You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کواپنی امت سے جو بے پناہ محبت اور اسکی نجات و مغفرت کی فکر اور ایک ایک امتی پر آپ کی شفقت و رحمت کی جو کیفیت ہے اس پر قرآن میں خداوند قدوس کا فرمان گواہ ہے کہ
لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌ مِّنْ اَنۡفُسِکُمْ عَزِیۡزٌ عَلَیۡہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ بِالْمُؤْمِنِیۡنَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۱۲۸﴾
بے شک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پربہت ہی نہایت ہی رحم فرمانے والے ہیں۔(سورہ توبہ)
پوری پوری راتیں جاگ کر عبادت میں مصروف رہتے اور امت کی مغفرت کے لئے دربار باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری فرماتے رہتے۔ یہاں تک کہ کھڑے کھڑے اکثر آپ کے پائے مبارک پر ورم آ جاتا تھا۔
ظاہر ہے کہ حضور سرور انبیاء، محبوب کبریا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لئے جو جومشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پرفرض و واجب ہے۔
حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے آپ کے مقدس حقوق کو اپنی کتاب شفاء شریف میں بہت ہی مفصل طورپر بیان فرمایا۔ ہم یہاں انتہائی اختصار کے ساتھ اس کا خلاصہ تحریر کرتے ہوئے مندرج ذیل آٹھ حقوق کا ذکرکرتے ہیں۔
(۱) ایمان بالرسول (۲) اتباع ِسنت رسول
(۳)اطاعتِ رسول (۴)محبتِ رسول
(۵)تعظیم ِرسول (۶)مدح رسول
(۷)درود شریف (۸)قبرانور کی زیارت
------------------------
(۱) ایمان بِالرَّسُول
حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو کچھ آپ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے لائے ہیں، صدق دل سے اس کو سچا ماننا ہر ہر امتی پر فرض عین ہے اور ہر مومن کا اس پر ایمان ہے کہ بغیر رسول پر ایمان لائے ہوئے ہر گز ہرگز کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا قرآن میں خداوند عالم جل جلالہ کا فرمان ہے کہ
وَ مَنۡ لَّمْ یُؤْمِنۡۢ بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیۡنَ سَعِیۡرًا ﴿۱۳﴾
جو اﷲ اوراسکے رسول پر ایمان نہ لایاتو یقینا ہم نے کافروں کیلئے بھڑکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔(فتح)
اس آیت نے نہایت وضاحت اور صفائی کے ساتھ یہ فیصلہ کر دیا کہ جو لوگ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت پر ایمان نہیں لائیں گے وہ اگرچہ خدا کی توحید کا عمر بھر ڈنکا بجاتے رہیں مگر وہ کافر اور جہنمی ہی رہیں گے۔ اس لئے اسلام کا بنیادی کلمہ یعنی کلمۂ طیبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ہے، یعنی مسلمان ہونے کے لئے خدا کی توحید اور رسول کی رسالت دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔
=================
(۲)اِتباعِ سنّتِ رسول
حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ اور آپ کی سنت مقدسہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔ رب العزت جل جلالہ کا فرمان ہے کہ
قُلْ اِنۡ کُنۡتُمْ تُحِبُّوۡنَ اللہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوۡبَکُمْ ؕ وَاللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۳۱﴾
(اے رسول)فرما دیجئے کہ اگرتم لوگ اﷲ سے محبت کرتے ہو تومیری اتباع کرواﷲ تم کواپنا محبوب بنا لے گااورتمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اﷲ بہت زیادہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔(آل عمران)
اسی لئے آسمان امت کے چمکتے ہوئے ستارے، ہدایت کے چاند تارے، اﷲ و رسول کے پیارے صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم آپ کی ہر سنت کریمہ کی اتباع اور پیروی کو اپنی زندگی کے ہر دم قدم پر اپنے لئے لازم الایمان اور واجب العمل سمجھتے تھے اور بال برابر بھی کبھی کسی معاملہ میں بھی اپنے پیارے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس سنتوں سے انحراف یا ترک گوارا نہیں کر سکتے تھے۔
---------
>>> صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آخری تمنا
امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پہلے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے کفن مبارک میں کتنے کپڑے تھے اور آپ کی وفات کس دن ہوئی؟ اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی یہ انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے ہر ہر لمحات میں تو میں نے اپنے تمام معاملات میں حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک سنتوں کی مکمل طور پراتباع کی ہے۔ مرنے کے بعد کفن اور وفات کے دن میں بھی مجھے آپ کی اتباعِ سنت نصیب ہو جائے۔
(بخاری جلد۱ ص۱۸۶ باب موت یوم الاثنین)
>>>> حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بھنی ہوئی بکری
ایک مرتبہ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا گزر ایک ایسی جماعت پر ہوا جس کے سامنے کھانے کے لئے بھنی ہوئی مسلّم بکری رکھی ہوئی تھی۔ لوگوں نے آپ کو کھانے کے لئے بلایا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کہہ کرکھانے سے انکار کر دیا کہ حضور نبی کریم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے اور کبھی جو کی روٹی پیٹ بھر کر نہ کھائی میں بھلا ان لذیذ اور پر تکلف کھانوں کو کھانا کیونکر گوارا کر سکتا ہوں۔
(مشکوٰۃ جلد۱ ص۴۴۶ باب فضل الفقرا ء)
>>> حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پرنالہ
منقول ہے کہ حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا مکان مسجد نبوی سے ملا ہوا تھا اور اس مکان کاپرنالہ بارش میں انے جانے والے نمازیوں کے اوپرگراکرتاتھا۔امیرالمؤمنین حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس پرنالہ کو اکھاڑ دیا ۔حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آپ کے پاس آئے اور کہا کہ خدا کی قسم! اس پرنالہ کو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے میری گردن پر سوار ہو کر اپنے مقدس ہاتھوں سے لگایا تھا۔ یہ سن کر امیر المؤمنین نے فرمایا کہ اے عباس! مجھے اسکا علم نہ تھا اب میں آپ کو حکم دیتا ہوں کہ آپ میری گردن پر سوار ہو کر اس پر نالہ کو پھر اسی جگہ لگا دیجئے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
