You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
از مولانا اسید الحق قادری
خانقاہ قادریہ ، بدایوں ، ہند
قدوۃ العلما زبدۃ الاصفیامولانا غلام قا د ر بھیر و ی ۵ ۶ ۱۲ھ /۱۸۴۹ء میں قصبہ بھیرہ ضلع سرگودھا( پنجاب ،پاکستان ) میں پیدا ہوئے ، والد گرامی کا نام مولانا غلام حیدر بھیروی ہے، لاہور میں رہ کر حضرت مولانا غلام محی الدین بگوی( ۱۲۷۳ھ ) اور ان کے چھوٹے بھائی مولانا احمد الدین بگوی نقشبندی ( ۱۲۶۸ھ ) سے معقول ومنقول کی تحصیل کی ، پھر دہلی میں مفتی صدر الدین آزردہ دہلوی صدر الصدورکی خدمت میں حاضر ہوکر اخذ علوم کیا اور سند فراغت حاصل کی ۔ علوم سے فراغت کے بعد لاہور واپس آئے اور وعظ وارشاد کی مجلس آراستہ فرمائی ، شاہی مسجد لاہور کے خطیب وامام اور بعد میں متولی مقرر کیے گئے ۔
۱۸۷۹ء میں اورینٹل کالج لاہور میں عربی کے نائب استاذ مقرر ہوئے ، اور دو سال تک کالج میں تدریس کے فرائض انجام دیے ، کالج کی ملازمت کے زمانے میں انگریز حکومت نے کسی فتوے پر تصدیق چاہی ، یہ فتویٰ آپ کے عقیدۂ ومسلک سے ہم آہنگ نہیں تھا اس لیے آپ نے تصدیق سے انکار کردیا اور احتجاجاً کالج کی ملازمت سے مستعفی ہوگئے ۔
اس کے بعد دارالعلوم نعمانیہ لاہور میں درس وتدریس کا آغاز کیا اور ایک زمانے نے آپ سے استفادہ کیا ۔
نہایت متصلب سنی صحیح العقیدہ ، پرہیز گار اور باخدا بزرگ تھے ، مولانا غلام دستگیر نامی نے لکھا ہے کہ ’’ آپ کو لاہور کا قطب سمجھا جاتا ہے ‘‘ ۔
حمایت حق اور تردید باطل کا خاص اہتمام تھا، مرزا غلام احمد قادیانی کا بالکل ابتدائی زمانے میں رد کیا ، اس کے علاوہ لاہور میں دیگر بد مذہب اور گمراہ فرقوں کی تردید میں سرگرم رہے ۔
مندرجہ ذیل حضرات نے آپ کی درسگاہ سے استفادہ کیا :
(۱) امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری
(۲) مولانا محمد عالم آسی امرتسری
(۳) مولانا نبی بخش حلوائی
(۴) مولانا غلام احمد حافظ آبادی
(۵) مولانا غلام حیدرقریشی پونچھوی
(۶) قاضی آفرالدین
(۷) صوفی غلام قادر چشتی سیالوی
(۸) مولانا محمد ضیاء الدین قادری مہاجر مدنی
سلسلۂ عالیہ چشتیہ میں شمس العارفین حضرت خواجہ شمس الدین سیالوی قدس سرہ ( وفات :۱۳۰۰ھ /۱۸۸۳ء ) سے بیعت ہوئے اور اجازت وخلافت سے نوازے گئے ، حضور غوث اعظم سے نسبت اویسی حاصل تھی اسی لیے آپ کے احوال پر قادریت کا غلبہ تھا ۔
تدریس، اوراد واشغال اور رشد وہدایت کی مشغولیت کے باوجود آپ نے تصنیف وتالیف کا ایک قابل قدر ذخیرہ چھوڑا ، تصانیف مندرجہ ذیل ہیں :
(۱) اسلام کی گیارہ کتابیں( دینی تعلیم کا نصاب )
(۲) شوارق صمدیہ ( زیر نظر کتاب )
(۳) نماز حضوری
(۴) ختمات خواجگان
(۵) شمس الحنفیہ بجواب نورا لحنفیہ ( مسئلہ وحدۃ الوجود )
(۶) نور الربانی فی مدح المحبوب السبحانی
(۷) شمس الضحیٰ فی مدح خیر الوریٰ
(۸) نماز ضروری
(۹) حقیقت انوار محمدیہ
(۱۰) جوہر ایمانی
(۱۱) عکازہ در صلوٰۃ جنازہ
(۱۲) فاتحہ خوانی
۱۹؍ ربیع الثانی ۱۳۲۷ھ /۱۰؍ اپریل ۱۹۰۹ء کو واصل بحق ہوئے ۔بیگم شاہی مسجد لاہور میں آخری آرام گاہ قرار پائی۔
یہ آپ کی مقبولیت کی دلیل ہے کہ آپ کے جنازے میں خلق خدا کا ایسا ہجوم دیکھا گیا کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی ۔
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.