You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
تیرہویں صدی کی ایک گم نام شخصیت
مولانا حیدر علی فیض آبادی
ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی
مولاناا سید الحق قادری
خانقاہ عالیہ قادریہ بدایوں، انڈیا
جن مؤرخین کی نظر میں زمانہ وسطیٰ کے بغداد، دمشق، قاہرہ،شیراز اور قرطبہ کی علمی مجالس ہیں وہ تیرہویں صدی کو علمی انحطاط کا زمانہ قرار دیتے ہیں،ممکن ہے بعض مقامات اور شہروں کی حد تک یہ خیال درست ہو ، مگر ہم جب تیرہویں صدی میں دہلی ، اودھ، روہیل کھنڈ اور خطہ ٔ پنجاب پر نظر ڈالتے ہیں توعہد وسطیٰ کے اِن قدیم مراکز علم کی یاد تازہ ہوجاتی ہے ۔اس صدی میںہمیںتفسیر وحدیث ، فقہ وکلام، حکمت وفلسفہ، تصوف وروحانیت اور میدان شعر وادب کے ایسے ایسے اساطین نظر آتے ہیں جن کی نظیر نہ صرف ہندوستان بلکہ عالم اسلام کے بہت سے مراکز علم وفن میں نظر نہیں آتی۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے اسلاف کی تاریخ، ان کی خدمات اور ان کی علمی میراث سے اس حدتک غفلت برتی کہ ان میں سے بہت سی کوہ پیما شخصیات کی خدمات وتصانیف کا تذکرہ تو درکنارآج ہم ان کے نام تک سے واقف نہیں ہیں۔کیسے کیسے عبقری اور فضلاے روزگار ہماری غفلتوں، اسلاف فراموشیوں اورمؤرخانہ ناانصافیوں کا شکار ہوکر پردۂ گم نامی میں چلے گئے:
وے لوگ ہم نے ایک ہی شوخی میں کھودیے
پیدا کیے تھے چرخ نے جو خاک چھان کر(۱)
ایسی ہی گم نام مگر نام ورشخصیات میں اپنے زمانے کے زبردست متکلم، مناظر،مفسراور مصنف حضرت مولاناحیدر علی فیض آبادی کا بھی شمار ہوتا ہے ۔آپ سراج الہند حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے تلمیذ رشید ہیں، استاذ مطلق علامہ فضل حق خیرآبادی کے معاصر اور مخلص دوست،شیعوں اور روافض کے رد میں سب سے زیادہ لکھنے والے ہندوستانی مصنف، مسئلہ امتناع نظیر ، امکان کذب اور دیگر نزاعی مسائل میں اعلان حق کرنے والے مرد مجاہد اور ۲۷؍ جلدوںپر مشتمل تفسیر قرآن کے مصنف ہیں۔آپ کی بے شمار تصانیف ۱۸۵۷ء کے ہنگامے میں تلف ہوگئیں، باقی ماندہ تصانیف میں سے آج صرف ۵؍ کتابیں ہماری دسترس میں ہیں، آپ کو یہ پڑھ کر حیرت ہوگی کہ ان ۵؍ کتابوں کے صفحات کی مجموعی تعداد کم وبیش چھ ہزار ( 6000) ہے۔
زیر نظر مضمون میں اسی عبقری مفسر ومصنف کے گم شدہ اوراق حیات تلاش کرنے کی طالب علمانہ کوشش کی گئی ہے ۔
سوانحی خاکہ:مولانا حیدر علی فیض آبادی (بن محمد حسن بن محمد ذاکر بن عبدالقادر دہلوی ثم فیض آبادی) کی ولادت اودھ کے شہر فیض آباد میں ہوئی،سنہ ولادت کے سلسلے میں معلومات حاصل نہیں ہوسکیں، ایک اندازے کے مطابق آپ کی ولادت تیرہویں صدی کی دوسری یا تیسری دہائی میں ہوئی ہوگی۔
لکھنؤ اور گردو نواح میںقدیم زمانے ہی سے اہل تشیع خاصی تعداد میں رہے ہیں، فیض آباد میں بھی ان کی آبادی تھی، وہاں چند نامور شیعہ علما رہتے تھے، مولانا حیدر علی فیض آبادی کی ابتدائی تعلیم انہیں شیعہ علما کی درس گاہوں میں ہوئی، آپ کے اساتذہ میں مرزا فتح علی ، سید نجف علی اور حکیم میر نواب کے نام ملتے ہیں، یہ تینوں حضرات شیعہ تھے،قدرت کی کرشمہ سازی دیکھیے کہ انہیں شیعہ علما کی درسگاہ سے علم حاصل کرنے والا بچہ جب جوان ہوتا ہے تو انہیں کے افکار ونظریات کی تردید کرنے والا وقت کا سب سے بڑا مناظر بن کر میدان میں اترتا ہے۔
ان علما سے علم حاصل کرنے کے بعد آپ اعلیٰ تعلیم وتکمیل کے لیے شاہ جہاں آباد (دہلی) کے لیے عازم سفر ہوئے، یہ وہ زمانہ تھا کہ سراج الہند حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا آفتاب درس وتدریس اپنی ضیا باریوں سے ایک عالم کو منور کررہا تھا ، دہلی میں مولانا فیض آبادی نے مولانا رشید الدین خاں دہلوی اور مولانا شاہ رفیع الدین دہلوی سے تحصیل علم کی، ان دونوں حضرات کے علاوہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بھی استفادہ کیااور ایک مدت تک ان کی درسگاہ فیض میں حاضر رہے، صاحب نزہۃ الخواطر لکھتے ہیں:
واستفاض عن الشیخ عبدالعزیز ابن ولی اللہ الدہلوی ایضاً ولازمہ زماناً ، حتی برع فی کثیر من العلوم والفنون (۲)
شاہ عبدالعزیز ابن شاہ ولی اللہ دہلوی سے بھی آپ نے استفادہ کیا اور ایک زمانے تک ان کی صحبت اٹھائی ،یہاں تک کہ بہت سے علوم وفنون میں مہارت حاصل ہوگئی ۔
مولانا حیدر علی فیض آبادی کی ایک کتاب ’’ ازالۃ الغین عن بصارۃ العین ‘‘ کے خاتمۃ الطبع میں آپ کے کچھ حالات درج کیے گئے ہیں، جامع حالات لکھتے ہیں:
بلا واسطہ فیض صحبت علامہ ٔ دہلوی حضرت حجت بریہ صاحب تحفہ اثنا عشریہ نوراللہ مرقدہ مدتہا یافتہ وامروز کسے از مستفیدانش بلا واسطہ باقی نماندہ (۳)
