You have been logged off, please login again.
You will be logged off automatically after due to inactivity.
جان لو!
زبان کاخطرہ بہت بڑاہے اوراس کے خطرے سے نجات صرف خاموشی میں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نبئ اکرم،نورِ مجسم، شہنشاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے خاموشی کی تعریف کی اورخاموش رہنے کی ترغیب دی ۔
چنانچہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عالیشان ہے:
مَنْ صَمَتَ نَجَا
ترجمہ:جوخاموش رہااس نے نجات پائی۔
======================
(جامع الترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ، باب حدیث من کان یؤمن اﷲ فلیکرم ضیفہ، الحدیث۲۵۰۱،ص۱۹۰۳)
سیِّدُ المبلغین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عالیشان ہے :
اَلصَّمَتُ حِکَمٌ وَقَلِیْلٌ فَاعِلُہٗ
ترجمہ: خاموشی حکمت ہے اوراِسے اختیارکرنے والے کم ہیں۔
===================================
(شعب الایمان للبیھقی، باب فی حفظ اللسان، فصل فی فضل السکوت عما لا یعنیہ، الحدیث۵۰۲۶،ج۴،ص۲۶۴)
شہنشاہِ نبوت،پیکرِ جود و حکمت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ ذیشان ہے:
مَنْ یَّتَکَفَّلُ لِیْ مَابَیْنَ لِحْیَیْہِ وَرِجْلَیْہِ اَتَکَفَّلُ لَہُ بِالْجَنَّۃِ
ترجمہ:جوشخص مجھے دوجبڑوں کے درمیان والی چیز( یعنی زبان)
اور
دو ٹانگوں کے درمیان والی چیز( یعنی شرمگاہ)کی ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔
===============
(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللِّسان، الحدیث۶۴۷۴،ص۵۴۳،مفہومًا)
مروی ہے کہ
حضرت سیِّدُنا معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:
یارسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم!مجھے وصیت فرمائیں۔
آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
- اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اس طرح عبادت کرگویا تواسے دیکھ رہا ہے،
- اپنے آپ کومرنے والوں میں شمارکر،
- اوراگرتو چاہے تومیں تجھے بتاؤں ،کہ تیرے لئے کون سی چیز بہتر ہے، پھرآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اپنی زبان مبارک کی طرف اشارہ فرمایا۔
========
(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب حفظ اللسان وفضل الصَمت، الحدیث۲۲، ج۷، ص۲ ۴۔۴۳)
حضرت سیِّدُنا معاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ
میں نے عرض کی:
یارسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم!
کیاہماری گفتگوپربھی مؤاخذہ ہوگا؟
آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
اے ابنِ جبل!تیری ماں تجھ پر روئے، لوگوں کوان کے نتھنوں کے بل جہنم میں گرانے والی زبان کی کاٹی ہوئی کھیتی (یعنی گفتگو)کے سوا اور کیا ہے۔
=======
(جامع الترمذی، ابواب الایمان، باب ماجاء فی حرمۃ الصلاۃ، الحدیث۲۶۱۶،ص۱۹۱۵)
امیرالمؤمنین حضرت سَیِّدُناابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے منہ میں چھوٹے چھوٹے پتھررکھتے تھے، جن کے ذریعے گفتگو سے پرہیزکرتے ،نیزآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زبان کی طرف اشارہ کرکے فرماتے:
اس نے مجھے ہلاکت کی جگہوں میں پہنچایا۔
حضرت سیِّدُنا عبداللہ ابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
اُس اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم جس کے سواکوئی معبودنہیں!
کوئی چیز زبان سے زیادہ قیدکی محتاج نہیں۔
اب ہم زبان کی آفات بیان کریں گے، پہلے چھوٹی آفات کو بیان کریں گے پھر درجہ بدرجہ بڑی آفات بیان کی جائیں گی۔
پہلی آفت:
-------------
بے مقصد کلام کرنا:
جان لو!
