You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
وہ سرورِ کشورِ رِسالت جو عرش پر جَلوہ گَر ہوئے تھے
نئے نِرالے طَرَب [1] کے ساماں عَرَب کے مہمان کے لئے تھے
بہار ہے شادیاں مُبارَک چمن کو آبادیاں مُبارَک
مَلک فلک اپنی اپنی لے۲ میں یہ گھر۳ عنادِل۴ کا بولتے تھے
وہاں فلک پر یہاں زمیں میں رَچی تھی شادی مچی تھی دُھومیں
اُدھرسے اَنوار ہنستے آتے اِدھر سے نَفْحات۵ اُٹھ رہے تھے
یہ چُھوٹ پڑتی تھی اُنکے رُخ کی کہ عرش تک چاندنی تھی چھٹکی ۶
وہ رات کیا جگمگا رہی تھی جگہ جگہ نَصْب آئنے تھے
نئی دُلھن کی پَھبن میں کعبہ نکھر کے سَنْورا سَنْورکے نکھرا
حَجر کے صدقے کمر کے اِک تِل میں رنگ لاکھوں بناؤ کے تھے
نظر میں دُولھا کے پیارے جلوے حَیا سے محراب سَر جھکائے
سیاہ پَردے کے مُنھ پہ آنچل تجلّی ذات بَحْت سے تھے
----------------------------------------------------------------------
([1])...خوشی، شادمانی۔ (2)...لہجہ، سُر۔ (3)...خوش الحان پرند کی آواز، نغمۂ بلبل۔ (4)...عَنْدلیب کی جمع، بلبل۔ (5)...نفح کی جمع، خوشبو۔ (6)...پھیلی ہوئی۔
----------------------------------------------------------------------
خوشی کے بادل اُمَنْڈ کے آئے دِلوں کے طاؤس [1] رنگ لائے
وہ نغمۂ نعت کا سَماں تھا حَرَم کو خود وَجْد آ رہے تھے
یہ جُھوما میزابِ زَر2 کا جُھومَر کہ آ رہا کان پر ڈھلک کر
پُھوہار برسی تو موتی جھڑ کر حَطِیم3 کی گود میں بَھرے تھے
دُلھن کے خُوشبو سے مَسْت کپڑے نسیم گستاخ آنچلوں سے
غِلافِ مشکیں جو اُڑ رہا تھا غزال4 نافے5 بسا رہے تھے
پہاڑیوں کا وہ حُسْنِ تزئیں وہ اُونچی چوٹی وہ ناز و تمکیں!
صبا سے سبزے میں لہریں آتیں دوپٹے دَھانی چُنے ہوئے تھے
نہا کے نہروں نے وہ چمکتا لِباس آبِ رَواں کا پہنا
کہ موجیں چَھڑیاں تھیں، دَھار لچکا، 6 حَبابِ7 تاباں کے تھل8 ٹکے تھے
پُرانا پُرداغ ملگجا تھا اُٹھا دیا فرش چاندنی کا
ہجوم تارِ نِگہ سے کوسوں قدم قدم فرش بادْلے تھے
----------------------------------------------------------------------
(1)...ایک خوشنما پرندے کا نام جو بڑے مرغ کے برابر ہوتا ہے اس کی دُم پر سبز و سنہری نِشان بنے ہوتے ہیں، مَور۔ (2)...کعبة الله شریف کا سونے کا پرنالہ، اس سے بارش کا پانی حطیم میں نچھاور ہوتا ہے۔ [رفیق الحرمین، ص۶۲، ملتقطاً] (3)...کعبہ معظّمہ کی شمالی دیوار کے پاس نِصْف (یعنی آدھے) دائرے (Half circle) کی شکل میں فصیل (یعنی باؤنڈری) کے اندر کا حصّہ۔ حطیم کعبہ شریف ہی کا حصّہ ہے اور اس میں داخِل ہونا عین کعبة الله شریف میں داخِل ہونا ہے۔ [رفیق الحرمین، ص۶۱] (4)...ہرن۔ (5)...ایک خاص ہرن کے پیٹ کی تھیلی جس میں مشک ہوتا ہے۔ (6)...ایک قسم کا پتلا گوٹا۔ (7)...بلبلا۔ (8)...غول، گروہ۔