(وفاء الوفا جلد۱ ص۳۴۸)
============
(۳)اطاعتِ رسول
یہ بھی ہر امتی پر رسول خد ا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہرحکم کی اطاعت کرے اورآپ جس بات کاحکم دے دیں بال کے کروڑویں حصہ کے برابر بھی اس کی خلاف ورزی کا تصور بھی نہ کرے کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سر تسلیم خم کر دینا ہر امتی پر فرض عین ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے کہ
(1)اَطِیۡعُوا اللہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ
حکم مانو اللہ کااور حکم مانو رسول کا ۔(نساء)
(2) مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللہَ
جس نے رسول کاحکم مانابے شک اس نے اﷲ کا حکم مانا۔(نساء)
(۳)وَمَنۡ یُّطِعِ اللہَ وَالرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنْعَمَ اللہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیۡقِیۡنَ وَالشُّہَدَآءِ وَالصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾
اورجواﷲ اوراس کے رسول کاحکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گا جن پر اﷲ نے انعام فرمایا یعنی انبیاء اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یہ کیا ہی اچھے ساتھی ہیں۔(نساء)
قرآن مجید کی یہ مقدس آیات اعلان کر رہی ہیں کہ اطاعتِ رسول کے بغیر اسلام کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا اور اطاعت رسول کرنے والوں ہی کے لئے ایسے ایسے بلند درجات ہیں کہ وہ حضرات انبیاء و صدیقین اور شہداء و صالحین کے ساتھ رہیں گے۔
ہر امتی کے لئے اطاعت رسول کی کیا شان ہونی چاہیے اس کا جلوہ دیکھنا ہو تو اس روایت کو بغور پڑھئیے۔
-------
>>> سونے کی انگوٹھی پھینک دی
حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما نے روایت کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ سونے کی انگوٹھی پہنے ہوئے ہے۔آپ نے اس کے ہاتھ سے انگوٹھی نکال کر پھینک دی اور فرمایا کہ کیا تم میں سے کوئی چاہتا ہے کہ آگ کے انگارہ کو اپنے ہاتھ میں ڈالے؟ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے تشریف لے جانے کے بعد لوگوں نے اس شخص سے کہا کہ تو اپنی انگوٹھی کو اٹھا لے اور( اس کو بیچ کر) اس سے نفع اٹھا۔ تو اس نے جواب دیا کہ خدا کی قسم!جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس انگوٹھی کو پھینک دیا تو اب میں اس انگوٹھی کو کبھی بھی نہیں اٹھا سکتا۔( اور وہ اس کو چھوڑ کر چلا گیا) (2)(مشکوٰۃ جلد۲ ص۳۷۸ باب الخاتم)
========
(۴)محبت رسو ل
اسی طرح ہر امتی پر رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا حق ہے کہ وہ سارے جہان سے بڑھ کر آپ سے محبت رکھے اور ساری دنیا کی محبوب چیزوں کو آپ کی محبت کے قدموں پر قربان کر دے ۔خداوند قدوس جل جلالہ کا فرمان ہے کہ
قُلْ اِنۡ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیۡرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُۨ اقْتَرَفْتُمُوۡہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَاۤ اَحَبَّ اِلَیۡکُمۡ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖ وَجِہَادٍ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ فَتَرَبَّصُوۡا حَتّٰی یَاۡتِیَ اللہُ بِاَمْرِہٖ ؕ وَاللہُ لَایَہۡدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیۡنَ ﴿٪۲۴﴾
(اے رسول)آپ فرمادیجئے اگرتمہارے باپ اورتمہارے بیٹے اورتمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈرہے اورتمہارے پسندیدہ مکان یہ چیزیں اﷲ اور اسکے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اﷲ اپنا حکم لائے اور اﷲ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔ ( توبہ)
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر مسلمان پر اﷲ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی محبت فرض عین ہے کیونکہ اس آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو! جب تم ایمان لائے ہو اور اﷲ و رسول کی محبت کا دعویٰ کرتے ہو تو اب اس کے بعد اگر تم لوگ کسی غیر کی محبت کو اﷲ و رسول کی محبت پر ترجیح دو گے تو خوب سمجھ لو کہ تمہارا ایمان اور اﷲ و رسول کی محبت کا دعویٰ بالکل غلط ہو جائے گا اور تم عذاب الٰہی اور قہر خداوندی سے نہ بچ سکوگے۔
نیز آیت کے آخری ٹکڑے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جس کے دل میں اﷲ و رسول کی محبت نہیں یقینا بلا شبہ اس کے ایمان میں خلل ہے۔
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔
(بخاری جلد۱ ص۷ باب حب الرسول)
حضرات صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کتنی والہانہ محبت تھی اگر آپ کو اس کی تجلیوں کانظارہ کرناہے تومندرجہ ذیل واقعات کو عبرت کی نگاہوں سے دیکھئے اور عبرت حاصل کیجئے۔
----------
>>>ایک بڑھیا کا جذبہ محبت
آپ جنگ ِ اُحد کے بیان میں پڑھ چکے ہیں کہ شیطان نے بے پرکی یہ خبر اڑا دی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم شہید ہو گئے۔ یہ ہولناک خبر جب مدینہ منورہ میں پہنچی تو وہاں کی زمین دہل گئی یہاں تک کہ وہاں کی پردہ نشین عورتوں کے دل و دماغ میں صدمات غم کا بھونچال آ گیا اور قبیلہ بنی دینار کی ایک عورت اپنے جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے گھرسے نکل پڑی اورمیدان جنگ کی طرف چل پڑی راستے میں اس کو اپنے باپ اوربھائی اور شوہر کی شہادت کی خبر ملی مگر اس نے اس کی کوئی پروا نہیں کی اور لوگوں سے یہی پوچھتی رہی کہ مجھے یہ بتاؤ کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کیسے ہیں؟ جب اسے بتایا گیا کہ الحمد ﷲ!آپ ہر طرح بخیریت ہیں تواس سے اس بڑھیا کی تسلی نہیں ہوئی اور کہنے لگی کہ تم لوگ مجھے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا دیدار کرا دو۔ جب لوگوں نے اس کو رحمت عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قریب لے جا کر کھڑا کر دیا اور اس نے جمال نبوت کو دیکھا تو بے اختیار اس کی زبان سے یہ جملہ نکل پڑا کہ کُلُّ مُصِیْبَۃٍ بَعْدَکَ جَلَلٌ آپ کے ہوتے ہوئے ہر مصیبت ہیچ ہے ۔
(سیرۃ ابن ہشام جلد۳ ص۹۹ مطبوعہ مصر)
بڑھ کر اُس نے رُخِ انور کو جو دیکھا تو کہا!