جب تم بے مقصدگفتگوکروگے، یعنی ایسی گفتگوجس کی تمہیں حاجت نہیں،تواپناوقت ضائع کروگے اوراس کے ذریعے اپنے آپ کوحساب وکتاب کے لئے پیش کروگے،
تواس طرح تم اچھی چیزدے کراس کے بدلے بری چیزلینے والے بن جاؤ گے ،
کیونکہ اگرتم اس کی بجائے اللہ عَزَّوَجَلَّ کاذکرکرتے یاخاموش رہتے یاغورو فکر میں مشغو ل رہتے تواس کے نتیجے میں بلند درجات پالیتے۔
شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ نصیحت نشان ہے:
مِنْ حُسْنِ اِسْلاَمِ الْمَرْءِ تَرْکُہ، مَالَایَعْنِیْہِ۔
ترجمہ:انسان کے اسلام کی اچھائی، فضول باتوں کو ترک کر دینا ہے۔
=====================================
(جامع الترمذی، ابواب الزھد، باب حدیث: من حسن اِسلام المرء ترکہ مالایعنیہ، الحدیث۲۳۱۷،ص۱۸۸۵)
حضرت سَیِّدُناانس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ
اُحد کے دن ہماراایک غلام شہیدہوگیا،ہم نے اسے بھوک کی وجہ سے پیٹ پرپتھرباندھے ہوئے پایا،اس کی ماں نے اس کے چہرے سے گردوغبارصاف کرتے ہوئے کہا:
اے بیٹے !تمہیں جنت مبارک ہو۔تونبئ اَکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
تمہیں کیسے معلوم ہوا ؟(کہ یہ جنتی ہے)ہوسکتاہے یہ فضول کلام کرتا ہو اور ایسی گفتگوسے منع کرتاہوجو اسے نقصان نہ پہنچاتی تھی۔
===================================
(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب النھی عن الکلام فیما لایعنیک، الحدیث۱۰۹، ج ۷ ، ص ۸۵)
============================
جان لو!
بے مقصد کلام یہ ہے کہ تومجلس میں ایسے سچے واقعات بیان کرے جو دورانِ سفر تجھے پہاڑوں اور جنگلوں میں پیش آئیں۔
============================
دوسری آفت:
--------------
فضول گوئی کرنا:
دوسری آفت یہ ہے کہ توایسی بات کا تکرار کرے جس کے تکرار کرنے کاکوئی فائدہ نہ ہواور اس میں زیادہ الفاظ استعمال کرے جن کی ضرورت نہ ہو۔
حضرت سَیِّدُناعطابن ابی رباح رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:
تم سے پہلے لوگ فضول کلام کوناپسندکرتے تھے۔
مثال کے طور پر یہ بات بھی فضول ہے کہ تم کہو،اے اللہ عَزَّوَجَلَّ !اس کُتّے کودورفرما۔
حضرت سیِّدُنا مطرَّف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عظمت کالحاظ رکھا کرواور کُتّے یاگدھے کانام لیتے وقت بھی اللہ عَزَّوَجَلَّ کاذکرنہ کرو
مثلاً یہ نہ کہو:اے اللہ عَزَّوَجَلَّ !انہیں دورکردے وغیرہ وغیرہ۔
فضول گوئی کی کوئی حدنہیں۔
نبئ اَکرم ،نورِ مجسم، شہنشاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عالیشان ہے:
طُوْبٰی لِمَنْ اَمْسَکَ الْفَضْلَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَ اَنْفَقَ الْفَضْلَ مِنْ مَّالِہٖ
ترجمہ:اس شخص کو مبارک ہو جواپنی زبان کو فضول گوئی سے روک لے اوراپنے زائد مال کوخرچ کردے۔
================
(شعب الایمان للبیھقی، باب فی الزکاۃ، فصل فی کراھیۃ ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۳۳۸۸،ج۳،ص۲۲۵، لسانہ:بدلہ: قولہ)
حضرت سیِّدُنا بلال بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں، سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
- کوئی شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضاوالا ایساکلمہ کہتاہے جس کے بارے میں اس کاخیال نہیں ہوتاکہ وہ کس بلندی تک پہنچے گا مگراس کی وجہ سے اللہ عَزَّوَجَلَّ قیامت تک اس کے لئے اپنی رضالکھ دیتاہے
- اورکوئی آدمی اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی والا ایک کلمہ کہتاہے ،حالانکہ وہ شخص اسے معمولی سمجھتاہے لیکن اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے سبب قیامت تک اس کے لئے ناراضگی لکھ دیتا ہے۔
==========================
(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب النھی عن فضول الکلام والخوض فی الباطل، الحدیث۷۰،ج۷،ص۶۷۔۶۸)
( امام غزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی فرماتے ہیں کہ )حضرت سیِّدُنا علقمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے تھے:
حضرت سیِّدُنا بلال بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت نے مجھے اکثرباتوں سے روکاہے کہ
تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
ایک شخص ایسی بات کہتاہے جس کے ذریعے اپنے پاس بیٹھنے والوں کوہنساتا ہے ،مگر وہ اس کے باعث ثریا(ستارے)سے بھی زیادہ دور جا گرتا ہے ۔
==========================
(الموسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب النھی عن فضول الکلام، الحدیث ۷۱، ج۷، ص۶۸۔۶۹)
