You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
نفسیاتی جنگ کی اصطلاح دوسری جنگ عظیم میں سب سے پہلے امریکہ میں استعمال ہوئی اور پھر رفتہ رفتہ اس اصطلاح اور اس کے استعمال نے پوری دنیا میں اپنی جڑیں پکڑ لیں۔امریکہ کی نفسیاتی جنگ اور اس کی اصطلاح اپنے ابتدائی ادوار میں قومی اور جنگی مقاصد اور ان کی کاروائیوں کے لیے مختص(مخصوص) سمجھی جاتی تھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے ہمہ گیر اثرات اور اس کے کامیاب تجربات نے اس کے استعمال میں وسعت پیدا کی ، یہاں تک کہ ماہرین نے یہ سمجھ لیا کہ اس نفسیاتی جنگ کے ذریعے نہ صرف فوجی کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں بلکہ اس کے ذریعے اپنے عوام کے خیالات اور رویوں میں بھی تبدیلی لائی جا سکتی ہے ۔ انہیں دشمن کے خلاف مختلف کاروائیوں میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ اس کے ذریعے دنیا کی دوسری اقوام اور حکومتوں کی راۓ بھی تبدیل کی جا سکتی ہے۔
ماہرین ذرائع ابلاغ نے اس کی متفقہ طور پر یوں تعریف کی ہے"نفسیاتی جنگ سے مراد راۓ عامہ(عوام کی رائے) کی ترغیب اور تبدیلی کی ایسی کوششیں ہیں جن کی بنیاد پہلے سے طے شدہ پروگرام اور منظم منصوبہ بندی پر رکھی گئی ہو اور اس مقصد کے حصول کے لیے ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنے کا پروگرام ہو"۔
(آسان الفاظ میں نفسیاتی جنگ وہ جنگ ہے جو ذرائع ابلاغ سے لڑی جائے اور دشمن یا مخالف کو نفسیاتی طور پر اتنا زچ کر دیا جائے کہ وہ لڑنے کے قابل نہ رہے اس کے حوصلے پست کر دئیے جائیں۔)
اس لیے اہل یہود کی سربراہی میں میڈیا نے اسلام کے خلاف اس طرح کی افواہ سازی شروع کی ۔ جیسے :
1- مریکہ اور مفربی ملکوں میں مقیم (رہنے والے) مسلمانوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافس کی خبر پھیلانا ۔
2- اسلام کا بطور مذہب بے پناہ مقبولیت کا ہوا کھڑا کرنا۔
3- اسلامی تہذیب سے مفرب کے سیاسی اور معاشی اور سماجی خطرات کا ذبردست پروپیگنڈا کرنا۔
4- اسلامی نظریات پر دہشت گردی کے فروغ کی افواہ گرم کرنا وغیرہ۔
ان کے نتیجے میں اقوام عالم نے اسلام کے خلاف شدید رد عمل کا اظہار کیا۔ شاید اسی لیے نفسیاتی جںگ میں پروپیگنڈا یا افواہ سازی کو سب سے ذیادہ مؤثر اور طاقتور قرار دیا جاتا ہے جو چند گھنٹوں میں کسی کی شخصیت مجروع ، کسی کی قیادت متزلزل اور کسی کی حکومت کا تختہ پلٹنے کے لیے کافی ہے ۔ نفسیاتی جنگ میں افواہوں کے نتائج نے مغربی ملکوں کے اعلی مناصب(عہدوں) پر بیٹھے یہودیوں کو اس قدر متاثر کیا کہ انہوں نے امریکہ میں نفسیاتی جنگ کے لیے باقاعدہ تربیت گاہیں قائم کر دیں تا کہ یہودی بالخصوص اسلام کے خلاف محاذ آرائی میں انہیں 100 فی صد کا میابیوں کے امکانات رہیں۔