توسلامت ہے تو پھر ہیچ ہیں سب رنج و الم
میں بھی اور باپ بھی شوہر بھی برادر بھی فدا
اے شہہ دیں!ترے ہوتے کیا چیز ہیں ہم
>>> حضرت ثمامہ کا اعلانِ محبت
حضرت ثمامہ بن اثال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ایمان لا کر کہنے لگے کہ اے محمد( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) خدا کی قسم!پہلے میرے نزدیک روئے زمین پر کوئی چہرہ آپ کے چہرہ سے زیادہ مبغوض نہیں تھالیکن آج آپ کا وہی چہرہ مجھے سب چہروں سے زیادہ محبوب ہے۔ خدا کی قسم!میرے نزدیک کوئی دین آپ کے دین سے زیادہ مبغوض نہ تھا۔ مگر اب آپ کا وہی دین میرے نزدیک سب دینوں سے زیادہ محبوب ہے۔ خداکی قسم! میرے نزدیک کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ مبغوض نہ تھا۔ لیکن اب آپ کا وہی شہر میرے نزدیک تمام شہروں سے زیادہ محبوب ہے۔
(بخاری جلد۲ ص۶۲۷ باب وفد بنی حنیفہ)
>>> بستر موت پر عشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات کا وقت آیا تو ان کی بیوی نے غم سے نڈھال ہو کر کہا کہ''وا حزناہ'' (ہائے رے غم) یہ سن کر حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے بستر موت پر تڑپ کر کہا کہ وَا طَرَبَاہُ غَدًا اَلْقَی الْاَحِبَّۃَ مُحَمَّدًا وَّحِزْبَہٗ (زرقانی علی المواہب) واہ رے خوشی میں کل تمام دوستوں سے یعنی محمد صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب سے ملوں گا۔
>>> حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور محبتِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ کو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کتنی محبت ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم!حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہمارے مال،ہماری اولاد،ہمارے باپ ،ہماری ماں اورسخت پیاس کے وقت پانی سے بھی بڑھ کر ہمارے نزدیک محبوب ہیں۔
(شفاء شریف جلد۲ ص۱۸)
>>> عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا عشق
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا پاؤں سن ہو گیا۔ لوگوں نے ان کو اس مرض کے علاج کے طور پر یہ عمل بتایا کہ تمام دنیا میں آپ کو سب سے زائد جس سے محبت ہواس کو یاد کرکے پکارئیے یہ مرض جاتا رہے گا۔ یہ سن کر آپ نےیامحمداہ کا نعرہ مارا اور آپ کا پاؤں اچھا ہو گیا۔
(شفاء شریف جلد۲ ص۱۸)
>>> کدو سے محبت
حضرت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کابیان ہے کہ ایک درزی نے حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی دعوت کی میں بھی ساتھ میں تھا۔ جوکی روٹی اور شوربا آپ کے سامنے لایا گیا جس میں خشک گوشت کی بوٹیاں اور کدو کے ٹکڑے پڑے ہوئے تھے۔میں نے دیکھا کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پیالے کے اطراف سے کدو کے ٹکڑے تلاش کرکے تناول فرماتے تھے۔ اسی لئے میں اس دن سے کدو کو ہمیشہ محبوب رکھتا ہوں۔
(بخاری جلد۲ ص۸۱۷ باب المرق)
منقول ہے کہ حضرت امام ابو یوسف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (شاگرد امام ابو حنیفہ علیہ الرحمۃ) کے سامنے اس روایت کا ذکر آیا کہ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو کدو بہت زیادہ پسند تھا۔ اس مجلس میں ایک شخص نے کہہ دیا کہ اَنَامَااُحِبُّہ،(میں تو اس کو پسند نہیں کرتا) یہ سن کر حضرت امام ابو یوسف نے تلوار کھینچ لی اور فرمایا کہ جَدِّدِ الْاِسْلَامَ وَاِلَّا قَتَلْتُکَ اپنے ایمان کی تجدید کرو ورنہ میں تجھ کو قتل کر ڈالوں گا۔
(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ ج۲ ص۷۷)
>>> سوتے وقت رسول کی یاد
عبدہ بنت خالد بن معدان کا بیان ہے کہ ہر رات حضرت خالد بن معدان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب اپنے بستر پر لیٹتے تو انتہائی شوق و اشتیاق کے ساتھ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کبار،مہاجرین و انصار کو نام لے لے کر یاد کرتے اور یہ دعا مانگتے کہ یا اﷲ! میرا دل ان حضرات کی محبت میں بے قرار ہے اورمیرا اشتیاق اب حد نیند آ جاتی تھی۔ اﷲ اکبر ؎
(شفاء شریف جلد۲ ص۱۷)
میں سو جاؤں یامصطفی کہتے کہتے کھلے آنکھ صل علیٰ کہتے کہتے
>>> محبتِ رسول کی نشانیاں
واضح رہے کہ محبتِ رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا دعویٰ کرنے والے تو بہت لوگ ہیں۔ مگر یاد رکھئے کہ اس کی چند نشانیاں ہیں جن کو دیکھ کر اس بات کی پہچان ہوتی ہے کہ واقعی اس کے دل میں محبت رسول کا چراغ روشن ہے۔ ان علامتوں میں سے چند یہ ہیں۔
(۱)آپ کے اقوال و افعال کی پیروی، آپ کی سنتوں پر عمل، آپ کے اوامرو نواہی کی فرمانبرداری، غرض شریعت مطہرہ پر پورے طور سے عامل ہو جانا۔
(۲)آپ کا ذکر شریف بکثرت کرنا، بہت زیادہ درود شریف پڑھنا، آپ کے ذکر کی مجالس مقدسہ مثلاًمیلادشریف اوردینی جلسوں کاشوق اوران مجالس مبارکہ میں حاضری۔
(۳)حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور تمام ان لوگوں اوران چیزوں سے محبت اور ان کا ادب و احترام جن کورسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے نسبت وتعلق حاصل ہے۔ مثلاً صحابہ کرام، ازواجِ مطہرات،اہل بیت اطہار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین،شہر مدینہ،قبرانور،مسجد نبوی، آپ کے آثارشریفہ و مشاہد مقدسہ، قرآن مجید و احادیث مبارکہ، سب کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرنا۔
(۴)حضورصلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے دوستوں سے دوستی اور ان کے دشمنوں یعنی بددینوں، بد مذہبوں سے دشمنی رکھنا۔
=======
(۵)تعظیمِ رسول