ترجمہ:ایک زمانے تک بلا واسطہ علامہ ٔ دہلوی حجت ِ بریہ صاحب ِ تحفہ اثنا عشریہ( شاہ عبدالعزیز ) کی صحبت کافیض اٹھایا،آج ( ۱۲۹۵ھ / ۱۸۷۸ء میں )حضرت شاہ صاحب سے بلا واسطہ استفادہ کرنے والاکوئی اور باقی نہیں ہے ۔
دہلی کے بعد مولانا نے کچھ عرصہ لکھنؤ میں قیام کیا،وہاں سے بھوپال تشریف لے گئے ،اور آخر میں ریاست حیدر آباد میں قیام کیا ، وہاں نواب مختار الملک نے عدالت و قضا کی ذمہ داریاں تفویض کیں،پھر آخر عمر تک حیدرآباد ہی میں قیام رہا ، وہیں۱۲۹۹ھ/۸۲-۱۸۸۱ء میں وفات ہوئی، اور حیدر آباد ہی میں دفن کیے گئے ۔(۴)
حکیم سید عبدالحی رائے بریلوی نزہۃ الخواطر میں لکھتے ہیں:
واقبل علی الجدل والکلام ، فصار اوحد زمانہ، اقر بفضلہ الموافق والمخالف (۵)
ترجمہ: وہ علم مناظرہ وکلام کی طرف متوجہ ہوئے ،پس اپنے زمانے میں یکتا ہوگئے ، ان کے فضل کا اعتراف موافق ومخالف سب نے کیا ہے ۔
ہم عصر تذکرہ نگار مولوی رحمان علی ’’تذکرہ علمائے ہند‘‘ میں لکھتے ہیں:
علم مناظرہ اور کلام میں اپنے ہم عصروں میں ممتاز تھے ، خصوصاً ہمارے زمانے میں شیعوں کے ساتھ مناظرہ کرنے میں اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے ، زیادہ تر فریق ثانی کی کتابیں ان کے پیش نظر رہتی تھیں( ۶)
سید محمد حسین سید پوری ’’ مظہر العلما فی تراجم العلما ء والکملا ‘‘ ( سنہ تالیف حوالی ٔ۱۳۱۷ھ ) میں لکھتے ہیں:
مولوی حیدر علی صاحب فیض آبادی علم مناظرہ وکلام میں فائق الاقران تھے،یوں تو آپ ہر ایک علم وفن اور مذہب کی بحث میںمشہور تھے مگر بالخصوص رد شیعہ میں کمال حاصل تھا(۷)
سیر وتذکرے کی معروف ومتداول کتب میں مولانا فیض آبادی کے بارے میں اس سے زیادہ تفصیلات نہیں ملتیں۔
علامہ فضل حق خیرآبادی سے روابط:علامہ فضل حق خیرآبادی اور مولانا حیدر علی فیض آبادی ہم عصر تھے،علم وفضل کے اوج کمال پر فائز تھے، کلامی مباحث میں دونوں کے نقطہائے نظر ایک تھے ،اس زمانے کے بعض مختلف فیہ اور نزاعی مسائل میں بھی دونوں حضرات کا موقف یکساں تھا،مولانا فیض آبادی کی تعلیم دہلی میں ہوئی تھی اور اس کے بعد بھی کچھ عرصہ آپ دہلی میں مقیم رہے ، یہ وہ زمانہ ہے جب علامہ بھی دہلی میں قیام فرماتھے،انہیں سب وجوہ کی بنیاد پر ان دونوں حضرات میں مخلصانہ تعلقات استوار ہوئے، جو آگے چل کر گہری دوستی میں تبدیل ہوگئے ۔
مولانا حیدر علی فیض آبادی نے اپنی کتاب ’’ منتہی الکلام ‘‘ ( اس کا ذکر آگے آرہا ہے ) علامہ کی خدمت میں برائے ملاحظہ ارسال فرمائی، علامہ نے کتاب ملنے پرمولانا فیض آبادی کو ایک طویل خط ارسال فرمایا۔ ڈاکٹر سلمہ سیہول کی اطلاع کے مطابق یہ خط علامہ کی قلمی بیاض (مملوکہ حکیم محمود احمد برکاتی،کراچی) میںموجود ہے ،اس خط کا کچھ حصہ مولانا عبدالشاہد خاں شیروانی نے ’’ باغی ہندوستان ‘‘ میں بھی درج کیا ہے۔(اس کا ایک اقتباس آگے آرہا ہے)
ڈاکٹر سلمہ سیہول لکھتی ہیں:
اس ( خط ) میں کتاب کی تعریف وتوصیف کے علاوہ اس شیعی عالم کی علمی بے بضاعتی اور اس کے دعووں کا ابطال بیان کیا ہے ، جس کے رسالے ( مصنفہ ۱۲۴۷ھ ) کے جواب میں ۱۲۵۰ھ میں مولانا فیض آبادی نے منتہی الکلام تصنیف کی تھی ۔
علامہ فضل حق خیرآبادی ان دنوں ریاست رامپور میں ملازم تھے ،علامہ نے یہ جوابی خط ۵؍ ذی القعدہ ۱۲۶۱ھ کو مولانا فیض آبادی کی طرف سے ایک اور خط ملنے کے بعد بھجوایا ، اور لکھا کہ جواب میں تاخیرملازمت میں کثرت مصروفیات کے باعث ہوئی ۔
اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ ( فضل حق ) اور مولانا ( فیض آبادی ) میں قریبی روابط تھے، بایں کہ علامہ نے انہیں اپنے تین قریبی رشتہ داروں کی وفات ، درد قولنج میں ابتلا ، بڑے بھائی فضل عظیم کے پاس سہارنپور جانے کے پروگرام اور دو ماہ بعد واپسی کے ارادے وغیرہ جیسی نجی مصروفیات سے بھی مطلع کیا ۔(۸)
مسئلہ امتناع نظیر اور امکان کذب:تقریباً ۱۲۶۵ھ کے آس پاس شاہ اسماعیل دہلوی کی حمایت ونصرت کا علم بلند کیے ہوئے مولانا سید حیدر علی رامپوری ثم ٹونکی نمودار ہوئے، انہوں نے علامہ فضل حق خیرآبادی کی کتاب ’’ تحقیق الفتویٰ ‘‘ کے جواب میں قلم اٹھایا،جس میںمسئلہ امتناع نظیراورامکان کذب پر داد تحقیق دی، مگر اسی ضمن میں وہ بعض ایسی باتیں لکھ گئے جس کی بنیاد پر علمائے عصر نے ان کی گمراہیت بلکہ کفر کا فتویٰ صادر کیا ، یہ فتویٰ مطبع ہدایہ دہلی سے ۱۲۶۹ھ میں شایع ہوا، قیاس ہے کہ یہ فتویٰ علامہ فضل حق خیرآدی یا کم از کم ان کے کسی شاگرد کا تھا، اس پررامپور ، مرادآباد اور دہلی وغیرہ کے ۳۴؍ علما ومفتیان کرام کے دستخط اور مہریں تھیں،( اس فتوے کی بعض تفصیلات ہم نے اپنی کتاب خیرآبادیات میں ذکر کی ہیں) مولانا حیدر علی فیض آبادی نے اس فتوے کی تصدیق وتائید فرمائی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ امتناع نظیراورامکان کذب جیسے نزاعی مسائل میں علمائے اہل سنت بالخصوص علامہ فضل حق خیرآ بادی کے موقف کے حامی تھے اور شاہ اسماعیل دہلوی اور ان کے ہم خیال علما کو وہ ان مسائل میں نہ صرف یہ کہ حق پر نہیں سمجھتے تھے بلکہ ان کی تضلیل وتکفیر میں بھی دریغ نہیں کرتے تھے ۔
