینیہ:[۱۳۰۱ھ]
فتنۂ قادیانیت کی سرکوبی میں پہلی باقاعدہ کتاب تحریر کرنے کا کریڈٹ بھی مولانا قصوری کو حاصل ہے۔اس کتاب میں علمائے ہند بالخصوص علمائے لاہور و امرتسر کی تصدیقات موجود ہیں۔مولوی اللہ وسایا دیوبندی نے اس کو رد قادیانیت پر سب سے پہلی تحریری جدوجہد اورنقش اول قرار دیا ہے۔(احتساب قادیانیت،ج۱۰،ص:۴۴۹)
۱۵۔کشف الستور عن طواف القبور(۱۳۲۱ھ)
یکم صفر۱۳۰۵ھ میں ریاست اسلامیہ بہاول پور میں ایک صاحب عبدالرحمن خیرپوری نے ایک فتوی جاری کیا جس میں طواف قبرکو جائز قرار دیا۔بہاولپور کے عمائدین اور مولانا قصوری کے مخلص احباب نے یہ فتوی مولانا کو بھیجا اور تصدیق و تردید کے خواستگار ہوئے۔چنانچہ ان احباب کے اصرار پر مولانا نے یہ رسالہ ترتیب دیا اور علماء سے تصدیقات حاصل کیں۔مقامی علمائے مصدقین میں غلام محمد بُگوی(امام مسجد شاہی،لاہور)حافظ غلام مصطفی قصوری،سید غلام حسین قصوری،مفتی محمد عبداللہ ٹونکی،مولانا خیر محمد بہاولپوری،سید محمدزمان شاہ قصوری خیرپوری نمایاں ہیں۔اس کے علاوہ علمائے حرمین شریفین میں سے مفتی محمد صالح حنفی مکی،مفتی محمدسعید بابصیل شافعی،مفتی محمد بن حسین مالکی اور مفتی خلف بن ابراہیم حنبلی مکی کے فتاوی دربارۂ حرمت طواف قبور بھی شامل ہیں۔مولوی غلام رسول حنفی (ساکن عادل گڑھ) نے قطعات تاریخ طباعت تحریر کیے۔
۱۶۔نصرۃ الابرار فی جواب الاشتہار
اس رسالہ کی وجہ تالیف کے بارے مولانا قصوری تحریر فرماتے ہیں:
’’حمدوصلوٰۃ کے بعد واضح ہو کہ ایک آٹھ ورقہ اشتہار سوالات منجانب عبدالوہاب معرفت محمددین عرف چٹوپٹولی لاہوری کے مطبوعہ دیکھنے میں آیا جن کاجواب سائل نے قسمیں دے کر تمام علماء اسلام سے طلب کیا ہے‘‘(نصرۃ الابرار فی جواب الاشتہار:۱مطبوعہ مطبع صحافی،لاہور)
سائل نے تقلید شخصی،فقہ حنفی،امام اعظم کی علمی استطاعت،محدث کامل کی شرائط،شریعت و طریقت،طواف قبور وسجدہ قبور و تقبیل قبور و چراغ کاحکم،مجلس میلاد شریف،کرامات غوثیہ کے متعلق ستائیس (۲۷)سوالات پر مشتمل پرچہ شائع کیاتھا۔مولانا نے حاشیہ میں ایک ایک سوال نقل کر کے تفصیلی جواب تحریر کیا۔رسالہ کے کل صفحات چالیس(۴۰)ہیں۔شعبان۱۳۰۵ھ میں مطبع صحافی لاہور سے طبع ہوا۔
۱۷۔تقدیس الوکیل عن توہین الرشید والخلیل (عربی۔اردو)