مغربی ممالک بالخصوص امریکہ میں اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت ، اس کا پرکشش نظامہاۓ زندگی ، دلوں کو تسخیر (فتح) کرنے والی تہذیب ، اور زندگی کو ایک منظم اور مربوط طریقے سے گزارنے کی تعلیمات نے وہاں کے گمراہ کن (گمراہ کرنے والے) نظریات ، آزادئ فکر کے نام پر عریانیت(ننگا پن) اور طرز رہائش کے نام پر رشتوں کی پامالی نے عیسائیوں کو اسلام کی طرف متوجہ کیا ، جو بھٹکے ہوۓ آہو (ہرن) کو سوۓ حرم (حرم کی طرف) چلنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ ایسے میں امریکہ کے اعلی مناصب پر متمکن(صاحب اختیار) اہل یہود کے دیرینہ خواب " اقوام عالم پر حکومت" اور " مشرق وسطی میں اسرائیلی استحکام (مضبوطی)" کی تکمیل کے لیے سواۓ اس کے اور کوئی دوسری راہ نہ تھی کہ وہ اسلامی ممالک کے خلاف صف آرا(جنگ کے لیے آمادہ) نہ ہوں ۔ اس کے لیے کسی ایک اسلامی ملک کے خلاف محاذ آرائی سے انہیں اپنے خواب کی تعبیر نہیں مل سکتی تھی اس لیے انہوں نے برسوں کے تجربات اور منصوبوں کے نتیجے میں نفسیاتی جنگ کو اسلام کے خلاف خطرناک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔
اپنے سازشی منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ان کے پالیسی سازوں نے منصوبے تیار کرنا شروع کیے، مسلمانوں ، مسلم تنظیموں ، دینی اداروں اور ان کے راہنماؤں کی فروگزاشتوں (غلطیوں) پر نظریں رکھی جانے لگیں، ان کی غفلتوں کا باریکی سے مطالعہ کیا جانے لگا۔ بالآخر ہندوستان میں کشمیری ، مشرق وسطی میں فلسطینی اور روس میں چیچنیائی مسلماںوں کا اپنے حقوق کے لیے حکوقت وقت سے جہادی تحریکات کے نام پر جارحانہ کشمکش (جنگجو کوشش) نے جہاد کے پاکیزہ مفہوم کو " دہشت گردی" سے موسوم کرنے کا موقعہ فراہم کیا۔ان کے پالیسی سازوں نے بنام جہاد(جہاد کے نام پر) پھیلائی گئی ان سرگرمیوں کو اسلام کا بنیادی نظریہ قرار دے کر اپنے تیار کردہ منصوبوں کو خبر رساں ایجنسیوں کے حوالے کیااور انہوں نے مختلف پہلوؤں سے ان منصوبوں کو خبروں ، تجزیوں اور تبصروں کی شکل میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے گھر گھر پہنچا دیا ۔ ظاہر ہے جب عالمی شہرت رکھنے والی خبر رساں ایجنسیاں ، سرکردہ اخبارات اور ٹی وی چینلز جن پر یہودیوں کا تسلط(غلبہ) ہے، جس ڈھنگ سے اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گرد کہہ کر افواہ سازی کی ہے اس کا لازمی نتیجہ تو یہ نکلنا ہی تھا۔ کیونکہ دنیا کے دیگر تمام اخبارات اور رسائل ، نیوز ایجنسیاں اور ٹی وی چینلز مغربی ذرائع ابلاغ کے اشارۂ ابرو کے محتاج ہیں ۔ مفربی ذرائع ابلاغ کی پھیلائی گئی افواہوں کے چند نمونے ذیل میں پیش کیے جارہے ہیں جنہوں نے آج انسانوں کے دلوں میں مسلمانوں کے تئیں نفرت اور کراہت کا احساس جگا دیا ہے ، اس نفسیاتی جنگ میں پرپیگنڈے کے ذریعے اسلام کے خلاف یہودیوں کے خطرناک عزائم ، وسائل پر ان کی مضبوط گرفت اور ذرائع ابلاغ پر ان کے بلا اشتراک(بغیر کسی کی شرکت اور شمولیت کے) تسلط کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
1