----------------------------------------------------------------------
غُبار بن کر نِثار جائیں کہاں اب اُس رَہ گزر کو پائیں
ہمارے دِل حوریوں کی آنکھیں فِرِشتوں کے پَر جہاں بچھے تھے
خدا ہی دے صبر جانِ پُرغم دِکھاؤں کیوں کر تجھے وہ عالَم
جب اُن کو جھرمٹ میں لے کے قدسی جِناں[1] کا دُولھا بنا رہے تھے
اُتار کر اُن کے رُخ کا صَدقہ یہ نور کا بَٹ رہا تھا باڑا2
کہ چاند سورج مچل مچل کر جبیں3 کی خیرات مانگتے تھے
وُہی تو اب تک چھلک رہا ہے وُہی تو جوبن4 ٹپک رہا ہے
نہانے میں جو گِرا تھا پانی کٹورے تاروں نے بَھر لیے تھے
بچا جو تلووں کا اُن کے دَھووَن بنا وہ جنت کا رنگ و روغن
جنھوں نے دُولھا کی پائی اُترن وہ پھول گلزارِ نُور کے تھے
خبر یہ تحویل مہر کی تھی کہ رُت سُہَانی گھڑی پھرے گی
وہاں کی پوشاک زیب تن کی یہاں کا جوڑا بڑھا چکے تھے
تجلّی حق کا سہرا سر پر صلوٰۃ و تسلیم کی نچھاوَر
دو رُوْیَہ5 قُدسی پَرے جما کر کھڑے سلامی کے واسطے تھے
جو ہم بھی واں6 ہوتے خاکِ گلشن لپٹ کے قدموں سے لیتے اُترن
مگر کریں کیا نصیب میں تو یہ نامُرادی کے دِن لکھے تھے
----------------------------------------------------------------------
([1])...جنت کی جمع۔ (2)...خیرات۔ (3)...پیشانی مُبارَک۔ (4)...خوبصورتی، حسن وجمال۔ (5)...دونوں جانِب۔ (6)...وہاں کا مخفف۔
----------------------------------------------------------------------
ابھی نہ آئے تھے پُشْتِ زیں تک کہ سَر ہوئی مغفرت کی شِلِّک
صَدا شَفاعت نے دی مُبارَک! گناہ مستانہ جھومتے تھے
عجب نہ تھا رخش کا چمکنا غَزالِ دَم خُوردَہ سا بھڑکنا
شعاعیں بُکے اُڑا رہی تھیں تڑپتے آنکھوں پہ صاعقے تھے
ہجومِ اُمید ہے گھٹاؤ مُرادیں دے کر انھیں ہٹاؤ
اَدَب کی باگیں لیے بڑھاؤ ملائکہ میں یہ غُلغُلے[1] تھے
اُٹھی جو گَردِ رَہِ منوَّر وہ نُور بَرسا کہ راستے بَھر
گھِرے تھے بادل بھرے تھے جل تھل اُمَنْڈ کے جنگل اُبل رہے تھے
سِتَم کیا کیسی مَت کٹی تھی قمر! وہ خاک اُن کے رَہ گزر کی
اُٹھا نہ لایا کہ مَلتے مَلتے یہ داغ سب دیکھتا مِٹے تھے
بُراق کے نقشِ سُم 2 کے صدقے وہ گُل کِھلائے کہ سارے رَستے
مہکتے گُلبَن3 لہکتے گلشن ہرے بھرے لہلہا رہے تھے
نمازِ اَقصیٰ میں تھا یہی سِرّ4 عِیاں ہوں معنی اَوّل آخِر
کہ دَست بَستہ ہیں پیچھے حاضِرجو سلطنت آگے کر گئے تھے
یہ اُن کی آمد کا دَبدَبہ تھا نِکھار ہر شے کا ہو رہا تھا
نُجُوم و اَفلاک جام5 و مینا6 اُجالتے7 تھے کھنگالتے تھے
----------------------------------------------------------------------
([1])...شہرت، چرچا۔ (2)...کُھر۔ (3)...گلاب کا پودا۔ (4)...راز، بھید۔ (5)...پیالہ۔ (6)...صُراحی۔ (7)...صاف کرتے۔