اُمت پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حقوق میں ایک نہایت ہی اَہم اور بہت ہی بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر فرض عین ہے کہ حضوراکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرے اور ہرگزہرگزکبھی ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے۔ احکم الحاکمین جل جلالہٗ کا فرمان والا شان ہے کہ
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰکَ شَاہِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیۡرًا ۙ﴿۸﴾لِّتُؤْمِنُوۡا بِاللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تُعَزِّرُوۡہُ وَ تُوَقِّرُوۡہُ ؕ وَ تُسَبِّحُوۡہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیۡلًا ﴿۹﴾
بے شک ہم نے تمہیں (اے رسول) بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا تا کہ اے لوگو! تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو اور صبح و شام اﷲ کی پاکی بولو۔(فتح)
------
>>> حضور کی توہین کرنے والا کافر ہے
حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ اس بات پرتمام علماء امت کا اجماع ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو گالی دینے والا یا ان کی ذات،ان کے خاندان، اُن کے دین،ان کی کسی خصلت میں نقص بتانے والا یا اس کی طرف اشارہ کنایہ کرنے والا یا حضور کو بدگوئی کے طریقے پر کسی چیزسے تشبیہ دینے والا یا آپ کو عیب لگانے والا یا آپ کی شان کو چھوٹی بتانے والا یا آپ کی تحقیر کرنے والا بادشاہ اسلام کے حکم سے قتل کر دیا جائے گا۔ اسی طرح حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر لعنت کرنے والا یا آپ کے لئے بددعا کرنے والا یا آپ کی طرف کسی ایسی بات کی نسبت کرنے والا جو آپ کے منصب کے لائق نہ ہو یا آپ کے لئے کسی مضرت کی تمنا کرنے والا یا آپ کی مقدس جناب میں کوئی ایسا کلام بولنے والا جس سے آپ کی شان میں استخفاف ہوتا ہو یا کسی آزمائش یا امتحان کی باتوں سے آپ کو عار دلانے والا بھی سلطان اسلام کے حکم سے قتل کر دیا جائے گا۔ اور وہ مرتد قرار دیا جائے گا اور اس کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی اور اس مسئلہ میں علماء امصار اور سلف صالحین کے مابین کوئی اختلاف نہیں ہے کہ ایسا شخص کافر قرار دے کر قتل کر دیا جائے گا۔ محمدبن سحنون علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ نبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں بدزَبانی کرنے والا اور آپ کی تنقیص کرنے والا کافر ہے اور جو اس کے کفر اور عذاب میں شک کرے وہ بھی کافر ہے اور توہین رسالت کرنے والے کی دنیامیں یہ سزا ہے کہ وہ قتل کر دیاجائے گا۔
(شفاء شریف جلد۲ ص۱۸۹ و ص۱۹۰)
اسی طرح حضرت علامہ قاضی عیاض رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلقین یعنی آپ کے اصحاب، آپ کے اہل بیت، آپ کی ازواج مطہرات وغیرہ کو گالی دینے والے کے بارے میں فرمایا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اہل بیت و آپ کی ازواج مطہرات اور آپ کے اصحاب کو گالی دینا یا انکی شان میں تنقیص کرنا حرام ہے اور ایسا کرنے والا ملعون ہے۔
(شفاء شریف جلد۲ ص۲۶۶)
یہی و جہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا اس قدر ادب و احترام کرتے تھے اور آپ کی مقدس بارگاہ میں اتنی تعظیم و تکریم کا مظاہرہ کرتے تھے کہ حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جب کہ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار مکہ کے نمائندہ بن کر میدان حدیبیہ میں گئے تھے تو وہاں سے واپس آ کر انہوں نے کفار کے مجمع میں علی الاعلان یہ کہا تھا کہ
اے میری قوم! میں نے بادشاہ رُوم قیصر اور بادشاہ فارس کسریٰ اور بادشاہ حبشہ نجاشی سب کا دربار دیکھا ہے مگر خدا کی قسم! میں نے کسی بادشاہ کے درباریوں کو اپنے بادشاہ کی اتنی تعظیم کرتے نہیں دیکھا جتنی تعظیم محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ) کے اصحاب محمد (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) کی کرتے ہیں۔
(بخاری جلد۱ ص۳۸۰ باب الشروط فی الجہاد وغیرہ)
چنانچہ مندرجہ ذیل مثالوں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے اصحاب کبار اپنے آقائے نامدار کے دربار میں کس قدر تعظیم و تکریم کے جذبات سے سرشار رہتے تھے۔
>>> سر پر چڑیاں
حضرت امیر المؤمنین علی مرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حاضرین مجلس کے ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت مقدسہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں کہ جس وقت آپ کلام فرماتے تھے توآپ کی مجلس میں بیٹھنے والے صحابہ کرام اس طرح سرجھکاکر خاموش اورسکون کے ساتھ بیٹھے رہاکرتے تھے کہ گویاانکے سروں پرپرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جس وقت آپ خاموش ہو جاتے توصحابہ کرام گفتگو کرتے اورکبھی آپ کے سامنے کلام میں تنازعہ نہیں کرتے اور جو آپ کے سامنے کلام کرتا آپ توجہ کے ساتھ اس کے کلام کو سنتے رہتے یہاں تک کہ وہ خاموش ہو جاتا۔
(شمائل ترمذی ص۲۵ باب ماجاء فی خلق النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
>>> حضرت عمرو بن العاص کے تین دور