مولانا فیض آبادی اس فتوے کی تصدیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
کسے کہ چنیں مقالات ِ بے ہودہ گوید ومیان اہل اسلام بابداع محدثات می جوید ومخالف کتب عقائد سخن سازی کند وہیچ آں چہ در اصول کلامیہ وفقہ قرار یافتہ انکاربکند البتہ کافر گشت، ومضل مسلمین اعاذنا اللہ تعالیٰ وجمیع المؤمنین منہ بطریق اولیٰ کا فر است ، وکفر او از اغلظ انحائے کفراست ۔(۹)
ترجمہ:جو شخص اس قسم کی بے ہودہ باتیں کہتا ہے ، اور اہل اسلام کے درمیان نئی باتیں ایجاد کرتا ہے ،کتب ِ عقائد کے خلاف سخن سازی کرتا ہے ،اور وہ امور جو اصول کلام وفقہ میں مقرر ہوچکے ہیں ان میں سے کسی کا انکار کرتا ہے وہ یقیناً کافر ہوگیا،مسلمانوں کو راہ راست سے بہکانے والا( اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو اس سے اپنی پناہ میں رکھے) بطریق اولیٰ کافر ہے ، اور اس کا کفر کفر کی بدترین اقسام میں سے ہے ۔
مسئلہ امکان کذب اور مسئلہ امتناع نظیر میں شاہ اسماعیل دہلوی کی حمایت ودفاع کرنے والے کے خلاف مولانا فیض آبادی کایہ دو ٹوک فیصلہ ہے جس پر کسی تبصرے، حاشیے یا وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ۔
مولانا شاہ فضل رسول بدایونی سے روابط: جن امور کی بنیاد پرمولانا فیض آبادی اورعلامہ فضل حق خیرآبادی کے درمیان روابط وتعلقات کی بنیادپڑی تقریباًوہی ساری اقدار مشترکہ سیف اللہ المسلول مولانا شاہ فضل رسول بدایونی کے یہاں بھی موجود تھیں۔ معاصرت،علم وفضل اوراحقاق حق وابطال باطل کا جذبہ مولانا فیض آبادی کوحضرت سیف اللہ المسلول کے بھی قریب لے آیا، ممکن ہے اس قربت میں علامہ فضل حق خیرآبادی سے دونوں حضرات کی دوستی بھی ایک عامل رہی ہو، مولانا فیض آبادی اور حضرت سیف اللہ المسلول کے درمیان مخلصانہ روابط وتعلقات کا اندازہ مولانا فیض آبادی کی اس تقریظ سے ہوتا ہے جو آپ نے حضرت کی کتاب المعتقد المنتقد پر رقم فرمائی ہے ۔اس کے علاوہ ہماری معلومات کی حد تک مولانا فیض آبادی نے کم از کم حضرت کے دو فتووں پر تصدیقی دستخط فرمائے ہیں۔
فتاویٰ اور کتب کی تصدیق:سنہ ۱۲۶۸ھ/ ۱۸۵۲ء میں بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے چند اختلافی مسائل کے تصفیے کے لیے حضرت سیف اللہ المسلول کی خدمت میں استفتا کیا ،اس استفتا میں زیادہ تر سوالات انہیں جائز اورمستحب امور سے متعلق تھے جن پر تقویت الایمان کے مصنف نے شرک وکفر کا فتویٰ صادر کردیا تھا، حضرت نے اس کا تفصیلی جواب قلم بند کیا ،مفتی صدرالدین آزردہ ؔ صدرالصدور دہلی سمیت ۱۷؍ علما ئے عصر نے اس فتوے کی تصدیق فرمائی ، تصدیق وتائید کرنے والے علما میں مولانا حیدر علی فیض آبادی بھی شامل ہیں، یہ فتویٰ جمادی الاخریٰ ۱۲۶۸ھ /مارچ ۱۸۵۲ء میں مطبع مفید الخلائق دہلی سے شائع ہوا،مولانا فیض آبادی فتوے کی تصدیق ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
واعظینِ نحلت وہابیہ بالیقین قدم از دائرہ سنت وجماعت بیروں نہادند وداد اعتزال ورفض وخروج دادند ولنعم ما قیل ۔۔۔۔۔۔ع
واعظ شہر کہ مردم ملکش می دانند
قول ما نیز ہمیں است کہ او آدم نیست
والحمدللہ کہ ہنوز درمذہب حق چنیں علما ہستند کہ باحقاق حق می پردانند۔ حیدر علی عفی عنہ ( ۱۰)
ترجمہ: فرقۂ وہابیہ کے واعظین نے یقینا اپنا قدم دائرہ اہل سنت وجماعت سے باہر نکالا ہے ،اور اعتزال ورفض وخروج کا اظہار کیا ہے ،کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
ترجمہ شعر: واعظ شہر کو لوگ فرشتہ سمجھتے ہیں، ہمارا بھی یہی کہنا ہے کہ وہ آدمی نہیں ہے ۔
الحمدللہ کہ اب بھی مذہب حق میں ایسے لوگ موجود ہیں جو احقاق حق کررہے ہیں۔حیدر علی عفی عنہ
اس تائید وتصدیق سے نہ صرف یہ کہ شاہ اسماعیل دہلوی اور ان کی جماعت کے بارے میں مولانا فیض آبادی کے خیالات پتہ چلتے ہیںبلکہ علمائے وقت کے نزدیک حضرت سیف اللہ المسلول کی اس تحریک کی پذیرائی اور علما کے آپ پر اعتماد واعتبار کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے ۔
