You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
( میرا کافی وقت سفر میں گزرتاہے ، بعض احباب کے اِیما پرسفرنامہ مرتب کرنا شروع کیا تھا ، یہ سطور اسی سے مقتبس ہیں )
بیت اللہ شریف کی زیارت کے بعد:
١ تربہ
٢ خرما
٣ رنیہ
٤ بیشہ
٥ وادی بن اشبھل
٦ روضان السليل
٧ زبران
٨ خمیس مشیط
( ھراس ، الحفاير ، الشعبه ، جبل البراعيم ، العرقين
، مسره ، شقيب ، الجزلات وغیرہ )
پہاڑوں اور صحراؤں میں بہ سلسلہ عملیات پانچ دن اور راتیں گزاریں ۔
کچھ دوست معاون رہے جنھوں نے طَعام و قیام اور دیگر سہولیات کا بہت خیال رکھا ؛ گھنٹوں ساتھ سفر کیا ، پہاڑوں اور صحراؤں میں بھی دن رات ساتھ رہے ۔
میں جوں ہی وظائف سے فارغ ہوتا جنات کا موضوع چھیڑ دیتے ؛ یہ موضوع ان کے لیے خاصہ دل چسپ تھا ، میں بھی خوش دلی سے انھیں کچھ آپ بیتیاں اور کچھ جگ بیتیاں سناتا ۔
پینتالیس سالہ فہد عبدالرحمن الشھرانی تو تسخیر جنات کے لیے بھی تیار ہوگئے تھے ، جنھیں بڑی مشکل سے ٹالا ۔
مجھے عملیات کے لیے مخصوص قسم کے پہاڑی علاقے میں جانا تھا ، جس کے لیے مقامی رہبر کی ضرورت تھی ، میزبان مکرم نے اپنے کچھ دوستوں سے رابطہ کیا جو مجھے وہاں لے جانے کے لیے تیار ہوگئے ۔
میں تقریباًتین گھنٹے کے سفر کے بعد ان کے ہاں پہنچا ، وہ بڑے پرتپاک طریقے سے ملے " جیسے آج کل عرب ملتے ہیں " ، پھر مجھے ساتھ لے کر چل پڑے ۔
ہم نماز عشاکے بعد ایک صحرا میں داخل ہوئے ، تقریباً دو گھنٹے کے عجیب وغریب سفر کے بعد اس کنویں تک پہنچے ، جہاں سے سمت کا تعین کرکے پہاڑی تک پہنچنا تھا ۔
جب مطلوبہ مقام تک پہنچے تو انھوں نے مجھے گاڑی سے اتار دیا ، میں مصلا وغیرہ لیے اپنی منزل کی طرف چلا گیا ۔
فجر کے قریب جب واپس لوٹا تو دیکھا کہ کچھ لوگ پہاڑیوں کی مختلف چوٹیوں پر گھوم رہے ہیں ، میں نے پوچھا:
اس پہر ان لوگوں کا یہاں کیا کام ؟
کہنے لگے:
یہ سونا تلاش کررہے ہیں ، یہاں کچھ پہاڑیوں سے سونے کے ٹکڑے برآمد ہوئے تھے جس کی وجہ سے یہ علاقہ قسمت آزماؤں کا مرکزِ نظر بن گیا ۔
ہم وہاں سے پلٹے تو فجر کا وقت شروع ہو گیا تھا لیکن پانی کا دور دور تک نشان نہیں تھا ، گاڑی میں پینے والے پانی کا کاٹن پڑا تھا ، میں نے اسی سے مسنون وضو کیا ، جس پر چار چھوٹی بوتلیں استعمال ہوئیں ۔
جب وضو سے فارغ ہوا تو دیکھا کہ میرے " چار " سعودی رفقا " ایک " چھوٹی بوتل سے وضو کرکے با جماعت نماز پڑھ رہے تھے ؛ حیرانی اور ہنسی کی ملی جلی کیفیت میں مَیں انھیں دیکھتا رہا ، میرے ساتھ ایک پاکستانی دوست بھی تھے ، وہ کہنے لگے آپ انھیں کرنے دیں جو کرتے ہیں !!
میں نے کہا:
یہ لوگ میری بات سمجھیں نہ سمجھیں ، میں یہ سمجھنا چاہتا ہوں کہ ایک چھوٹی سی بوتل سے چار بندے کیسے وضو کرلیتے ہیں ؛ کیا سفر میں وضو کی بھی قصر ہوتی ہے؟؟
پھر جب ان کے وضو کی حقیقت معلوم ہوئی تو بڑی اماں کی بات یاد آگئی:
" مکے کولے بدو "
کاشکے! متشدد مطوعوں نے انھیں شرک و بدعت کے علاوہ بھی کچھ سکھایا ہوتا ۔
✍لقمان شاہد
19/7/2018
https://www.facebook.com/qari.luqman.92
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.