حضرت عمروبن العاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنے بسترموت پراپنے صاحبزادے سے اپنی زندگی کے تین دور کا تذکرہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میری پہلی حالت یہ تھی کہ میں کفر کی حالت میں سب سے زیادہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا جانی دشمن تھا۔ اگر میں اس حالت میں مر جاتا تو یقینا میں دوزخی ہوتا۔ دوسری حالت مسلمان ہونے کے بعد تھی کہ کوئی شخص میرے نزدیک رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب نہ تھااور میری آنکھوں میں آپ سے زیادہ عظمت و جلالت والا کوئی بھی نہ تھا ۔ اور میں آپ کی ہیبت کی و جہ سے آپ کی طرف نظر بھر کر دیکھ نہیں سکتا تھا۔ یہی و جہ ہے کہ اگر مجھ سے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا حلیہ دریافت کیا جائے تو میں اچھی طرح بیان نہیں کر سکتا اگر میں اس حال پر مر گیا تو مجھے امید ہے کہ میں اہل جنت میں سے ہوتا۔ تیسری حالت میری گورنری اور حکومت کی تھی جس میں مجھے اپنا حال معلوم نہیں۔ (مسلم جلد۱ ص۷۶ باب کون الاسلام یہدم ماقبلہ)
>>> کون بڑا؟
امیر المؤمنین حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت قباث بن اُشیم سے پوچھا کہ تم بڑے ہو یا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم؟ انہوں نے کہا کہ بڑے تو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ہی ہیں مگر میری پیدائش حضور سے پہلے ہوئی ہے۔
(ترمذی جلد۲ ص۲۰۲ باب ماجاء فی میلاد النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
>>> حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ادب
حضرت براء بن عازب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے کچھ دریافت کرنے کا ارادہ رکھتا تھا مگر کمالِ ادب اور آپ کی ہیبت سے برسوں دریافت نہیں کر سکتا تھا۔ (2) (شفاء شریف جلد۲ ص۳۲)
>>> آثار شریفہ کی تعظیم
حضوراقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ کے ادب و احترام کو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اپنے ایمان کی جان سمجھتے تھے۔ بلکہ وہ چیزیں کہ جن کو آپ کی ذات والا سے کچھ تعلق و انتساب ہو ان کی تعظیم و توقیر کو بھی اپنے لئے لازم الایمان جانتے تھے۔ اسی طرح تابعین اور دوسرے سلف صالحین بھی آپ کے تبرکات کا بے حد احترام اور ان کا اعزاز و اکرام کرتے تھے۔ اس کی چند مثالیں ہم ذیل میں تحریر کرتے ہیں جو اہل ایمان کے لئے نہایت ہی عبرت خیز و نصیحت آموز ہیں۔
------
(۱)حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ٹوپی میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چند مقدس بال سلے ہوئے تھے۔ کسی جنگ میں ان کی ٹوپی سر سے گر پڑی تو آپ نے اتنا زبردست حملہ کر دیا کہ بہت سے مجاہدین شہید ہو گئے۔ آپ کے لشکر والوں نے ایک ٹوپی کے لئے اتنے شدید حملہ کو پسند نہیں کیا۔ لوگوں کا طعنہ سن کر آپ نے فرمایا کہ میں نے ٹوپی کے لئے یہ حملہ نہیں کیا تھا بلکہ میرے اس حملہ کی یہ و جہ تھی کہ میری اس ٹوپی میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے موئے مبارک ہیں مجھے یہ اندیشہ ہو گیا کہ میں ان کی برکتوں سے کہیں محروم نہ ہو جاؤں اور یہ کفار کے ہاتھوں میں نہ پہنچ جائیں اس لئے میں نے اپنی جان پر کھیل کر اس ٹوپی کو اٹھا کر ہی دم لیا۔
(شفاء شریف جلد۲ ص۴۴)
(۲)حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲتعالیٰ عنہما حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے منبر شریف پر جس جگہ آپ بیٹھتے تھے خاص اس جگہ پر اپنا ہاتھ پھرا کر اپنے چہرے پر مسح کیا کرتے تھے۔
(شفاء شریف جلد۲ ص۴۴)
(۳)حضرت ابو محذورہ رضی اﷲتعالیٰ عنہ جو صحابی اور مسجد حرام کے مؤذن ہیں ان کے سر کے اگلے حصہ میں بالوں کا ایک جوڑا تھا۔ جب وہ زمین پر بیٹھتے اور اس جوڑے کو کھول دیتے تو بال زمین سے لگ جاتے تھے۔ کسی نے ان سے کہا کہ آپ ان بالوں کو منڈواتے کیوں نہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ میں ان بالوں کو منڈوا نہیں سکتا کیونکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے میرے ان بالوں کو اپنے دست مبارک سے مسح فرما دیا ہے۔
(شفاء شریف جلد۲ ص۴۴)
(۴)حضرت ثابت بنانی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت انس بن مالک صحابی رضی اﷲتعالیٰ عنہ نے یہ فرمائش کی کہ یہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا مقدس بال ہے میں جب مر جاؤں توتم اس کو میری زبان کے نیچے رکھ دینا۔ چنانچہ میں نے ان کی وصیت کے مطابق ان کی زبان کے نیچے رکھ دیا اور وہ اسی حالت میں دفن ہوئے۔
(اصابہ ترجمہ انس بن مالک)
اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیز اموی خلیفہ عادل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے چند موئے مبارک اور ناخن دکھا کر لوگوں سے وصیت فرمائی کہ ان تبرکات کو آپ لوگ میرے کفن میں رکھ دیں۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔
(طبقات ابن سعد جلد۵ص۳۰۰)
(۵)حضرت امام شافعی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کا بیان ہے کہ حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے مجھ کو چند گھوڑے عنایت فرمائے تو میں نے عرض کیا کہ ایک گھوڑا آپ اپنی سواری کے لئے رکھ لیجئے توآپ نے فرمایاکہ مجھ کوبڑی شرم آتی ہے کہ جس شہرکی زمین میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آرام فرمارہے ہیں اس شہر کی زمین کومیں اپنی سواری کے جانور کے کھروں سے روندواؤں۔(چنانچہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی زندگی بھر مدینہ ہی میں رہے مگرکبھی کسی سواری پرمدینہ منورہ میں سوار نہیں ہوئے۔ )
(شفاء شریف ج۲ص۴۴)
(۶)حضرت احمد بن فضلویہ جن کا لقب زاہدہے، یہ بہت بڑے مجاہد تھے اور تیراندازی میں بہت ہی باکمال تھے۔ ان کا بیان ہے کہ جب سے مجھے یہ حدیث پہنچی ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے کمان بھی اُٹھائی ہے۔ اس وقت سے میں کمان کا اتنا ادب و احترام کرتا ہوں کہ بلا وضو کسی کمان کو ہاتھ نہیں لگاتا۔