----------------------------------------------------------------------
نِقاب اُلٹے وہ مہرِ انور جَلالِ رُخسار گرمیوں پر
فلک کو ہیبت سے تپ[1] چڑھی تھی تپکتے انجم 2 کے آبلے تھے
یہ جوشِشِ 3 نُور کا اثر تھا کہ آبِ گوہر کمر کمر تھا
صفائے رَہ سے پھسل پھسل کر سِتارے قدموں پہ لوٹتے تھے
بڑھا یہ لہرا کے بحرِ وَحدت کہ دُھل گیا نام ریگِ کثرت
فلک کے ٹیلوں کی کیا حقیقت یہ عَرش و کُرسی دو بلبلے تھے
وہ ظِلِّ رَحْمت وہ رُخ کے جَلْوے کہ تارے چھپتے نہ کھلنے پاتے
سنہری زَرْ بَفْت4 اُودِی اَطلس 5 یہ تھان6 سب دُھوپ چھاؤں کے تھے
چلا وہ سروِ چَمَاں خِراماں نہ رُک سکا سِدْرَہ سے بھی داماں
پَلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب اِین و آں سے گزر چکے تھے
جھلک سی اِک قُدسیوں پر آئی ہوا بھی دامن کی پِھر نہ پائی
سُواری دُولھا کی دُور پہنچی بَرات میں ہوش ہی گئے تھے
تھکے تھے رُوْحُ الْاَمیں کے بازو چُھٹا وہ دامن کہاں وہ پہلو
رِکاب چھوٹی اُمید ٹوٹی نِگاہِ حسرت کے ولولے تھے
----------------------------------------------------------------------
([1])...بخار۔ (2)...نجم کی جمع، ستارے۔ (3)...تیزی، طغیانی۔ (4)...ایک کپڑا جو سونے اور ریشم کے تاروں سے بُنا جاتا ہے۔ (5)...اُوْدِی اَطلس: سرخی لئے ہوئے کالے رنگ کا ریشمی کپڑا۔ (6)...کپڑے۔
----------------------------------------------------------------------
رَوِش[1] کی گرمی کو جس نے سوچا دِماغ سے اِک بَھبُوکا2 پُھوٹا
خِرَد3 کے جنگل میں پھول چمکا دَہر دَہر پیڑ4 جَل رہے تھے
جِلو میں جو مُرغِ عقل اُڑے تھے عجب بُرے حالوں گرتے پڑتے
وہ سدرہ ہی پر رہے تھے، تھک کر چڑھا تھا دَم، تَیوَر آ گئے تھے
قوی تھے مُرغانِ وَہم کے پَر اُڑے تو اُڑنے کو اَور دَم بھر
اُٹھائی سینے کی ایسی ٹھوکر کہ خونِ اندیشہ تُھوکتے تھے
سنا یہ اتنے میں عرشِ حَق نے کہ لے مبارَک ہو تاج والے
وہی قدم خیر سے پِھر آئے جو پہلے تاجِ شَرَف تِرے تھے
یہ سن کے بےخود پکار اُٹھا نِثار جاؤں کہاں ہیں آقا
پھر اُن کے تلوو ں کا پاؤں بوسہ یہ میر ی آنکھو ں کے دِن پھرے تھے
جھکا تھا مجرے5 کو عرشِ اعلیٰ گِرے تھے سجدے میں بزمِ بالا
یہ آنکھیں قدموں سے مَل رہا تھا وہ گِرد قربان ہو رہے تھے
ضِیائیں6 کچھ عرش پر یہ آئیں کہ ساری قِندِیلیں7 جھلملائیں
حُضُورِ خورشید8 کیا چمکتے چراغ مُنھ اپنا دیکھتے تھے
----------------------------------------------------------------------
([1])...رفتار۔ (2)...آگ کا شعلہ، انگارا۔ (3)...عقل۔ (4)...درخت۔ (5)...سلام و آداب۔ (6)...روشنیاں۔ (7)...ایک قسم کا شیشے کا ظرف جس میں بتی روشن کر کے چھت میں زنجیروں سے لٹکا دیتے ہیں۔ (8)...سورج۔
