You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
اس اعتبار سے خبر مردود کی پانچ اقسام ہیں:
(۱)۔۔۔۔۔۔معلق
(۲)۔۔۔۔۔۔مرسل
(۳)۔۔۔۔۔۔معضل
(۴)۔۔۔۔۔۔منقطع
(۵)۔۔۔۔۔۔مدلس
(۱)۔۔۔۔۔۔مُعَلَّق:
وہ حدیث جس میں سند کی ابتداء سے کوئی راوی مصنف کے تصرف سے ساقط ہو۔ اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ چند راوی یا پوری سند کو حذف کردیا جائے مثلا یوں حدیث بیان کی جائے۔قال النبی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کذا (سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے یوں فرمایا)
(۲)۔۔۔۔۔۔مُرْسَل:
وہ حدیث جس کی سند کے آخر سے تابعی کے بعد صحابی کا نام حذف کرکے اسے براہِ راست سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے روایت کیا جائے۔
مثال:
عَنْ سَعِیْدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہٰی عَنْ الْمُزَابَنَۃِ
سعید بن مسیب (تابعی )بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا۔
اس حدیث کو سعید بن مسیب جو کہ تابعی ہے نے براہ راست سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے روایت کیا ہے اور درمیان میں موجود صحابی کا نام ذکر نہیں کیا۔
(۳)۔۔۔۔۔۔مُعْضَل:
وہ حدیث جس کی سند سے دویا دو سے زائد راوی پے درپے ساقط ہوں۔مثال تبع تابعی حدیث بیان کرتے ہوئے نہ تابعی کا نام لے اور نہ صحابی کا بلکہ براہِ راست سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے روایت کرے۔
مثال:
اس کی مثال موطا امام مالک رحمہ اللہ تعالی کی یہ روایت ہے:
بَلَغَنِيْ عَنْ أَبِيْ ہُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ، أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: لِلْمَمْلُوْکِ طَعَامُہ، وَکِسْوَتُہ، بِالْمَعْرُوْفِ وَلَا یُکلَّفُ مِنَ الْاَعْمَالِ اِلَّا مَا یُطِیْقُ
امام مالک فرماتے ہیں کہ مجھے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ روایت پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: غلام کو دستور کے مطابق کھانا اور کپڑے دئیے جائیں اور اسے اس کی طاقت بھر کاموں کا ہی ذمہ دار بنایا جائے۔
اس حدیث کی سند میں حضرت امام مالک رحمہ اللہ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کے درمیان دو راوی محذوف ہیں اس لیے یہ حدیث معضل ہے کیونکہ حقیقت میں امام مالک رحمہ اللہ نے محمد بن عجلان اور انہوں نے اپنے والد عجلان سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے یہ حدیث روایت کی ہے۔
(۴)۔۔۔۔۔۔مُنْقَطِع:
وہ حدیث جس کی سند میں سے کوئی بھی راوی ساقط ہوجائے عموما اس کا اطلاق اس حدیث پر ہوتاہے جس میں تابعی سے نیچے درجے کا کوئی شخص صحابی سے روایت کرے۔
مثال:
رَوٰی عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنِ الثَّوْرِيِّ عَنْ أَبِيْ اِسْحَاقَ عَنْ زَیْدِ بْنِ یُثَیْعٍ عَنْ حُذَیْفَۃَ مَرْفُوْعاً: اِنْ وَلَّیْتُمُوْہَا أَبَابَکْرٍ فَقَوِيٌ أَمِیْنٌ
اس حدیث کی سند سے ایک راوی ساقط ہے جس کا نام شریک ہے یہ راوی ثوری اور ابو اسحاق کے درمیان سے ساقط ہے کیونکہ ثوری نے یہ حدیث ابو اسحاق سے نہیں سنی بلکہ شریک سے سنی ہے اور شریک نے ابو اسحاق سے۔
(۵)۔۔۔۔۔۔مُدَلَّس:
جس حدیث کی سند کا عیب پوشیدہ رکھا جائے اور ظاہر کو سنوار کر پیش کیا جائے ۔
مدلس کی دو قسمیں ہیں:
(۱)۔۔۔۔۔۔مدلس الاسناد (۲)۔۔۔۔۔۔مدلس الشیخ
(۱)۔۔۔۔۔۔مُدلَّس الاِسناد:
وہ حدیث جس کو راوی اپنے شیخ سے سنے بغیر ایسے الفاظ سے شیخ کی طرف نسبت کرے جس سے سننے کا گمان ہو، اسکی صورت یہ ہے کہ راوی نے حدیث اپنے شیخ کے علاوہ کسی اورسے سنی ہو لیکن روایت کرتے وقت ایسے الفاظ ذکر کرے جو شیخ سے سماع کا ایہام کرتے ہوں، جیسے قَالَ، عَنْ اور أَنَّ وغیرہ۔
(۲)۔۔۔۔۔۔مُدلَّس الشیخ:
وہ حدیث جسے راوی اپنے استاد سے نقل کرتے ہوئے اس کیلئے کوئی غیر معروف نام ، لقب ، کنیت، یا نسب ذکر کرے تاکہ اسے پہچانانہ جاسکے۔
ان کاحکم:
ایسی احادیث ضعیف کی اقسام سے ہیں۔
تدلیس کا سبب:
تدلیس کا سبب کبھی یہ ہوتاہے کہ شیخ کے صغیر السن ہونے کی وجہ سے راوی ازراہ خفت اس کا تذکرہ نہیں کرنا چاہتا یا راوی کا شیخ کوئی معروف شخص نہیں ہوتایاعوام وخواص میں اس کو مقبولیت حاصل نہیں ہوتی یا پھر مجروح ضعیف ہوتاہے لہذا شیخ کے نام کو ذکر کرنے سے پہلو تہی کی جاتی ہے۔
-----------------------------------------------------------------
نصاب اصول حدیث
مع
افادات رضویۃ
پیشکش
مجلس المدینۃ العلمیۃ (دعوتِ اسلامی )
(شعبہ درسی کتب)
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.