(شفاء شریف جلد ۲ ص ۴۴)
(۷)حضرت امام مالک رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے سامنے کسی نے یہ کہہ دیا کہ مدینہ کی مٹی خراب ہے یہ سن کر حضرت امام موصوف نے یہ فتویٰ دیا کہ اس گستاخ کو تیس درے لگائے جائیں اوراس کو قید میں ڈال دیا جائے اور یہ بھی فرمایا کہ اس شخص کو قتل کر دینے کی ضرورت ہے جو یہ کہے کہ مدینہ کی مٹی اچھی نہیں ہے۔
(شفاء شریف جلد۲ ص۴۴)
(۸)ایک دن سقیفۂ بنی ساعدہ میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ رونق افروز تھے۔ آپ نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ ہمیں پانی پلاؤ۔ چنانچہ حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ایک پیالہ میں آپ کو پانی پلایا۔ حضرت ابوحازم کا بیان ہے کہ ہم لوگ حضرت سہل بن سعد کے یہاں مہمان ہوئے تو انہوں نے وہی پیالہ ہمارے واسطے نکالا اور برکت حاصل کرنے کے لئے ہم لوگوں نے اسی پیالے میں پانی پیا۔ اس پیالہ کو حضرت عمر بن عبدالعزیز اموی خلیفہ عادل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت سہل بن سعد سے مانگ کر اپنے پاس رکھ لیا۔
(صحیح مسلم جلد۲ ص۱۶۹ باب اباحۃ النبیذالذی الخ)
(۹)جب بنوحنیفہ کا وفد بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تو اس وفد میں حضرت سیار بن طلق یمامی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی تھے انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) مجھے اپنے پیراہن شریف کا ایک ٹکڑا عنایت فرمائیے میں اس سے اپنا دل بہلایا کروں گا۔
حضور نے ان کی درخواست منظور فرما کر ان کو پیراہن شریف کا ایک ٹکڑا دے دیا۔ ان کے پوتے محمد بن جابر کا بیان ہے کہ میرے والد کہتے تھے کہ وہ مقدس ٹکڑا برسہا برس ہمارے پاس تھا اور ہم اس کو دھوکر بغرض شفاء بیماروں کو پلایا کرتے تھے۔
(اصابہ ترجمہ سیار بن طلق)
(۱۰) مشک کا منہ کاٹ لیا
ایک صحابیہ حضرت کبشہ انصاریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے گھر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تشریف لے گئے اور ان کی مشک کے منہ سے آپ نے اپنامنہ لگا کر پانی نوش فرما لیا تو حضرت کبشہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا نے اس مشک کا منہ کاٹ کر تبرکاً اپنے پاس رکھ لیا ۔
(ابن ماجہ ص۲۵۳ باب الشرب قائماً)
(۱۱)حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس تلوار ذوالفقار حضرت زین العابدین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے پاس تھی۔ جب حضرت امام حسین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد وہ مدینہ منورہ واپس آئے تو حضرت مسور بن مخرمہ صحابی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا مجھے یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ بنو امیہ آپ سے اس تلوار کو چھین لیں گے۔ اس لئے آپ مجھے وہ تلوار دے دیجئے جب تک میرے جسم میں جان ہے کوئی اِس کو مجھ سے نہیں چھین سکتا۔
(بخاری جلد۱ ص۴۳۸ باب ما ذکر من درع النبی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)
=========
(۶) مدحِ رَسول
ہر اُمتی پر یہ بھی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا حق ہے جس کو ادا کرنا امت پر لازم ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح و ثنا کا ہمیشہ اعلان اور چرچا کرتے رہیں اور ان کے فضائل و کمالات کو علی الاعلان بیان کرتے رہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فضائل و محاسن کا ذکر جمیل رب العالمین جل جلالہ اور تمام انبیاء و مرسلین علیہم الصلاۃوالتسلیم کا مقدس طریقہ ہے۔حضرت حق جل مجدہ، نے قرآن کریم کو اپنے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح و ثناء کے قسم قسم کے گلہائے رنگا رنگ کا ایک حسین گلدستہ بنا کر نازل فرمایا ہے اور پورے قرآن میں آپ کی مقدس نعت و صفات کی آیات بینات اس طرح چمک چمک کر جگمگا رہی ہیں جس طرح آسمان پر ستاروں کی برات اپنی تجلیات کا نور بکھیرتی رہتی ہے۔ اور انبیاء سابقین کی مقدس آسمانی کتابیں بھی اعلان کر رہی ہیں کہ ہر نبی و رسول، اﷲ کے حبیب صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح و ثنا کا نقیب اور ان کے فضائل و محاسن کا خطیب بن کر عمر بھر فضائل مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے فضل و کمال اور ان کے جاہ و جلال کا ڈنکا بجاتا رہا۔ یہی و جہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مقدس دور میں ہزاروں اصحاب کبار ہر کوچہ و بازار اور میدان کارزار میں نعتِ رسول کے نغموں سے انقلاب عظیم برپا کرکے ایسے ایسے عظیم شاہکار عالم وجود میں لائے کہ کائنات ہستی میں ہدایت کی نسیم بہار سے ہزاروں گلزار نمودار ہو گئے۔ اور دورِ صحابہ سے آج تک پیارے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے خوش نصیب مداحوں نے نظم و نثر میں نعت پاک کا جتنا بڑا ذخیرہ جمع کر دیا ہے کہ اگر ان کا شمار کیا جائے تو دفتروں کے اوراق تو کیا روئے زمین کی وسعت بھی ان کی تاب نہ لا سکے گی۔
حضرت حسان بن ثابت اورحضرت عبداﷲ بن رواحہ، کعب بن زہیر وغیرہ صحابہ کرام رضی اﷲ تعالیٰ عنہم نے دربار نبوت کا شاعر ہونے کی حیثیت سے ایسی ایسی نعت پاک کی مثالیں پیش کیں کہ آج تک بڑے بڑے با کمال شعراء ان کو سن کر سر دھنتے رہتے ہیں اور اِنْ شاءَ اﷲ تعالیٰ قیامت تک حضور سرور عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی مدح و ثنا کا چرچا نظم و نثر میں اسی شان سے ہوتا رہے گا۔ ؎
