You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
قائدین تحریک آزادی قسط ۴
علامہ فضل حق خیرآبادی جنگ آزادی ۱۸۵۷ء کے محرک اوّل
مرتب:عطاء الرحمن نوری مبلغ سنی دعوت اسلامی،مالیگائوں
تحریک آزادی کے محرک اوّل حضرت علامہ فضل حق خیرآبادی (متولد ۱۲۱۲ھ/۱۷۹۷۔متوفی ۱۲۷۸/۱۸۶۱ء )کی ولادت دہلی کی صدرالصدور حضرت علامہ فضل امام فاروقی خیرآبادی کے یہاں ہوئی۔آپ نے اپنے والد ، حضرت شاہ عبدالقادر محدث دہلوی اور حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے تعلیم وتربیت حاصل کی۔تیرہ سال کی عمر میں علوم نقلیہ وعقلیہ کی تکمیل کر لی۔آ پ ایک یگانۂ روزگار عالم تھے۔عربی زبان کے مانے ہوئے ادیب اور شاعر تھے۔علوم عقلی کے امام اور مجتہد تھے۔اور ان سب سے بالا یہ خصوصیت تھی کہ وہ بہت بڑے سیاست داں ،مفکر اور مدبر بھی تھے۔مسند درس پر بیٹھ کر علوم وفنون کی تعلیم دیتے اور ایوان حکومت میں پہنچ کر دوررَس فیصلے کرتے تھے۔آپ بہادر وشجاع بھی تھے۔صدرالصدور ،حضور تحصیل ،سر رشتہ دار اور دیگر کئی بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے۔محمد حسین آزاد مرزاغالبؔ کے دیوان کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ علامہ فضل حق خیرآبادی نے ہی مرزا غالبؔ کے دیوان سے مشکل اشعار نکال کر اسے ایسا بنا دیا کہ لوگ آج اسے عینک کی طرح آنکھوں سے لگائے پھرتے ہیں۔(آب حیات)دہلی میں علماء کی دو جگہ نشست تھی۔ایک علامہ فضل حق کے یہاں اور دوسرے مفتی صدرالدین آزردہ ؔ کے دولت کدہ پر۔علامہ کے علمی دربار میں آٹھویں روز شعرائے دہلی کا اجتماع ہوتا تھا۔غالبؔ، صہبائی ؔ،مومنؔ،آزردہؔ، احسانؔ، نیرؔ، نثارؔ، شیفتہؔ، ضمیرؔ، ممنونؔ، نصیرؔ، وغیرھم۔اور علماء میں وقت کے جید اور جلیل القدر علماء کا جم غفیر ہوتا تھا۔علامہ عبدالشاہد شیروانی لکھتے ہیں کہ ’’اندازہ لگائیے کہ اکبر بادشاہ کے شاہی دربار سے یہ دربار کسی طرح کم تھا؟ بادشاہ نے لاکھوں روپئے صرف کرکے نورتن جمع کیے تھے اور ان شاہان علم نے اپنے حسن اخلاق سے سینکڑوں باکمال حضرات کو درباری بنالیا تھا۔‘‘(باغی ہندوستان)
انقلاب ۱۸۵۷ء میں علامہ فضل حق خیرآبادی نے کلیدی رول ادا کیا۔مولانا محمد شاہد شیروانی،علامہ یاسین اختر مصباحی اور مولانا خوشتر نورانی صاحب نے علامہ کی انقلابی سرگرمیوں کاتذکرہ مختلف حوالاجات سے اس طرح کیا ہے۔علامہ نے دہلی کے مرکز جہاد میں بھی حصہ لیا اور اودھ کے مرکز جہاد میں بھی۔(مسل مقدمہ مولوی فضل حق)معرکۂ ستاون کے دوران بہادر شاہ ظفر کو علامہ مخلصانہ مشورہ دیتے رہے اور بہادر شاہ اس اعتماد کی بنا پر جو اسے علامہ کے اخلاص اور ان کی اصابت رائے پر تھا،ان مشوروں پر عمل کیا کرتے تھے۔(مختلف دستاویزات)مجاہدین کی اعانت روپئے اور سامان رسدسے، اہل کار حکام کا تقرر،مال گزاری کی تحصیل کا انتظام اور ہمسایہ والیان ریاست کو جنگ میں اعانت وشرکت کی دعوت کے لیے لال قلعہ کے دارالانشاء (سیکریٹریٹ)سے علامہ کے حکم سے بہت سے پروانے جاری ہوئے۔(میموائرس آف حکیم احسن اللہ خاں)دہلی پر انگریزوں کا کامل تسلط ۱۸۰۳ء میں شاہ عالم ثانی کے عہد میں ہوچکا تھااور مغل بادشاہت برائے نام رہ گئی تھی۔