فصل الخطاب کی تصدیق :حضرت سیف اللہ المسلول نے شاہ اسماعیل دہلوی کے عقائد ونظریات کا جائزہ لینے کے لیے ۱۲۶۸ھ میں ایک رسالہ ’’ فصل الخطاب بین السنی واحزاب عدو الوہاب ‘‘ تحریر فرمایا، اس رسالے کی ترتیب کچھ یوں ہے کہ آپ نے شاہ اسماعیل دہلوی کی کتاب تقویت الایمان اور صراط مستقیم سے ۱۰؍اقوال منتخب کرکے پیش کیے اور یہ ثابت کیا کہ یہ اقوال اہل سنت کے مخالف اور معتزلہ، خوارج یا شیعہ وغیرہ کے عقائد و نظریات کے موافق ہیں، ان عقائد و نظریات کی تردید میں آپ نے علماے اہل سنت اوربالخصوص شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی کتب سے استدلال کیا ہے۔ پھر آپ نے اس پوری بحث کو استفتا کی شکل دے کر علما کی رائے طلب کی، اس وقت کے ۱۸؍جلیل القدر علما (جن میں اکثر مدرسۂ عزیزی کے فیض یافتہ ہیں) نے متفقہ طور پر اس بات کی تائید و تصدیق کی کہ ’’قائل کی دسوں باتیں باطل ہیں، حق کے مخالف ہیں ان اقوال کا قائل اور جو شخص ان اقوال کو حق سمجھے سب اہل سنت سے خارج ہیں‘‘۔
ان تائید کرنے والے علما میں مولانا سید رحمت علی مفتی عدالت سلطانیہ دہلی، مولانا شاہ احمد سعید نقشبندی وغیرہ علمائے دہلی کے ساتھ ساتھ صاحب ِتذکرہ مولانا حیدر علی فیض آبادی بھی شامل ہیں۔ (۱۱)
المعتقدالمنتقد پر تقریظ :مکہ مکرمہ کے دوران قیام ایک بزرگ نے حضرت سیف اللہ المسلول سے فرمائش کی کہ علم کلام وعقائد میں ایک جامع کتاب تصنیف فرمائیں، چنانچہ ان بزرگ کی فرمائش کے احترام میں حضرت سیف اللہ المسلول نے ۱۲۷۰ھ / ۔۔۔۔۱۸ء میںعربی زبان میں ایک تحقیقی کتاب’’ المعتقد المنتقد ‘‘ تصنیف فرمائی،اس میںآپ نے عقائد اہل سنت کے بیان کے ساتھ ساتھ ضمناً شاہ اسماعیل دہلوی کے بعض افکار ونظریات کا تنقیدی جائزہ بھی لیا ہے ۔ اس کتاب کی جامعیت اور اہمیت کے پیش نظر علمائے وقت نے اس پر تقریظیں تحریر فرمائیں، ان میں استاذ مطلق علامہ فضل حق خیرآبادی، مفتی صدر الدین آزردہ ؔ ،مولانا شاہ احمد سعید نقشبندی اور صاحب ِتذکرہ مولانا حیدر علی فیض آبادی شامل ہیں۔ مولانا فیض آبادی نے اس کتاب کو پسند فرمایا، اس کے مندرجات کی تصدیق فرمائی ،مفتی آزردہ ؔ کی اس بات کی تائید کی کہ ’’اس باب میں اس جیسی کتاب تصنیف نہیں کی گئی‘‘اور ساتھ ہی اہل علم وفضل کو یہ مشورہ بھی دیا کہ یہ کتاب اس لائق ہے کہ اس کو مدارس کے نصاب تعلیم میں شامل کیا جائے ۔
اپنی تقریظ میں حمد وصلاۃ کے بعد لکھتے ہیں :
مجھے ایک عمدہ متن اور سلف صالحین کے عقائد پر ایک کتاب کے مطالعے کا شرف حاصل ہوا، یہ ایسی کتاب ہے جوسیدھے راستے کی ہدایت کرتی ہے اور طریقہ قوی و درست کی طرف رہنمائی کرتی ہے، جس پر چلنے والا راہ نجات پاتا ہے اوراسے تاریکیوں سے بچاتی ہے۔ یہ ایسے علامہ کی تصنیف ہے جن کی تمام عالم میں نظیر نہیں، وہ عارفین کے امام ہیں اور عابدین کے مدار کارہیں، اوصاف بیان کرنے اور اظہار سے مستغنی ہیں، جامع معقول و منقول، حاوی فروع واصول ہیں، اور ہمارے تسلیم کردہ پیشواہیں اوروہ ذات ایسی کیوں نہ ہو جب کہ وہ فضل رسول ہے۔ان کی درازیٔ عمر، ان کے افادات اور ان کی تصانیف سے اہل بدعت کی کمر توڑنے کے ذریعے اللہ مسلمانوں کی تائید ومدد فرمائے۔مَیں نے اس کتاب کو عقائد اہل سنت کے اثبات اور معتزلہ اور اُن کے مبتعین ضالین اور وہ جوجماعت اہل حق و یقین سے باہر نکل گئے ہیں اُن کی خرافات کے ابطال پر مشتمل پایا۔ یہ کتاب اس لائق ہے کہ فضلا اپنے مدارس میں اس کو پڑھائیںاور اس پر بھروسہ کریں،اس جیسی کتاب کے بارے میں کیا خوب کہا گیا ہے کہ ’’ اس باب میں اس جیسی کتاب تصنیف نہیں کی گئی‘‘۔(۱۲)
معاصرت کبھی کبھی علما کے درمیان کھنچاؤ اور باہم چشمک کا سبب بن جاتی ہے ،مگر ان حضرات کی یہ روش قابل رشک ہے کہ معاصر ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے احترام واعتراف ،قدر شناسی اور اظہارنیاز مندی میںایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کررہے ہیں ، یہی دراصل ان حضرات کے خلوص و للٰہیت کی دلیل اور عالم ربانی ہونے کی نشانی ہے ۔
تعارف تصانیف:مضمون کی ابتدا میںہم نے عرض کیا تھا کہ مولانا فیض آبادی کا خاص میدان علم کلام وعقائد تھا،لہٰذا آپ کی تصانیف زیادہ تر اسی فن سے متعلق ہیں بالخصوص فرقہ شیعہ امامیہ کے ردو ابطال میںکوئی آپ کا ہم سر نظر نہیں آتا۔ رد شیعہ میں آپ کی قلمی خدمات کے علاوہ آپ کا ایک اہم کارنامہ اپنے استاذ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کی ناتمام تفسیر قرآن ’’ تفسیر عزیزی‘‘ یا ’’ فتح العزیز ‘‘کا تکملہ ہے ،یہ تکملہ آپ نے ۲۷؍ جلدوں میں مکمل کیا ۔مگر افسوس آپ کی اکثر تصانیف ہنگامہ ٔ ۱۸۵۷ء میں ضائع ہوگئیں، جو بچ گئیںان کی اشاعت کے لیے لوگوں نے تعاون نہیں کیا ازالۃ الغین کے خاتمۃ الطبع میں لکھا ہے :
باایں ہمہ کوششہا وجان نثاری ہا در تائید حق امراو رؤسا اعانتش نکر د ندتا چندے از تالیفاتش در سانحۂ مذکورہ تلف شدہ (۱۳)