- 1963ء میں یہودی مزاج اور ان کے مفادات کے خلاف کمر بستہ ہونے والے امریکی صدر جان ایف کینیڈی کو یہودیوں نے قتل کروا دیا مگر امریکہ کے کچھ غیر جانبدار حکام نے جب اپنی تحقیقات کے نتیجے میں اس خطرناک سازش کی تہہ تک پہنچنے میں کامیابی حاص کی تو یہودی میڈیا نے اصل قاتل کی طرف سے پوری دنیا کی توجہ ہٹا کر اس کا الزام ایک عرب نوجوان بشارہ سرحان کے سر تھوپ دیا اور ساری دنیا کی توجہات اس عرب نوجوان کی طرف مبذول کر دی۔اس الزام کی وجہ سے اسلام کو نشانہ بنایا گیا اور اس کی حوب تشہیر کی گئی، نتیجے کے طور پر بشارہ سرحان اور اسلام کے خلاف مغربی ممالک میں نفرت کی لہر دوڑ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2- 1987ء کو جنوبی کوریا کے طیارہ کو دھماکے سے اڑا دیا گيا۔ ابھی اس کی تحقیقات ہو ہی رہی تھی کہ مغربی ذرائی ابلاغ نے یہ شوشہ چھوڑا کہ طیارہ دھماکے سے قبل(پہلے) بغداد اور بحرین ائیر پورٹ پر اترا تھا۔ اس لیے یہ بات یقینی ہو جاتی ہے کہ اس کے پیچھے کسی عرب مسلمان کا ہاتھ ہے۔ اس افواہ کو ہر زاویے سے نہایت منصوبہ بند طریقوں سے خبروں ، تبصروں ، اور انٹرویو کے ذریعے پھیلایا گیا۔ اسلامی نظریات ، اس کی تہذیب و تمدن اور تعلیمات کے خلاف ایک طوفان بدتمیزی برپا ہو گيا، مگر ایک سال بعد ہی تحقیقات کے نتیجے میں یہ بات سامنے آگئی کہ اس سازش کے پیچھے ایک خاتون ملوث تھی۔ اس کے باوجود مسلمانوں سے ان کے اور اسلام کے خلاف ہنگامہ آرائیوں کی وجہ سے کسی معذرت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کیونکہ انہیں ان افواہوں کے ذریعے اپنے منصوبوں کی تکمیل مقصود تھی اور وہ پوری ہو چکی تھی۔
3- جون 1983ء میں امریکہ کے Ditriot علاقے میں امریکی کسٹم اور ہوائی کمپنیوں کے اعلی عہدیداروں کے درمیان مغربی سازوسامان کے تعلق سے ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس میں ایک سینئر عہدیدار نے کہا کا 80 سے 85 فی صد عرب جو ان علاقوں میں رہتے ہیں وہ دہشت گرد ہیں اور جو نہیں ہیں وہ ان کے حامی ہیں ۔ یہ سنگین الزام ایک 29 سالہ کینیڈا کے رہنے والے عرب نوجوان کو ہیروئن اسمگل کرنے کی کوشش میں لگایا گیا جبکہ ہیروئن کی اسمگلنگ سے دہشت گردی کا کوئي تعلق نہیں ہے۔ اس کے بعد کیا ہوا خود امریکی سیاست کے معروف رازداں پال فنڈ نے اپنی کتاب They dare to spcak out میں کہتے ہیں کہ: اس کے بعد ایک مقامی جریدہ نے نسلی راگ الاپنا شروع کر دیا کہ یمن عرب ریپبلک کے ایک فوجی افسر کو امریکہ سے گنیں (توپیں) باہر اسمگل کرتے ہوے گرفتار کیا گيا۔ اس کے ایک ماہ بعد ماہنامہ Monthly Detriot نے ایک اسٹوری لگائی ۔
How the Arab came to Detriot .The Mid-East Connection.
مگر اس میں ایک مثال کا بھی ذکر نہ تھا کہ کسی امریکن عرب کھ کبھی گن اور ڈرگ اسمگلنگ میں پکڑا گیا ہو لیکن اس اسٹوری سے تقریبا 2 لاکھ 50 ہزار امریکن عربوں کو قانون شکن اور دہشت گرد گروہ کے طور پر پیش کیا گیا۔
11 ستمبر کا ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ اور اقوام عالم کے درمیان اسلام کے خلاف ذہن سازی اس کی تازہ مثال ہے۔
--------
ماھنامہ العاقب اکتوبر تا دسمبر 2009
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.