رہے گا یوں ہی ان کا چرچا رہے گا پڑے خاک ہو جائیں جل جانے والے
=========
(۷)درود شریف
ہر مسلمان پر واجب ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھتا رہے۔ چنانچہ خالق کائنات جل جلالہ کا حکم ہے کہ
اِنَّ اللہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَ سَلِّمُوۡا تَسْلِیۡمًا ﴿۵۶﴾
بے شک اﷲ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں اے مومنو!تم بھی ان پر درود بھیجتے رہو اور ان پر سلام بھیجتے رہو جیسا کہ سلام بھیجنے کا حق ہے۔(احزاب)
حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کاارشاد ہے کہ جو مجھ پر ایک مرتبہ درود شریف بھیجتا ہے اﷲ تعالیٰ اس پر دس مرتبہ درود شریف (رحمت) بھیجتا ہے۔
اﷲ اکبر!شہنشاہ کونین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان محبوبیت کا کیا کہنا؟ ایک حقیر و ذلیل بندہ خدا کے پیغمبر جمیل کی بارگاہِ عظمت میں درود شریف کا ہدیہ بھیجتا ہے تو خداوند جلیل اس کے بدلے میں دس رحمتیں اس بندے پر نازل فرماتا ہے۔
درود شریف کے فضائل و فوائد بہت زیادہ ہیں یہاں بہ نظر اختصار ہم نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ خداوند کریم ہم تمام مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ درود شریف پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
==========
(۸)قبر انور کی زیارت
حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضۂ مقدسہ کی زیارت سنت موکدہ قریب واجب ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ
وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ جَآءُوۡکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ﴿۶۴﴾
اور اگریہ لوگ جس وقت کہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں آپ کے پاس آجاتے اور خداسے بخشش مانگتے اوررسول ان کے لئے بخشش کی دعا فرماتے تو یہ لوگ خدا کو بہت زیادہ بخشنے والا مہربان پاتے۔( نساء)
اس آیت میں گناہگاروں کے گناہ کی بخشش کے لئے ارحم الراحمین نے تین شرطیں لگائی ہیں اول دربار رسول میں حاضری۔ دوم استغفار۔ سوئم رسول کی دعائے مغفرت۔اور یہ حکم حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی ظاہری دنیوی حیات ہی تک محدود نہیں بلکہ روضہ اقدس میں حاضری بھی یقینا دربار رسول ہی میں حاضری ہے۔ اسی لئے علماء کرام نے تصریح فرما دی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دربار کا یہ فیض آپ کی وفات اقدس سے منقطع نہیں ہوا ہے۔ اس لئے جو گناہگار قبر انور کے پاس حاضر ہو جائے اور وہاں خدا سے استغفار کرے اور چونکہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم تو اپنی قبر انور میں اپنی امت کے لئے استغفار فرماتے ہی رہتے ہیں۔ لہٰذا اس گناہگار کے لئے مغفرت کی تینوں شرطیں پائی گئیں۔ اس لئے ان شاء اﷲ تعالیٰ اس کی ضرور مغفرت ہو جائے گی۔
یہی و جہ ہے کہ چاروں مذاہب کے علماء کرام نے مناسک حج و زیارت کی کتابوں میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ جو شخص بھی روضہ منورہ پر حاضری دے اس کے لئے مستحب ہے کہ اس آیت کو پڑھے اور پھر خدا سے اپنی مغفرت کی دعا مانگے۔
مذکورہ بالا آیت مبارکہ کے علاوہ بہت سی حدیثیں بھی روضہ منورہ کی زیارت کے فضائل میں واردہوئی ہیں جن کوعلامہ سمہودی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ نے اپنی کتاب وفاء الوفا اور دوسرے مستند سلف صالحین علماء دین نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل فرمایا ہے۔ ہم یہاں مثال کے طور پر صرف تین حدیثیں بیان کرتے ہیں۔
(۱) مَنْ زَارَ قَبْرِیْ وَجَبَتْ لَہٗ شَفَاعَتِیْ
(دار قطنی و بیہقی وغیرہ)
جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔
(2) مَنْ حَجَّ الْبَیْتَ وَلَمْ یَزُرْنِیْ فَقَدْ جَفَانِیْ(کامل ابن عدی)
جس نے بیت اﷲ کا حج کیا اور میری زیارت نہ کی اس نے مجھ پر ظلم کیا۔
(۳) مَن زَارَ نِیْ بَعْدَ مَوْتِیْ فَکَاَنَّمَا زَارَنِیْ فِیْ حَیَاتِیْ وَمَنْ مَّاتَ بِاَحَدِ الْحَرَمَیْنِ بُعِثَ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (دار قطنی وغیرہ)
جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی اس نے گویا میری حیات میں میری زیارت کی اور جو حرمین شریفین میں سے ایک میں مر گیا وہ قیامت کے دن امن والوں کی جماعت میں اٹھایا جائیگا۔
اسی لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مقدس زمانے سے لے کر آج تک تمام دنیا کے مسلمان قبر منور کی زیارت کرتے اور آپ کی مقدس جناب میں توسل اور استغاثہ کرتے رہے ہیں اور ان شاء اﷲ تعالیٰ قیامت تک یہ مبارک سلسلہ جاری رہے گا۔
چنانچہ حضرت امیر المؤمنین علی مرتضیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وفات اقدس کے تین دن بعد ایک اعرابی مسلمان آیا اور قبر انور پر گر کر لپٹ گیا پھر کچھ مٹی اپنے سر پر ڈال کر یوں عرض کرنے لگا کہ
یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ نے جو کچھ فرمایا ہم اس پر ایمان لائے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا جس میں اس نے ارشاد فرمایا: وَلَوْاَنَّھُمْ اِذْظَّلَمُوْآ اَنْفُسَھُمْ...الخ تو یا رسول اﷲ! (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم)میں نے اپنی جان پر (گناہ کرکے )ظلم کیا ہے اس لئے میں آپ کے پاس آیا ہوں تا کہ آپ میرے حق میں مغفرت کی دعا فرمائیں۔ اعرابی کی اس فریاد کے جواب میں قبر انور سے آواز آئی کہ اے اعرابی! تو بخش دیا گیا۔
(وفاء الوفا جلد۲ ص۴۱۲)