ترجمہ:حق کی تائید میں آپ کی ان تمام کو ششوں اور جاں نثاری کے باوجود امرا اور رؤسا نے آپ کی اعانت نہ کی، یہاں تک کہ آپ کی چند تالیفات مذکورہ سانحے ( یعنی انقلاب ۱۸۵۷ئ) میں تلف ہوگئیں۔
جو کتابیں شایع ہوئیں وہ بھی ایسی نا یاب ہیں کہ شاید آثار قدیمہ کے طور پر بعض مخصوص کتب خانوں کی زینت ہوں،کچھ کتابوں کے بارے میں آدھی یا ایک سطر میں تعارف ملتا ہے ، بعض کے آج صرف نام باقی رہ گئے ہیں ، اور خدا جانے ایسی کتنی کتابیں ہوں گی جو نام سمیت مفقود ہوگئیں۔ہمیں تلاش وجستجو کے بعد آپ کی جن چند کتابوں کے بارے میں معلومات فراہم ہوسکیں ان کا تعارف حاضر خدمت ہے ۔
(۱) فیوضات حیدریہ تکملہ تفسیر عزیزی:شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے فارسی زبان میں تفسیر قرآن کا آغاز کیا ،لیکن کسی وجہ سے یہ کام پایہ تکمیل کو نہ پہنچ سکا ،سورہ ٔ بقر کا کچھ حصہ اور سورۂ ملک سے آخر قرآن تک کی ہی تفسیر مکمل ہو پائی،اس تفسیر کا نام ’’ فتح العزیز ‘‘ ہے عرف عام میں’’ تفسیر عزیزی‘‘ بھی کہلاتی ہے ، فارسی زبان میں یہ ایک محققانہ تفسیر تسلیم کی گئی ہے ، اس نامکمل تفسیر کی تکمیل کا کارنامہ شاہ صاحب کے تلمیذ رشید مولانا حیدر علی فیض آبادی نے انجام دیا۔اس تکملہ تفسیر کا نام ’’ فیوضات حیدریہ‘‘ ہے۔ اس کے بارے میں صاحب ِ نزہۃ الخواطر کا بیان ہے کہ یہ کتاب فرما روائے بھوپال نواب سکندر بیگم کی فرمائش پر تصنیف کی گئی (۱۴)
یہ تکملہ ۲۷ ؍ جلدوں میں مکمل ہوا، خیال ہے کہ ہر جلد ایک پارے کی تفسیرپر مشتمل ہوگی،مولانا فیض آبادی اس تفسیر کے متعلق اپنی ایک کتاب ’’ ازلۃ الغین ‘‘ میں لکھتے ہیں :
لیکن مہم تکملہ تفسیر عزیزی پیش آمدہ تاآنکہ بشمول رافت وعنایت ایزدی در شہر دہلی در بروئے خلائق بستم ودر بست و ہفت مجلد صغیر وکبیر از آغاز آیت کریمہ شہر رمضان تا آخر سورۂ تحریم یعنی کانت من القانتین باتمام رسانیدم ( ۱۵)
ترجمہ :لیکن تفسیر عزیزی کے تکملے کی مہم درپیش آگئی،یہاں تک کہ اللہ کی رحمت وعنایت سے شہر دہلی میں مَیں نے لوگوں سے خلوت وعزلت اختیار کی اور ۲۷؍ چھوٹی بڑی جلدوں میںآیت کریمہ ’’ شہر رمضان‘‘کے آغازسے سورہ ٔ تحریم کے آخر یعنی آیت کریمہ ’’ کانت من القانتین‘‘تک تمام کی ۔
ازالۃ الغین کے خاتمۃ الطبع میں مذکور ہے :
تفسیر فیوضات حیدریہ تکملہ تفسیر عزیزی کہ مولانا ئے موصوف در بست و ہفت جلد صغیر وکبیر در شہر دہلی تمام فرمود ہفت مجلد آں را از آغاز در حیدرآباد یافتند، وزبانے ثقات بارہا بگوش خوردہ کہ غیر از سورۂ یوسف علیہ السلام ہمہ اش در بنارس رسیدہ (۱۶)
ترجمہ: تفسیر فیوضات حیدریہ تکملہ تفسیر عزیزی مولانا موصوف نے شہر دہلی میں ۲۷؍ چھوٹی بڑی جلدوں میں مکمل فرمائی ،ابتدا کی ۷؍ جلدیں حیدرآباد میں ہیں،اور بعض ثقات کی زبانی سنا گیا کہ سورۂ یوسف کے علاوہ باقی تمام بنارس میں موجود ہیں ۔
ندوۃ العلما لکھنؤ کے کتب خانے میں اس تفسیر کی ابتدائی ۴؍ جلدیں موجود ہیں،ان جلدوں کا مطالعہ کرکے مولانا برہا ن الدین سنبھلی نے ایک مختصر تعارفی مضمون قلم بند کیا تھا(۱۷) اسی مضمون کی روشنی میں اس تفسیر کے بارے میں کچھ تفصیلات پیش خدمت ہیں۔
ان ۴؍جلدوں کی تفصیل درج ذیل ہے :
پہلی جلد : دوسرے پارے کی آیت’’ وان تصوموا خیر لکم‘‘ سے اس پارے کے اختتام تک ۔
دوسری جلد: تیسرے پارے کے آغاز سے اختتام تک ۔
تیسری جلد : چوتھے پارے کے آغاز سے اختتام تک ۔
چوتھی جلد : پانچویں پارے کے آغاز سے اختتام تک ۔
ان چاروں جلدوں کے صفحات کی مجموعی تعداد ۳۱۰۰( تین ہزار ایک سو ) ہے مزید یہ کہ جلدوں کا سائز بھی اتنا بڑا ہے کہ حدیث وفقہ کی نصابی کتابوں کے علاوہ عموماً اتنے بڑے سائز پر کتابیں طبع نہیں ہوتیں۔
آپ اندازہ لگایے کہ صرف ۴؍ جلدیںجہازی سائز کے تین ہزار سے زائد صفحات پر مشتمل ہیں تو باقی کی ۲۳؍ جلدیں خدا جانے کتنے ہزار صفحات پر مشتمل ہوں گی، ایسا بھی نہیں ہے کہ مصنف نے ’’ حاطب اللیل ‘‘ کی طرح ہر قسم کی قصص وحکایات اورغیر ضروری مسائل ومباحث تفسیر میں شامل کرکے ضخامت بڑھانے کی کوشش کی ہے بلکہ یہ ایک عالمانہ اور محققانہ تفسیر ہے ،اور بقول شخصے ’’یہ تکملہ خاصی حد تک اصل کا رنگ لیے ہوئے ہے‘‘، اس تکملے کی خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے برہان الدین سنبھلی صاحب لکھتے ہیں :
خاص طور سے فرق باطلہ کی تردید ، ملحدین اور متفلسفین کے قرآن مجید پر اعتراضات کی جواب دہی ، قرآن مجید کی آیتوں پر بظاہر وارد ہونے والے لغوی ، نحوی نیز دوسرے قسم کے اشکالات کا حل ،آیت کے بارے میں مفسرین کے متعدد اقوال کی موجودگی کی صورت میں کسی قول کو بدلائل ترجیح اور مختلف المعانی لفظ میں سے ایک یا چند معانی اختیار کرنے کے وجوہ واسباب جیسے امور سے خاطر خواہ بحث کی گئی ہے ،اس بنا پر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ تکملہ خاصی حد تک اصل کا رنگ لیے ہونے کے ساتھ تفسیر کے طالب علم کے لیے پر از معلومات اور یکجا بہت سی نقول فراہم کرنے کا ایک کامیاب ذریعہ وماخذ بن گیا ہے (۱۸)