ستاون کا انقلاب برپا ہونے کے بعد علامہ نے بہادر شاہ کی شہنشاہی کو دستوری حکومت اور آئینی بادشاہت میں تبدیل کرنے کے لیے باقاعدہ ایک دستورالعمل بنایا جس کا نفاذ بھی عمل میں آیا۔(تاریخ عروج انگلشیہ مولفہ مولوی ذکاء اللہ )غیر ملکی غاصبوںکے خلاف اہل وطن کی متفقہ جدوجہد کے لیے علامہ نے ہندومسلم اتحاد کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔(مرجع سابق)علامہ دیگر علمائے دہلی کے ساتھ جلسے کرکرکے ترغیب جہاد کے لیے وعظ کرتے رہے کہ حملے کی شکل میں دارالاسلام کو بچانے کی فکروکوشش شرعاً واجب ہے۔(اخبار دہلی از چنی لال)معرکے کے دوران علامہ نے شاہی فوج کی کمان بھی کی ۔(بہادر شاہ دوم)بہادر شاہ نے جنگ کے ایام میں سہ رکنی ’’کنگ کونسل‘‘بنائی جس کے ایک رکن علامہ بھی تھے۔(دی گریٹ ریولیوشن آف 1857)علامہ نے سلطنت کاجو دستور العمل بنایاتھا اس کے نفاذ کے لیے ایک مجلس منتظمہ تشکیل دی گئی،جس کا ڈائرکٹر(نگراں)علامہ کو بنایاگیا۔(بائی لاز ایڈمنسٹریشن کورٹ)۱۹؍ستمبر کو دہلی پر انگریزی حکومت کا قبضہ ہوجانے کے بعد علامہ اودھ میں بیگم حضرت محل کے ساتھ سرگرم ہوگئے۔(مسل مقدمہ مولوی فضل حق)
مئی ۱۸۵۷ء میں میرٹھ اور دوسری چھائونیوں میں کارتوسوں کا قضیہ زور پکڑ چکا تھا۔گائے اور سور کی چربی کی آمیزش کی خبر سے مسلم اور ہندوفوجی بگڑ بیٹھے تھے۔علامہ عبدالشاہد شیروانی لکھتے ہیں:’’علامہ سے جنرل بخت خاں ملنے پہنچے۔مشورہ کے بعد علامہ نے آخری تیر ترکش سے نکالا۔بعد نماز جمعہ جامع مسجد (دہلی)میں علما کے سامنے تقریر کی۔استفتا پیش کیا۔مفتی صدرالدین آزردہ،مولوی عبدالقادر،قاضی فیض اللہ دہلوی، مولانا فیض احمد بدایونی، ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبرآبادی اور سید مبارک شاہ رام پوری نے دستخط کیے۔اس فتوی کے شائع ہوتے ہی ملک میں عام شورش بڑھ گئی۔دہلی میں نوے ہزار سپاہ جمع ہوگئی تھی۔(باغی ہندوستان)۱۴؍ستمبر ۱۸۵۷ء کو ایسٹ انڈیاکمپنی نے دہلی پر پوری طاقت وقوت کے ساتھ حملہ کیا اور دہلی پر مکمل ان کا قبضہ ہوگیا۔بہادر شاہ ظفر گرفتار کر لیے گئے ۔۱۸۵۹ء میں علامہ فضل حق خیرآبادی پر لکھنؤ میں مقدمہ چلا۔سرکاری وکیل کے مقابل خود علامہ صاحب بحث کرتے تھے۔بلکہ لطف یہ تھا کہ چند الزامات خود اپنے اوپر قائم کرتے اور پھر خود مثل تارِ عنکبوت عقلی وقانونی ادلّہ سے توڑ دیتے۔جج یہ رنگ دیکھ کر پریشان تھااور ان سے ہم دردی بھی تھے۔کرے تو کیا کرے؟ظاہر یہ ہورہاتھا کہ مولانا بری ہوجائیں گے۔غدر کے بعد نہ جانے کتنے سورمااور رزم آرا ایسے تھے جو گوشۂ عافیت کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے تھے۔لیکن مولانا ان لوگوں میں سے تھے جو اپنے کیے پر نادم اور پشیمان نہیں تھے۔آپ نے سوچ سمجھ کر میدان جہاد میں قدم رکھاتھا۔اپنے اقدام کے نتائج برداشت کرنے کے لیے آپ حوصلہ مندی اور دلیری کے ساتھ تیار تھے۔سراسیمگی، دہشت اور خوف یہ ایسی چیزیں تھیں جن سے مولانا بالکل ناوقف تھے۔ آپ نے بھرے مجمع میں حق گوئی و بے باکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایاکہ جس مخبر نے فتویٰ کی خبر دی ،وہ فتویٰ صحیح ہے۔میرالکھا ہواہے اور آج اس وقت بھی میری وہی رائے ہے۔چنانچہ آپ کو کالا پانی کی سزاہوئی۔