==============================
ضروری تنبیہ
ناظرین کرام یہ سن کر حیران ہوں گے کہ میں نے بچشم خود دیکھا ہے کہ گنبد خضرا کے اندرمواجہہ اقدس اوراس کے قریب مسجدنبوی کی دیواروں پرقبرانورکی زیارت کے فضائل کے بارے میں جو حدیثیں کندہ کی ہوئی تھیں، نجدی حکومت نے ان حدیثوں پرمسالہ لگوا کر ان کو مٹانے کی کوشش کی ہے اگرچہ اب بھی اس کے بعض حروف ظاہر ہیں۔ اسی طرح مسجد نبوی کے گنبدوں کے اندرونی حصہ میں قصیدہ بردہ شریف کے جن اشعار میں توسل واستغاثہ کے مضامین تھے ان سب کومٹادیاگیاہے۔باقی اشعارباقی گنبدوں پر اس وقت تک باقی تھے۔ میں نے جو کچھ دیکھا ہے وہ جولائی ۱۹۵۹ء کا واقعہ ہے اسکے بعد وہاں کیا تبدیلی ہوئی اس کا حال نئے حجاج کرام سے دریافت کرنا چاہیے۔
-----------
ابن تیمیہ کا فتویٰ
بعض لوگ انبیاء کرام اور اولیاء و شہداء کے مزاروں کی طرف سفر کرنے کو حرام و ناجائز بتاتے ہیں۔ چنانچہ وہابیوں کے مورث اعلیٰ ابن تیمیہ نے تو کھلے الفاظ میں یہ فتویٰ دے دیا کہ حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ کے قصد سے سفر کرنا گناہ ہے اس لئے اس سفر میں نمازوں کے اندر قصر جائز نہیں۔ (معاذ اﷲ)
ابن تیمیہ کے اس فتویٰ سے شام و مصر میں بہت بڑا فتنہ برپا ہو گیا۔ چنانچہ شامیوں نے ابن تیمیہ کے بارے میں علماء حق سے استفتاء طلب کیا اور علامہ برہان بن کاح فزاری نے تقریباً چالیس سطروں میں فتویٰ لکھ کر ابن تیمیہ کو کافر بتایا اور علامہ شہاب بن جہبل نے اس فتویٰ پر اپنی مہر تصدیق لگائی۔ پھر مصر میں یہی فتویٰ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی،چاروں مذاہب کے قاضیوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ چنانچہ علامہ بدر بن جماعہ شافعی نے اس پر یہ فیصلہ تحریر فرمایا کہ ابن تیمیہ کو ایسے فتاویٰ باطلہ سے بزجر وتوبیخ منع کیا جائے اگر باز نہ آئے تو اس کو قید کردیا جائے اورمحمد بن الجریری حنفی نے یہ حکم دیا کہ اسی وقت بلا کسی شرط کے اُس کو قید کیا جائے اور محمدبن ابی بکر مالکی نے یہ حکم دیا کہ اس کو اس قسم کی زجرو توبیخ کی جائے کہ وہ ایسے مفاسد سے باز آ جائے اور احمد بن عمر مقدسی حنبلی نے بھی ایسا ہی حکم لکھا نتیجہ یہ ہوا کہ ابن تیمیہ شعبان ۷۲۶ھ میں دمشق کے قلعہ کے اندر قید کیا گیا اور جیل خانہ ہی میں ۲۰ ذوالقعد ۷۲۸ھ کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوا۔مواخذہ اخروی ابھی باقی ہے۔
(منقول ازسیرت رسول عربی ص۵۳۳)
حدیث لاتشدالرحال
ابن تیمیہ اوراس کی معنوی اولاد یعنی فرقہ وہابیہ قبر انور کی زیارت سے منع کرنے کے لئے بخاری کی اس حدیث کو بطور دلیل کے پیش کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ اِلَّا اِلٰی ثَلٰثَۃِ مَسَاجِدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ مَسْجِدِ الرَّسُوْلِ وَمَسْجِدِ الْاَقْصٰی.
کجاوے نہ باندھے جائیں مگر تین ہی مسجدوں یعنی مسجد حرام و مسجد رسول و مسجد اقصیٰ کی طرف۔
(بخاری جلد۱ ص۱۵۸ باب فضل الصلوٰۃ فی مسجد مکۃ و المدینۃ)
اس حدیث کا سیدھا سادہ مطلب جس کو تمام شراح حدیث نے سمجھا ہے یہی ہے کہ تمام دنیامیں تین ہی مسجدیں یعنی مسجدحرام،مسجدرسول،مسجداقصیٰ ایسی مساجد ہیں جن کو تمام دنیا کی مسجدوں پر اجروثواب کے معاملہ میں ایک خاص فضیلت حاصل ہے۔ لہٰذا ان تین مسجدوں کی طرف کجاوے باندھ کر دور دور سے سفر کرکے جانا چاہیے لیکن ان تین مسجدوں کے سوا چونکہ دنیا بھر کی تمام مسجدیں اجروثواب کے معاملہ میں برابر ہیں۔ اس لئے ان تین مسجدوں کے سوا کسی دوسری مسجد کی طرف کجاوے باندھ کر دور دور سے سفر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس حدیث کو مشاہدہ مقابر کی طرف سفر کرنے یا نہ کرنے سے تو کوئی تعلق نہیں ہے۔
اگر اس بات کو عالموں کی زبان میں سمجھنا ہو تو یوں سمجھئے کہ اس حدیث میں اِلَّا اِلٰی ثَلٰثَۃِ مَسَاجِدَ مستثنیٰ مفرغ ہے اور مستثنیٰ مفرغ میںمستثنیٰ منہ ہمیشہ وہی مقدر مانا جائے گاجو مستثنیٰ کی نوع ہو مثلاً مَا جَاءَ نِیْ اِلَّا زَیْدٌ میں لفظ جِسْمٌ یا حَیْوَانٌ کو مستثنیٰ منہ مقدر نہیں مانا جائے گا اور اس عبارت کا مطلب مَاجَاءَ نِیْ جِسْمٌ اِلَّا زَیْدٌیا مَاجَاءَ نِیْ حَیْوَانٌ اِلَّا زَیْدٌ نہیں مانا جائے گا بلکہ اس کا مطلب یہی مانا جائے گا کہ مَا جَاءَ نِیْ رَجُلٌ اِلَّا زَیْدٌ تو اس حدیث میں بھی مستثنیٰ منہ بجز لفظمسجد اور کوئی دوسرا ہو ہی نہیں سکتا لہٰذا حدیث کی اصل عبارت یہ ہوئی کہ لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ اِلٰی مَسْجِدٍ اِلَّا اِلٰی ثَلٰثَۃِ مَسَاجِدَ یعنی تین مسجدوں کے سوا کسی دوسری مسجد کی طرف کجاوے نہ باندھے جائیں۔
چنانچہ اس حدیث کی بعض روایات میں یہ لفظ آیابھی ہے۔مثلاًایک روایت میں یوں آیا ہے کہ لاینبغی للمطی ان یشد رحالہ الی مسجد یبتغی فیہ الصلاۃ غیر المسجد الحرام والمسجد الاقصیٰ ومسجدی ھذا (قسطلانی و عمدۃ القاری) یعنی سواریوں پر کجاوے کسی مسجد کی طرف بقصد نماز نہ باندھے جائیں سوائے مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ اور میری اس مسجد کے۔
ملاحظہ فرمائیے کہ اس حدیث میں مستثنیٰ منہ ذکرکر دیا گیاہے اور وہ اِلٰی مَسْجِدٍ ہے بہر حال وہابیہ خذلہم اﷲ نے عداوت رسول میں اس حدیث کا مطلب بیان کرنے میں اتنی بڑی جہالت کا ثبوت دیا ہے کہ قیامت تک تمام اہل علم انکی اس جہالت پر ماتم کرتے رہیں گے۔
===================
ماخوذ از:
سیرتِ مصطفی
مؤلف
شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی علیہ رحمۃ اللہ الغنی
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.