کاش کوئی فاضل ومحقق یا علمی ادارہ اس طرف توجہ کرے ، اور یہ نادرونایاب تفسیر تحقیق وترتیب کے مراحل کے بعد طباعت واشاعت کی منزل سے ہمکنار ہو۔
(۲)منتہی الکلام:یہ مولانا فیض آبادی کی ایسی معرکہ آرا کتاب ہے کہ یہی آپ کی شناخت کا حوالہ بن گئی ،معاصر کتابوں میں جہاں بھی آپ کا نام آتا ہے وہا ںنام کے ساتھ ’’ مصنف منتہی الکلام ‘‘ یا ’’ صاحب ِ منتہی الکلام ‘‘ بھی لکھا ہوتا ہے ،اس کتاب کا ایک نام ’’ تنبیہ اہل الخوض لاعتراضہم علی حدیث الحوض ‘‘ بھی ہے ،یہ کتاب ایک شیعی عالم سبحان علی کی ایک کتاب کے رد میں ۱۲۵۰ھ میں تصنیف کی گئی، ازالۃ الغین کے خاتمۃ الطبع سے اشارہ ملتا ہے کہ یہ کتاب دو جلدوں میں تھی ، یہ دونوں جلدیں انقلاب ۱۸۵۷ء سے قبل دہلی میں شایع ہوئی تھیں، کتب خانۂ قادریہ ، بدایوں میں اس کی ایک جلد محفوظ ہے، یہ جلدبڑے سائز پر ۸۱۵ ( آٹھ سو پندرہ )صفحات پر مشتمل ہے ، یہ ربیع الاول ۱۲۸۲ھ میںمطبع ناصری لکھنؤسے شایع ہوئی ہے۔
یہ کتاب جب مصنف کے دوست علامہ فضل حق خیرآبادی کے پاس پہنچی تو آپ نے مولانا فیض آبادی کو ایک طویل خط تحریر فرمایا، جس کا تذکرہ گذشتہ صفحات میں گذرچکا ہے،مکتوب میں علامہ اس کتاب پر اپنی رائے یوں تحریر فرماتے ہیں :
ترجمہ: میں نے ان کی منتہی الکلام نامی کتاب پڑھی ، اوراس میں چھیڑی گئی گفتگو پر مطلع ہوا، جو حسن ترتیب سے آراستہ ہے،اور جو کمینوں میں سے ہر ایک کے گلے میں تیغ ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ مولانا نے ان کی روایتوں کی تخریج میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی،بلکہ انہوں نے ان کی گمراہیوں پرتنبیہ اور رہنمائی میں بے انتہا کوشش کی ہے، نیزانہوں نے ان پر وارد ہونے والے (اعتراضات) کواجاگر کرنے میں دقت نظری سے کام لیا، ان کی نادانیوں کا پردہ فاش کرنے کے لیے انہوں نے ان کے علما کی کتابوں کی ورق گردانی میں بھی انتھک محنت کی، اور ان کی بڑی سے بڑی کتابوں کے صفحات کو بھی نہیں بخشا اور ان کی گمراہیوں کی نشاندہی کرکے رکھ دی۔ ان کے پیشوائوں کی تحریروں میں موجود طعن وتشنیع کی وجہ سے ان کے ماہرین کی گردنوں پر وار کیا ، اور ان کے مقررین کی کذب بیانیوں سے الزامی جواب دے کر اور ان کی تقریروں کا رد کر کے بلکہ خود ان کے اعترافوں کی روشنی میں ان کے منہ پر تالا لگا دیا ،اور ان کے نکمے تعیش پرستوں کے لیے بے پناہ الجھنوں اور غموں کا سامان پیدا کردیا، سچ تو یہ ہے کہ ان کے عیار وں اورمکاروں کے لیے بھی انکار کا کوئی راستہ نہیں چھوڑا اور نہ کسی کینہ پرور کے لیے انکار کی گنجائش رہنے دی، اور نہ کسی ایسے شدید غالی شخص کے لیے (کوئی راستہ چھوڑا) جس نے علمی باتوں میں لا یعنی باتوں کو بے جا شامل کردیا، اس لیے آپ ہر ہر افترا پرداز کو کھوکھلا اور ان میں سے ہر مکارکو بدنما دیکھیں گے(۱۹)
علامہ فضل حق خیرآبادی جیسے صاحب ِ فکر وبصیرت کے ان کلمات سے اس کتاب کی علمی وتحقیقی قدر وقیمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔
(۳)ازالۃ الغین عن بصارۃ العین: یہ کتاب بھی رد شیعہ میں ہے ،زبان فارسی ہے،یہ تین ضخیم جلدوں میں تھی، کتب خانۂ قادریہ ، بدایوں میں صرف جلد ثانی موجود ہے،یہ جلد جہازی سائز کے ۱۲۸۶ ( بارہ سو چھیاسی )صفحات پر مشتمل ہے،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جلد اول اور سوم بھی ہزار صفحات سے کیا کم ہوں گی۔
یہ نسخہ جمادی الاولیٰ ۱۲۹۵ھ /۱۸۷۸ء میں مطبع ثمر ہند لکھنؤ سے شایع ہوا ہے ۔
(۴)الداہیۃ الحاطمۃ:’’منتہی الکلام‘‘ کے جواب میں کسی شیعہ عالم نے ’’ استقصاء الافحام ‘‘ نامی کتاب تصنیف کی ، اس کے جواب میں مولانا فیض آبادی نے یہ کتاب لکھی، اس کتاب کے دونام ہیں،ایک ’’ استیعاب الکلام ‘‘ ہے،دوسرا نام’’ الداہیۃ الحاطمۃ علی من اخرج من اہل البیت فاطمۃ ‘‘ہے،’’ استقصاء الافحام ‘‘ میں غالباً مصنف نے یہ بحث چھیڑی تھی کہ کسی نبی کے اہل بیت صرف اس کے اوصیا ہوتے ہیں، اس اعتبار سے حضرت خاتون جنت سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اہل بیت میں سے نہیں ہیں، ہاں مجازاً انہیں اہل بیت کہا جاسکتا ہے کیوں کہ وہ ان اوصیا کے وجود کا سبب اور وسیلہ ہیں،مولانا فیض آبادی نے اس نظریے کا رد فرمایا ہے ، کتاب کے نام میں اسی مسئلے کی طرف اشارہ ہے ۔یہ کتاب مصنف کے صاحبزادے مولانا ابو الاسلام محمد اسحاق نے شایع کرانے کا ارادہ کیا تھا، دوران طباعت ان کی وفات ہوگئی، پھر ان کے صاحبزادے اور مصنف کے پوتے مولوی محمدسلمان نے اس کوپایہ تکمیل تک پہنچایا ،یہ کتاب ظفر پریس حیدرآباد سے شایع ہوئی ، سنہ درج نہیں ہے، یہ نسخہ کتب خانہ ٔ قادریہ، بدایوں میں موجود ہے،متوسط تقطیع کے ۵۳۰؍ صفحات پر مشتمل ہے ۔