----------------------------------------------------------------------
یہی سَمَاں تھا کہ پَیکِ رَحمت خبر یہ لایا کہ چلیے حضرت
تمہاری خاطر کشادہ ہیں جو کلیم پر بند راستے تھے
بڑھ اے مُحَمَّد، قریں[1] ہو احمد، قریب آ سرورِ مُمَجَّد2
نِثار جاؤں یہ کیا نِدا تھی، یہ کیا سَمَاں تھا، یہ کیا مزے تھے
تَبَارَکَ اللہ شان تیری تجھی کو زیبا ہے بے نیازی
کہیں تو وہ جوشِ لَنْ تَرَانی3 کہیں تقاضے وِصال4 کے تھے
خِرَد5 سے کہدو کہ سر جھکا لے گماں سے گزرے گزرنے والے
پڑے ہیں یاں6 خود جِہَت7 کو لالے کسے بتائے کدھر گئے تھے
سُراغِ اَین8 و مَتٰی9 کہاں تھا نِشانِ کیف10 و اِلیٰ11 کہاں تھا
نہ کوئی راہی نہ کوئی ساتھی نہ سنگِ منزل12 نہ مرحلے تھے
اُدھر سے پیہم13 تقاضے آنا اِدھر تھا مُشکل قدم بڑھانا
جلال و ہیبت کا سامنا تھا جمال و رَحْمت اُبھارتے تھے
----------------------------------------------------------------------
([1])...نزدیک، پاس۔ (2)...بزرگی والے۔ (3)...اُس واقعے کی طرف اشارہ ہے کہ جب حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے دیدار کی تمنا کی تھی اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے فرمایا تھا: ”لَنْ تَرَانِی یعنی تُو مجھے ہرگز نہ دیکھ سکے گا۔“ (4)...ملاقات۔ (5)...عقل۔ (6)...یہاں کا مخفف۔ (7)...سمت۔ (8)...ظرفِ مکان، کہاں۔ (9)...کب۔ (10)...کیسے۔ (11)...کہاں تک۔ (12)...پتھر کا وہ نشان جو منزل کا پتا دیتا ہے۔ (13)...مسلسل۔
----------------------------------------------------------------------
بڑھے تو لیکن جھجھکتے ڈرتے حیا سے جھکتے ادب سے رُکتے
جو قرب انھیں کی رَوِش[1] پہ رکھتے تو لاکھوں منزل کے فاصلے تھے
پَر انکا بڑھنا تو نام کو تھا حقیقۃً فعل تھا اُدھر کا
تَنَزُّلوں میں ترقی اَفزا دَنیٰ تَدَلّٰے کے سلسلے تھے
ہوا نہ آخر کہ ایک بجرا2 تَمَوُّجِ بَحرِ ہُو میں اُبھرا
دَنیٰ کی گودی میں اُن کو لے کر فنا کے لنگر اُٹھا دِیے تھے
کسے ملے گھاٹ کا کنارا کدھر سے گزرا کہاں اُتارا
بھرا جو مثل نَظَر طَرارا وہ اپنی آنکھوں سے خود چُھپے تھے
اُٹھے جو قصرِ دَنیٰ کے پَردے کوئی خبر دے تو کیا خبر دے
وہاں تو جا ہی نہیں دُوئی کی نہ کہہ کہ وہ بھی نہ تھے اَرے تھے
وہ باغ کچھ ایسا رنگ لایا کہ غنچہ3 و گُل کا فرق اُٹھایا
گِرہ میں کلیوں کی باغ پُھولے گُلوں کے تکمے 4 لگے ہوئے تھے
محیط و مرکز میں فرق مشکل رہے نہ فاصِل5 خُطُوطِ واصِل6
کمانیں حیرت میں سر جھکائےعجیب چکر میں دائرے تھے
حِجاب اُٹھنے میں لاکھوں پردےہر ایک پردے میں لاکھوں جلوے
عجب گھڑی تھی کہ وصل و فُرقت جنم کے بچھڑے گلے ملے تھے
----------------------------------------------------------------------