مولانا عبدالسمیع رامپوری علیہ الرحمۃ کی کتاب’’انوارساطعہ‘‘کے رد میں مولوی خلیل انبیٹوی نے’’براہین قاطعہ‘‘تحریر کی،اس کتاب میں خلیل انبیٹوی نے عقائد اہل سنت سے کھلا انحراف کیا اور علمائے اہل سنت پر خوب سب و شتم کی۔مولانا قصوری کے خلیل انبیٹوی سے دوستانہ مراسم تھے۔مولانا قصوری کی کتاب’’ابحاث فرید کوٹ‘‘پر مولوی خلیل انبیٹوی کی تصدیقی مہر بھی موجود ہے۔’’براہین قاطعہ ‘‘کی تحریر سے مولاناقصوری کو سخت صدمہ ہوا،بنفس نفیس بہاول پور پہنچے اور خلیل انبیٹوی سے ملاقات کر کے اصلاح احوال کی سعی فرمائی مگر انبیٹوی صاحب کی ہٹ دھرمی پر نہایت حیران ہوئے۔ناچار عوام کو خلیل انبیٹوی کے عقائد باطلہ سے مطلع کرنے کے لیے شوال ۱۳۰۶ھ میں بہاولپور میں ایک مناظرہ کا اہتمام کیا، والیٔ ریاست بہاولپور کے مرشد گرامی شیخ المشائخ حضرت خواجہ غلام فرید قدس سرہ(چاچڑاں شریف) حَکم قرارپائے۔فریقین کی طرف سے چھ چھ علماء شامل ہوئے۔مناظرہ میں خلیل انبیٹوی کو شکست فاش ہوئی اور حَکم مناظرہ نے لکھ دیا کہ ان دیوبندی حضرات کے عقائد ان وہابی علماء سے ملتے ہیں جو اس برصغیر میں اعتقادی خلفشار کا باعث بنے ہوئے ہیں۔اس فیصلے کے بعد مولوی خلیل انبیٹوی کو ریاست بہاولپور سے نکل جانے کا حکم دیا گیا۔
مولانا قصوری ۱۳۰۷ھ میں حج کے لئے روانہ ہوئے تو اس کتاب کا عربی ترجمہ کر کے ہمراہ لے گئے اور علمائے حرمین شریفین سے اس پرتصدیقات لیں۔شیخ رحمت اللہ کیرانوی مہاجر مکی علیہ الرحمۃ نے بھی اس پر مہر تصدیق ثبت فرمائی اور تحریر فرمایا:’’سوکہتا ہوں کہ میںجناب مولوی رشید کو’’رشید‘‘سمجھتا تھا مگر میرے گمان کے خلاف کچھ اور ہی نکلے……‘‘(تقدیس الوکیل:۳۰۷)
بعض دیوبندی حضرات یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ علمائے حرمین اردو نہیں جانتے تھے اور انہوں نے بس مولانا قصوری کی ہاں میں ہاںملاتے ہوئے تصدیق کردی جبکہ یہ بات سراسر حقائق کے منافی ہے۔تقدیس الوکیل کے مویدین و مصدقین میں گنگوہی صاحب کے پیرو مرشدجناب حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کے علاوہ علامہ عبدالحق الہ آبادی مہاجر مکی بھی شامل ہیں ۔یہ حضرات تو اردو سے اچھی واقفیت رکھتے تھے بلکہ بقول عاشق الٰہی میرٹھی، علامہ عبدالحق الہ آبادی کے تو گنگوہی صاحب سے مراسم بھی تھے۔ (تذکرۃ الرشید،حصہ اول،ص:۹۲)شیخ الاسلام علامہ انواراللہ (بانی جامعہ نظامیہ،حیدرآباد،دکن)بھی اس کتاب کے مصدقین میں شامل ہیں۔
عرب علماء میں سے مفتی محمد صالح کمال حنفی مکی،مفتی محمدسعید شافعی مکی،مفتی محمد عابد حسین مالکی مکی،مفتی خلف بن ابراہیم حنبلی مکی اور مفتی عثمان بن عبدالسلام حنفی مدنی صاحب نے مولاناقصوری کی اس کاوش کو بہت سراہا۔
۱۸۔فتح الرحمانی بہ دفع کید کادیانی [۱۳۱۵ھ]
یہ رسالہ ۱۳۱۵ھ میں مولانا مشتاق احمد حنفی چشتی کے رسالہ’’التقریر الفصیح فی تحقیق نزول المسیح‘‘کے ہمراہ لودیانہ سے شائع ہوا۔یہ رسالہ مولانا قصوری نے قادیانیت کی طرف سے شائع ہونے والے ایک اشتہار بنام’’اشتہارصداقت آثار‘‘ ازمرزاحکیم رحمت اللہ مطبوعہ لودھیانہ کے جواب میں تحریر فرمایا۔ اس اشتہار کے متعلق مولانا قصوری تحریر فرماتے ہیں:
’’جس میں بڑے زوروشورسے مرزا قادیانی کے بالقاء ربانی مسیح موعود و مہدی مسعود ہونے کو آفتاب نصف النہار کی طرح ثابت مان کر منکرین کو بے علم مولوی وغیرہ وغیرہ ناشائستہ کلمات سے موصوف کر کے اس کی پیشانی پر’’اشتہارصداقت آثار‘‘لکھا ہے اور فی الواقع بتقلید ازالۂ اوہام قادیانی کے از سرتا پامحض کذب و افتراء سے کارروائی کی ہے چونکہ اس اشتہار میں اولاً واصالتاً علما امرتسرو لودھیانہ مخاطب ہیں اور اس کے جواب کی ان سے درخواست کی ہے اس لئے فقیر نے اس کے جواب میں تعویق کی اور کئی دوستوں کو اس کے بعضے بہتانات پرمطلع کرکے اصل واقعہ پراطلاع دی تھی اب ۱۲شوال۱۳۱۴ھ میں جو فقیرایک دینی کام کے انجام کولودھیانہ میں وراد ہوا تو سنا گیا کہ حضرات علماء لودیانہ کی طرف سے کسی مصلحت کے واسطے اس کا جواب نہیں دیا گیا اس پر غیرت دینی نے جوش دلایا کہ ان جعلسازوں اور افتراپردازوں کا بقدرضرورت ضرور ہی جواب شائع کرنا بلکہ مرزا کے تین سو تیرہ حواری مندرجہ ضمیمہ رسالہ ’’انجام آتھم‘‘کوپہنچانا لازم ہے تا کہ ان کی واقعی تبکیت اور عجز ثابت ہو اور یہ عذر نہ رہے کہ کسی نے اس مسیح کاذب کے دلائل کونہیں توڑا۔واللہ ھوا لھادی‘‘ (فتح رحمانی بہ دفع کید کادیانی:۵ مطبوعہ مطبع احمدی،لودیانہ)
اس کتاب کی ایک تاریخی اہمیت اس وجہ سے بھی ہے کہ مرزا قادیانی نے اپنی بیشتر تصانیف میں مولانا قصوری کے متعلق جھوٹ باندھا کہ’’مولوی غلام دستگیر صاحب قصوری نے اپنی کتاب’فتح رحمانی‘ میں اپنے طور پر میرے ساتھ مباہلہ کیا اور یہ دعا کی کہ دونوں میں سے جو جھوٹا ہے خدا اس کو ہلاک کردے۔‘‘(لیکچر،لاہور:۴۷،روحانی خزائن،جلد۲۰،ص:۱۹۳)ایک جگہ یوں لکھا :
’’مولوی غلام دستگیرقصوری نے اپنی کتاب میں اور مولوی اسمعیل علی گڑھ والے نے میری نسبت قطعی حکم لگایا کہ اگروہ کاذب ہے تو ہم سے پہلے مرے گا اور ضرور ہم سے پہلے مرے گا کیونکہ کاذب ہے۔مگرجب ان تالیفات کو دنیا میں شائع کر چکے توپھر بہت جلد آپ ہی مر گئے۔‘‘(ضمیمہ تحفۂ گولڑویہ:۹،روحانی خزائن،ج۱۷،ص:۴۵)
مرزا قادیانی نے اپنی دیگر کتب میں بھی بارہا اس کا ذکر کیااور اس کے حواریوں نے بھی بہت پروپیگنڈہ کیا مگر آج تک مرزا اور اس کی ذرّیت اپنے اس دعوی کو ثابت نہیں کرسکی۔’فتح رحمانی ‘میں کہیں بھی ان الفاظ سے دعانہیں ملتی ’’دونوں میں سے جوجھوٹا ہے خدا اس کو ہلاک کردے‘‘۔البتہ مولانا قصوری کی دعا کے یہ الفاظ ضرور موجود ہیں:
’’اللھم یاذالجلال والاکرام یا مالک الملک جیسا کہ تُونے ایک عالم ربانی حضرت محمد طاہر مؤلف’’مجمع بحارالانوار‘‘کی دعا اور سعی سے اس مہدی کاذب اور جعلی مسیح کا بیڑا غارت کیا تھا ویسا ہی دعا و التجاء اس فقیر قصوری کان اللہ لہ سے مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کو توبہ نصوح کی توفیق رفیق فرما اور اگر یہ مقدر نہیں تو ان کو مورد اس آیت فرقانی کا بنا فقطع دابر القوم الذین ظلموا۔والحمدللہ رب العلمین انک علی کل شئی قدیر وبالاجابۃ جدیر۔امین‘‘(فتح رحمانی بہ دفع کید کادیانی:۲۶مطبوعہ مطبع لودیانہ)
۱۹۔تحریف قرآن کا جواب
یہ کتاب عیسائیت کے رد میں تحریر فرمائی اور انجمن حمایت اسلام ،لاہورنے اس کو طبع کیا۔مولف تذکرۂ علمائے اہل سنت (محمود کانپوری)نے اس کا سن اشاعت ۱۸۷۸ء تحریر کیا ہے(تذکرہ علماء اہل سنت:۲۰۶مطبوعہ خانقاہ قادریہ اشرفیہ،بہار)
۲۰۔تصدیق المرام بتکذیب قادیانی ولیکھرام
اس کتاب کے متعلق مولانا اپنی کتاب ’’فتح رحمانی بہ دفع کید کادیانی‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:
’’فقیر نے رمضان المبارک میں اس (قادیانی) کے اشتہار کی تردید میں بہت سی تصانیف مرزا قادیانی سے اس کے کھلے کھلے دعوی نبوت کے اور نیز توہین انبیاء کرام جو سبب ہے اس کی تکفیرکا،ثابت کر دیے ہیں اور ان شاء اللہ العزیز وہ تمام مضمون ایک کتاب موسوم بنام’’تصدیق المرام بتکذیب قادیانی و لیکھرام‘‘میں شائع ہوں گے جس سے سب پر ظاہر و باہر ہو جائے گا کہ مرزا جی باوصف ان دعوی نبوت و توہین انبیاء کے ہرگز کلمہ گو اور اہل قبلہ متصور نہیں ہیں-نعوذباللہ من الحوربعدالکور‘‘(فتح رحمانی بہ دفع کید کادیانی:۳مطبوعہ مطبع احمدی لدھیانہ)
۲۱۔جواب اعتراضات بر تحفہ رسولیہ
مولانا نے ہدیۃ الشیعتین ،صفحہ۸پر لکھا ہے کہ انہوں نے ایک کتاب بجواب اعتراضات بر تحفہ رسولیہ تحریر کی ہے۔تاہم تفصیلات معلوم نہ ہو سکیں۔
۲۲۔ذکر خیر حضرت قصوری
اس کتاب کا ذکر مولانا اقبال احمد فاروقی صاحب زید شرفہ نے اپنی کتاب ’’تذکرہ علمائے اہل سنت لاہور‘‘صفحہ ۱۴۰میں حضرت میاں غلام محی الدین قصوری کے احوال میں کیا ہے۔جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس کتاب کا موضوع حضرت میاں غلام محی الدین قصوری دائم الحضوری علیہ الرحمۃ کے حالات بابرکات ہے۔
۲۳۔حقیقۃ الصلوٰۃ مع رسالہ بے نمازاں
۱۳۹۴ھ میں مطبع نظامی ،کانپور سے طبع ہوئی ۔کل صفحات ۲۸ہیں۔پنجاب یونیورسٹی کی شیخ زید اسلامک لائبریری کی فہرست میں اس کتاب کو مولانا کی تصانیف میں شمار کیا ہے ۔اور اس کا نمبر۲۵۰۴ ہے۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.