(۵)صاعقہ ٔحسامیہ:اس کتاب کا پورا نام’’ صاعقہ ٔحسامیہ علی عدوِّ ملت ِاسلامیہ‘‘ ہے، یہ کسی شیعہ کی کتاب ’’ ضربت حیدری ‘‘ کے رد میںنصیر الدین حیدر کے زمانے میںبمقام لکھنؤ تالیف کی گئی ،یہ ’’ چند مجلدات ‘‘ پر مشتمل ہے (۲۰ )
(۶)صولت حیدریہ علی المجوس القدریۃ : اس کے بارے میں بھی اس سے زیادہ اور کچھ معلوم نہیں کہ یہ بھی کسی شیعہ مجتہد کے ایک رسالے کے جواب میں تصنیف کی گئی ،ازالۃ الغین کے خاتمۃ الطبع میں لکھاہے کہ ’’ در مجلدے ضخیم تالیف فرمود‘‘ (۲۱ )۔
(۷)نقض الرماح فی کبد النباح:اس کے بارے میں صرف اتنا ہی تذکرہ ملتا ہے کہ یہ ایک شیعہ مجتہد کی کسی کتاب کی تردید میں ’’ دو ضخیم جلد ‘‘ میں تالیف کی گئی،اور عن قریب ( یعنی ۱۲۹۵ھ میں) شایع ہونے والی ہے ( ۲۲)
(۸)اثبات الخرافۃ:اس کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ ’’ ثمرۃ الخلافۃ‘‘ نامی کسی شیعہ کی کتاب کے رد میں لکھی گئی تھی ۔(۲۳ )
(۹)رسالۃ المکاتیب لرویۃ الثعالب والغرابیب:مؤ لف تذکرہ علمائے ہند اور صاحب ِ نزہۃ الخواطر نے اس کتاب کا نام ’’ رویۃ الثعالیب والغرابیب فی انشاء المکاتیب ‘‘ لکھا ہے ، اس کے دو قلمی نسخے ہمارے علم میں ہیں، ایک رضا لائبریری رامپور میں دوسرا عربی فارسی انسٹی ٹیوٹ ( ٹونک راجستھان ) کے کتب خانے میں ، یہ دونوں نسخے بالترتیب مئی ۲۰۱۱ء اور جنوری ۲۰۱۲ء میں ہماری نظر سے گزرے ہیں ،کتب خانہ ٔ ٹونک کی فہرست مخطوطات کے مرتب محمد عمران خاں نے اس کتاب کا تعارف ان الفاظ میں کروایا ہے :
یہ کتاب ان مکاتیب ومسودات کے جواب میں لکھی گئی ہے جو نورالدین حسین نامی شیعہ اور مولوی سبحان علی صاحب کے درمیان ہوتی رہتی تھی ، مولوی حیدر علی صاحب کو یہ تمام چیزیں حاصل ہوگئیں تھیں، دیباچہ کتاب میں اس کی تفصیل بھی لکھی ہے ۔( ۲۴ )
یہ نسخہ ۹۹؍ اوراق ( ۱۹۸؍ صفحات ) پر مشتمل ہے۔
مولانا کی ان تصانیف کے علاوہ چند کتابوں کے صرف نام مذکور ہیں مثلاً :
(۱۰)مناسک حیدریہ مشہور بہ انوار بدریہ ، اردو ( خاتمۃ الطبع ازالۃ الغین )
(۱۱)نضارۃ العینین عن شہادۃ الحسنین ( نزہۃ الخواطر،و تذکرہ علمائے ہند )
(۱۲)کاشف اللثام عن تدلیس المجتہد القمقام ( نزہۃ الخواطر،وتذکرہ علمائے ہند )
(۱۳)رسالہ در اثبات زواج حضرت عمر بن خطاب مع سیدہ کلثوم بنت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم ( نزہۃ الخواطر ، و تذکرہ علمائے ہند )
(۱۴) رسالہ در بیعت مرتضوی ( تذکرہ علمائے ہند )
شاہ اسماعیل دہلوی کی تحریک اور مولانا فیض آبادی:گذشتہ نصف صدی سے ہمارے بعض اہل قلم یہ تأثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ شاہ اسماعیل دہلوی کی تحریک (جس کو تحریک اصلاح وتجدید ، تحریک احیائے دین، تحریک دعوت توحید ورد شرک ، ، تحریک اقامت سنت ورد بدعت اور نہ جانے کیاکیا لکھا اور کہا جاتا ہے) دراصل حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے ہی افکار ونظریات اور مسلک ومنہاج پر قائم تھی،جن لوگوں نے ابتدائی زمانے میں شاہ اسماعیل کی اس تحریک کی مخالفت کی ان علما کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ یاتو شیعوں کے آلۂ کار تھے یا پھر انگریز حکومت کے وظیفہ خوار ،اور ان کو بھی شاہ صاحب کی مخالفت میں کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہوئی، گنتی کے چند دنیا پرست قسم کے علمااور بدعات وخرافات کے عادی کچھ جاہل صوفیاان حضرات کے ساتھ ہوگئے تھے ،ان مخالفت کرنے والے علما کو شاہ اسماعیل دہلوی کا مخالف نہیں لکھا جاتا ہے بلکہ ’’ خانوادۂ شاہ ولی اللہ کا مخالف ودشمن ‘‘ لکھا جاتا ہے ۔یہ باتیں اتنے تواتر، تسلسل، تکرار اور تحقیق، تاریخ اور غیر جانبداری کے دعووں کے ساتھ لکھی اور کہی گئیں کہ ان کو’’ مسلمات‘‘ یا ’’ تاریخی حقائق ‘‘ کا درجہ مل گیا ۔اب علمی حلقوں میں اس کے خلاف کوئی بات کہنا’’ تاریخی حقائق ‘‘سے اپنی جہالت کا اعلان کرنے کے مترادف ہے ۔