([1])...رفتار۔ (2)...ایک قسم کی گول اور خوبصورت کشتی۔ (3)...کلی، بند پھول۔ (4)...بٹن۔ (5)...جُدا کرنے والا، فرق کرنے والا۔ (6)...مِلانے والا۔
----------------------------------------------------------------------
زبانیں سوکھی دِکھا کے موجیں تڑپ رہی تھیں کہ پانی پائیں
بھنور[1] کو یہ ضعفِ تشنگی تھا کہ حلقے آنکھوں میں پڑ گئے تھے
وہی ہے اوّل وہی ہے آخِر وہی ہے باطِن وہی ہے ظاہِر
اُسی کے جلوے اُسی سے ملنے اُسی سے اُس کی طرف گئے تھے
کمانِ اِمکاں کے جھوٹے نقطو! تم اوّل آخِر کے پھیر میں ہو
محیط کی چال سے تو پوچھو کدھر سے آئے کدھر گئے تھے
ادھر سے تھیں نذرِ شہ نمازیں ادھر سے انعامِ خُسْرَوِی میں
سلام و رحمت کے ہار گندھ کر گُلُوئے2 پُرنور میں پڑے تھے
زبان کو اِنتظارِ گفتن3 تو گوش4 کو حسرتِ شُنِیْدَن5
یہاں جو کہنا تھا کہہ لیا تھا جو بات سننی تھی سن چکے تھے
وہ بُرجِ بطحا کا ماہ پارا بِہِشْت کی سیر کو سِدھارا
چمک پہ تھا خُلد کا ستارہ کہ اس قمر کے قدم گئے تھے
سُرورِ مَقْدَم6 کی روشنی تھی کہ تابِشوں7 سے مہِ عرب8 کی
جِناں9 کے گلشن تھے، جھاڑ فرشی، جو پھول تھے سب کَنْول بنے تھے
----------------------------------------------------------------------
([1])...پانی کا چکر۔ (2)...نورانی گلا۔ (3)...بات کرنا۔ (4)...کان۔ (5)...سننا۔ (6)...سُرورِ مَقْدَم: آمد کی خوشی۔ (7)...چمک، روشنی، نور۔ (8)...مہِ عرب: عرب کا چاند۔ (9)...جنت کی جمع۔
----------------------------------------------------------------------
طَرَب[1] کی نازِش کہ ہاں لچکیے، ادب وہ بندش کہ ہِل نہ سکیے
یہ جوشِ ضِدَّین تھا کہ پودے کشاکش2 اَرَّہ3 کے تلے تھے
خُدا کی قدرت کہ چاند حق کے، کروروں منزل میں جلوہ کر کے
ابھی نہ تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نُور کے تڑکے4 آ لیے تھے
نبی رَحْمت شفیع اُمّت! رَضاؔ پہ لِلّٰہ ہو عِنَایَت
اسے بھی ان خلعتوں سے حصّہ جو خاص رَحْمت کے واں5 بٹے تھے
ثنائے سرکار ہے وظیفہ قبولِ سَرکار ہے تمنّا
نہ شاعِری کی ہَوَس6 نہ پَروا رَوِی7 تھی کیا کیسے قافیے8 تھے
----------------------------------------------------------------------
([1])...خوشی، شادمانی۔ (2)...کھینچا تانی۔ (3)...لکڑی چیرنے کا اوزار، آرا۔ (4)...صبح کے وقت، بہت سویرے۔ (5)...وہاں کا مخفف۔ (6)...آرزو، خواہش۔ (7)...وہ حرف جس پرقافیے کی بنیاد ہو، قافیے کا سب سے پچھلا بار بار آنے والا حرف۔ (8)...چند حُروف وحرکات کا مجموعہ جس کی تکرار الفاظِ مختلف کے ساتھ آخرِ مصرع یا آخرِ بیت میں پائی جائے، وہ الفاظ لفظاً مختلف ہوں یا معنیً۔
----------------------------------------------------------------------
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.