You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
جب سرکارِمدینۂ منوّرہ،سردارِمکّۂ مکرّمہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے نبی ہونے کا اِظہار فرمایا تو عورتوں میں سب سے پہلے اُمُّ المؤمنين حضرت خَدِيجَہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم پر ایمان لائیں ۔ کچھ دن بعد امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو رشتے میں نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے چچازاد بھائی بھی تھے (اس وقت آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر تقریباً 10سال تھی)،ان کے يہاں آئے تو تاجدارِ رِسالَت،ماہِ نُبُوَّت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم اورام المؤمنين حضرتِخديجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو نماز پڑھتے ديکھا۔ جب نماز ادا کر چکے توعرض کی : يہ کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ عليہ والہ وسلم نے اِرشاد فرمايا: يہ اللہ عَزّوَجَلَّ کا وہ دين ہے جو اس نے اپنے لئے چنا اور اسے پھيلانے کے لئے اپنے رسول بھيجے ،ميں تمہيں اللہ اور اس کی عبادت کی طرف بلاتا ہوں اور لات و عُزَّی کا اِنکار کرنے کا کہتا ہوں۔ حضرتِ سیِّدُنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:يہ بات تو ميں نے آج سے پہلے کبھی نہيں سنی اس لئے ميں اپنے والد سے مشورہ کئے بغير کوئی فيصلہ نہيں کر سکتا۔
نبی کريم صلی اللہ تعالیٰ عليہ واٰلہ وسلم نے فی الحال اس راز کاحضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد پر ظاہر ہو جانا پسند نہ فرمايا اور ارشاد فرمايااے علی! اگر تم اسلام قبول نہيں کر رہے تو خاموش رہنا۔ مگراسی رات اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دل ميں اسلام کی محبت ڈال دی۔چنانچہ صبح ہوتے ہی نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ عليہ والہ وسلم کی بارگاہ ميں حاضر ہو کر عرض کی : آپ صلی اللہ تعالیٰ عليہ والہ وسلم نے مجھ پر کیا پيش فرمايا تھا؟ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ عليہ والہ وسلم نے ارشاد فرماياتم اس بات کی گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہيں ،وہ ایک ہے، اس کا کوئی شريک نہيں اور لات و عُزَّی کا انکار کر دو اور اللہ تعالیٰ کا مثل ماننے سے بَرِی ہو جاؤ۔حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان باتوں کو مانتے ہوئے اسلام قبول کر لیا۔
(اسد الغابہ ،باب العين واللام،ج۴،ص۱۰۱)
اللہ عَزّوَجَلَّ کی اُن پَر رَحمت ہو اور ان کے صد قے ہماری مغفِرت ہو
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.