تفصیل کا یہ موقع نہیںہے یہاںہمیں صرف مولانا حیدر علی فیض آبادی کے بارے میں عرض کرنا ہے کہ وہ شاہ رفیع الدین بن شاہ ولی اللہ کے شاگرد ہیں، شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے حلقۂ تلامذہ میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں، ایک مدت تک شاہ عبدالعزیز کی صحبت سے فیض اٹھایا ہے،شاہ صاحب سے محبت اور تعلق خاطر کے نتیجے میں ان کی نامکمل تفسیر کی تکمیل کرنے بیٹھے تو ۲۷؍جلدیں قلم بندکر ڈالیں، اس کے باوجود شاہ اسماعیل دہلوی کے خلاف علامہ فضل حق خیرآبادی اور مولانا شاہ فضل رسول بدایونی کی تحریک کی بھر پور تائید وحمایت کرتے نظر آتے ہیں، آپ نے پیچھے پڑھا کہ حضرت سیف اللہ المسلول کی کتاب ’’ فصل الخطاب‘‘ جو خاص شاہ اسماعیل دہلوی کے رد میں لکھی گئی اس کے مصدقین میں مولانا فیض آبادی شامل ہیں ،بہادر شاہ ظفر کے استفتا کے جواب میں حضرت سیف اللہ المسلول کے فتوے پر بھی مولانا فیض آبادی تصدیق کررہے ہیں،پھر المعتقد المنتقدجیسی’’ ردِّ وہابیت‘‘ کی کتاب پر تقریظ لکھ کر انہوں نے سیف اللہ المسلول کے موقف کی پھر پور تائید کی ہے ۔ اس کے علاوہ شاہ اسماعیل دہلوی کے ایک وکیل صفائی سید حیدر علی ٹونکی کے خلاف امکان کذب اور امتناع نظیر جیسے مسائل پرجوفتویٰ مرتب کیاگیا اس کی تصدیق کرنے والوں میںبھی مولانا فیض آبادی شامل ہیں۔کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ شاہ اسماعیل دہلوی کے خلاف چلائی جانے والی علمائے اہل سنت کی تحریک ولی اللٰہی مسلک یا مکتب ِ عزیزی کے خلاف نہیں تھی، بلکہ یہ تحریک شاہ اسماعیل کے ان مخصوص نظریات وخیالات کے خلاف تھی جو نہ صرف یہ کہ جمہورامت اور سواد اعظم کے مخالف تھے بلکہ ان کی رو سے خود شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی بھی مشرک اوربدعتی قرارپاتے تھے ۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مولانا شاہ مخصوص اللہ دہلوی، مولانا محمد موسیٰ دہلوی ،مولانا رشید الدین خاں دہلوی ، علامہ فضل حق خیرآبادی ، مفتی صدرالدین آزردہ ؔ ،شاہ احمد سعید نقشبندی، مولانا محمد شریف دہلوی، مولانا کریم اللہ فاروقی دہلوی اور مولانا حیدر علی فیض آبادی جیسے خانوادہ ٔولی اللہ کے تلامذہ ومستفیدین اور مدرسہ ٔ عزیزی کے فضلا شاہ اسما عیل دہلوی کے خلاف صف آرا نظر نہ آتے۔
بر سبیل تذکرہ یہ محض ایک مثال ہے ورنہ تاریخی شواہدسے یہ بات ثابت کی جاسکتی ہے کہ ۱۲۴۰ھ سے لے کر ۱۲۷۵ھ تک ہونے والی ’’ تحفظ ناموسِ رسالت‘‘کی جنگ میں شاہ اسماعیل دہلوی کی مخالف صف میں اکثر اجلۂ علما مدرسہ عزیزی کے نامور فضلا تھے، جب کہ شاہ صاحب کی حمایت کرنے والے چند علما میںایک آدھ کے علاوہ کوئی بھی قابل ذکر عزیزی فاضل نظر نہیں آتا، ہمارے مؤرخین ومحققین کو دیانت داری سے اس پورے تاریخ پر نظرثانی کرنا چاہیے، تاکہ تاریخی حقائق کے گرد جمی ہوئی پروپگنڈے کی دبیز تہہ صاف ہوسکے ۔
مراجع
(۱)یہ میرؔ کا شعر ہے ، پہلے مصرع میں’’ تم نے ‘‘ہے ، مَیں نے موقع کی مناسبت سے مصرع میں تصرف کرکے ’’ تم نے ‘‘ کی جگہ ’’ ہم نے ‘‘ کردیا ہے۔
(۲) نزہۃ الخواطر: حکیم سید عبدالحی رائے بریلوی، ج ۷ ، ص ۱۷۳، رائے بریلی،۱۴۱۳ھ
(۳)ازالۃ الغین : خاتمۃ الطبع، جلد ۲؍ ص ۱۲۸۵؍مطبع ثمر ہند لکھنو،۱۲۹۵ھ
(۴)یہ سوانحی خاکہ ’’ نزہۃ الخواطر‘‘ اور ’’تذکرہ علمائے ہند‘‘ سے حذف واختصار کے ساتھ ماخوذ ہے۔
(۵)نزہۃ الخواطر : سید عبدالحی رائے بریلوی ، ج۷؍ ص ۱۷۴، رائے بریلی، ۱۴۱۳ھ
(۶)تذکرۂ علما ئے ہند: رحمان علی ، ترجمہ از ایوب قادری، ص ۱۷۵، پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کراچی ،۱۹۶۱ء
(۷) مظہر العلما: سید محمد حسین سید پوری، ص ۶۳، قلمی مخزونہ کتب خانہ ٔ قادریہ بدایوں
(۸)علامہ محمد فضل حق خیرآبادی : سلمہ سیہول ،ص۱۵۷، مکتبہ قادریہ ، لاہور،۲۰۰۱ء
(۹)فتویٔ تکفیرسید حیدر علی ٹونکی :مرتب عبدالستار، ص ۲۰، مطبع الہدایہ، دہلی ۱۲۶۹ھ
(۱۰)تاریخی فتویٰ : فضل رسول بدایونی ، ص۲۰، مطبع مفید الخلائق دہلی، ۱۲۶۸ھ
(۱۱)فصل الخطاب : فضل رسول بدایونی ، ص۱۲، دہلی ۱۲۶۸ھ
(۱۲)ترجمہ از عربی،المعتقد المنتقد: فضل رسول بدایونی ، ص۷، مطبع اہل سنت پٹنہ،۱۳۲۱ء
(۱۳) ازالۃ الغین:خاتمۃ الطبع ،ج ۲/ص ۱۲۸۵،مطبع ثمر ہند لکھنؤ ۱۲۹۵ھ
(۱۴) نزہۃ الخواطر : سید عبدالحی رائے بریلوی ، ج۷؍ ص ۱۷۴، رائے بریلی، ۱۴۱۳ھ
(۱۵)ازالۃ الغین:خاتمۃ الطبع ،ج ۲/ص ۱۲۸۵،مطبع ثمر ہند لکھنؤ ۱۲۹۵ھ
(۱۶)ازالۃ الغین:خاتمۃ الطبع ،ج ۲/ص ۱۲۸۵،مطبع ثمر ہند لکھنؤ ۱۲۹۵ھ
(۱۷) تکملہ تفسیر فتح العزیز ۔ ایک تعارف : محمد برہان الدین سنبھلی ، مشمولہ مجموعہ ٔمقالات بعنوان ’’قرآن کریم کی تفسیریں چودہ سو سال میں‘‘ ،از ص ۲۰۲،تاص ۲۱۰، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ ،۱۹۹۵ء
(۱۸)مرجع سابق: ص ۲۰۸/۲۰۹
(۱۹)باغی ٔ ہندوستان: عبدالشاہد خاں شیروانی، ص ۱۷۳،المجمع الا سلا می مبارک پور ،۱۹۸۵ء
(۲۰) ازالۃ الغین:خاتمۃ الطبع ،ج ۲/ص ۱۲۸۵،مطبع ثمر ہند، لکھنؤ ۱۲۹۵ھ
(۲۱)مرجع سابق ، نفس صفحہ
(۲۲)مرجع سابق ، نفس صفحہ
(۲۳)مرجع سابق ، نفس صفحہ
(۲۴)خزینۃ المخطوطات : مرتب محمد عمران خاں، جلد ۳؍ ص ۱۹۸، مطبوعہ ٹونک، ۱۹۸۴ء
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.