علامہ فضل حق خیرآبادی امام لحکمۃ والکلام وقائد جنگ آزادی ہونے کے ساتھ بلند پایہ مصنف بھی تھے۔دردرجن آپ کی تصانیف ہے۔منطق و فلسفہ کے دقیق فنی مباحث پر آپ کی کئی ایسی تصانیف وحواشی ہیںجنھیں آج چند علما ہی سمجھ پائیں گے۔علامہ صاحب نے قید تنہائی میں رہتے ہوئے ’’الثورۃ الہندیہ‘‘(باغی ہندوستان)تحریر کی جو انقلاب آزادی کا ایک مستند ترین ماخذ ہے۔’’الثورۃ الہندیہ‘‘ اور’’ قصائد فتنۃ الہند ‘‘(منظوم)کو علامہ نے جزیرۂ انڈمان (کالا پانی)سے ۱۸۶۰ء میں بذریعہ حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی اپنے فرزند مولاناعبدالحق خیرآبادی کے پاس کوئلہ اور پنسل سے کپڑاوغیرہ لکھ کر بحفاظت تمام بھیجاتھا۔اس کتاب پر مولانا ابوالکلام آزاد نے تعارف لکھا اور مولانا محمد عبدالشاہد خاں شیروانی نے ۱۹۴۶ء کو ترجمہ کرکے شائع کیا۔
جس دن آپ کے صاحبزادے اور معتقدین رہائی کا پروانہ لے کر کالا پانی پہنچے تو ایک جنازہ پر نظر پڑی،بڑازدحام تھا،معلوم ہواکہ ۱۲؍صفر ۱۲۷۸ھ/۱۸۶۱ء کو علامہ کا انتقال ہوگیا ہے۔اب سپرد خاک کر نے جا رہے ہیں۔(غدر کے چند علما)آپ پر کئے گئے ظلم وستم کی لرزہ خیز داستان بتاتے ہوئے علامہ صاحب لکھتے ہیں کہ :’’دشمن کے ظلم وستم نے مجھے دریائے شور کے کنارے ایک بلند و مضبوط، نا موافق ہوا والے پہاڑ پر پہنچادیاجہاں سورج ہمیشہ سر پر رہتا تھا۔اس میںدشوار گزار راہیں اور گھاٹیاں تھیں،جنھیں دریائے شور کی نہریں ڈھانپ لیتی تھیں،اس کی نسیم ِ صبح بھی گرم وتیز ہواسے زیادہ سخت اور اس کی نعمت زہر ہلاہل سے زیادہ مضرتھی۔اس کی غذہ حنظل سے زیادہ کڑوی،اس کا پانی سانپوں کے زہر سے بڑھ کر ضرر رساں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہوا بدبودار اور بیماریوں کا مخزن تھی۔مرض سستا اور دواگراں۔بیماریاں بے شمار،خارش وقوباء (وہ مرض جس سے بدن کی کھال پھٹنے اور چھلنے لگتی ہے)عام تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہاں کی معمولی بیماری بھی خطرناک ہے۔بخار موت کا پیغام،مرض سرسام اور برسام(دماغ کے پردوں کا ورم)ہلاکت کی علت تام ہے۔بہت مرض ایسے ہیں جن کا کتب طب میں نام ونشان نہیں۔نصرانی ماہر طبیب مریضوں کی آنتوں کو تنور کی طرح جلاتااور مریض کی حفاظت نہ کرتے ہوئے آگ کا قبہ اس کے اوپر بناتا ہے۔مرض نہ پہچان تے ہوئے دواپلا کر موت کے منھ کے قریب پہونچادیتا ہے۔جب کوئی ان میں سے مرجاتا ہے تو نجس وناپاک خاکروب جو درحقیقت شیطانِ خناس یادیو ہوتا ہے اس کی ٹانگ پکڑ کر کھینچتا ہواغسل وکفن کے بغیر اس کے کپڑے اتار کر ریت کے تودے میںدبا دیتا ہے۔نہ اس کی قبر خودی جاتی ہے ،نہ نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر مسلمان کی خود کشی مذہب میں ممنوع اور قیامت کے دن عذاب وعتاب کو باعث نہ ہوتی تو کوئی بھی یہاں قید ومجبور بناکر تکلیف مالایطاق نہ دیا جاسکتا اور مصیبت سے نجات پالینا بڑاآسان ہوتا۔(باغی ہندوستان،ص۷۹)[ماخوذ: الثورۃ الہندیہ (باغی ہندوستان،از:مولانا محمد شاہد خان شیروانی)،علامہ فضل حق اور انقلاب ۱۸۵۷،چند ممتاز علمائے انقلاب ۱۸۵۷ئ،۱۸۵۷ پس منظر وپیش منظر،علمائے اہلسنّت کی بصیرت وقیادت از:علامہ یاسین اختر مصباحی ،علامہ فضل حق خیرآبادی چند عنوانات از:خوشتر نورانی]
عطا ء الرحمن نوری(ایم اے، جرنلسٹ) مالیگائوں،ضلع ناسک ۔۴۲۳۲۰۳،مہاراشٹر(انڈیا)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.