تیسری آفت :
---------------
گناہوں کے متعلق کلام کرنا:
تیسری آفت یہ ہے کہ گناہوں کے متعلق گفتگوکرنا جس طرح عورتوں کے حالات، شراب کی مجالس اوربدکاروں کے مقامات کا ذکر کرنا اسی جانب اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس فرمان میں اشارہ ہے:
وَ کُنَّا نَخُوۡضُ مَعَ الْخَآئِضِیۡنَ ۙ﴿45﴾
ترجمۂ کنزالایمان:اوربیہودہ فکروالوں کے ساتھ بیہودہ فکر یں کرتے تھے۔ (پ29،المدثر:45)
اورہم نے دوسری آفت کے بیان میں حضرت سیِّدُنا بلال بن حارِث رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ذکر کردی ہے۔
چوتھی آفت :
---------------
بحث مباحثہ کرنااورجھگڑنا:
گذشتہ بیان کی گئی ممنوع چیزوں کے بارے میں جھگڑنا یا ان تک پہنچنے کی ترکیبیں بنانا بھی منع ہے۔
اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌ عَنِ الْعُیوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عزت نشان ہے:
لَا تُمَارِ اَخَاکَ وَلَا تُمَازِحْہ، وَلَا تَعِدْہُ مَوْعِدًا فَتُخْلِفَہ،۔
ترجمہ:اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو،نہ اس سے مذاق کرو اور اس سے وعدہ کرو تو اس کی خلاف ورزی نہ کرو۔
=====================
(جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی المراء، الحدیث۱۹۹۵، ص۱۸۵۲)
حُسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ خوشبودارہے:
- جوشخص حق پرہونے کے باوجودجھگڑا چھوڑدے، اس کے لئے جنت کے اعلیٰ درجے میں گھربنایاجاتاہے،
- اورجو باطل ہونے کی وجہ سے جھگڑا چھوڑدے اس کے لئے جنت کے گردونواح میں گھربنایاجاتاہے۔
================
(جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی المراء، الحدیث۱۹۹۳،ص۱۸۵۱، اعلٰی بدلہ وسط)
پانچویں آفت:
--------------
لڑائی جھگڑا کرنا:
یعنی انسان کا دوسرے کاحق یامال حاصل کرنے کے لئے جھگڑنا اور یہ بھی قابلِ مذمت ہے۔
اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے مروی ہے،
شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
اَبْغَضُ الرِّجَالِ اِلَی اللہِ اَلْاَلَدُّ الْخَصَمُ
ترجمہ:اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ہاں سب سے ناپسندیدہ شخص وہ ہے جو بہت زیادہ جھگڑا لو ہو۔
==========
(صحیح البخاری، کتاب المظالم، باب قول اﷲ تعالی:وَہُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ، الحدیث۲۴۵۷، ص ۱۹۳)
حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، حضور نبئ کریم، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ جَادَلَ فِی خُصُوْمَۃٍ بِغَیْرِ عِلْمٍ لَمْ یَزَلْ فِیْ سُخْطِ اللہِ حَتّٰی یَنْزِعَ۔
ترجمہ:جوشخص بے جاجھگڑتاہے، وہ ہمیشہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی ناراضگی میں ہوتاہے ،یہاں تک کہ اسے چھوڑدے۔
=======================
(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب ذم الخصومات، الحدیث۱۵۳،ج۷،ص۱۱۱)
چھٹی آفت :
--------------
تکلّف اوربناوٹ سے گفتگوکرنا:
تکلّف کے ساتھ فصاحت وبلاغت سے بھر پور اوربناوٹی کلام کرنا۔
اللہ کے رسول، رسولِ مقبول عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
اَنَاوَاَتْقِیَاءُ اُمَّتِیْ بَرَاءٌ مِّنَ التَّکَلُّفِ۔
ترجمہ:میں اورمیری امت کے پرہیزگارلوگ تکلف سے بری ہیں ۔
حضرت سیِّدَتُنا فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ،
حضور نبئ رحمت،شفیعِ اُمت ،قاسمِ نعمت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
میری امت کے بُرے لوگ وہ ہیں جوطرح طرح کی نعمتوں سے پروان چڑھتے ہیں،مختلف قسم کے کھانے کھاتے ہیں، طرح طرح کے لباس پہنتے ہیں اور(تکلف کے ساتھ) گفتگو کرتے ہیں۔
==========================
(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، الرقم۱۴۶۶۔عبدالحمید بن جعفر بن الحکم الانصاری،ج۷،ص۴)
ساتویں آفت :
---------------
گالی گلوچ اورفُحش کلامی کرنا:
یہ بھی قابلِ مذمّت ہے۔
چنانچہ نبی اَکرم،،نورِ مجسم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
اِیَّاکُمْ وَالْفُحْشَ فَاِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَاالتَّفَحُّشَ۔
ترجمہ:فحش کلامی سے بچو،بے شک اللہ عَزَّوَجَلَّ فحش کلامی اور بتکلف فحش کلام کرنے کوپسندنہیں فرماتا۔
========================
(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الغصب، الحدیث۵۱۵۴،ج۷،ص۳۰۷)
آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے غزوۂ بدرمیں قتل ہونے والے مشرکین کوگالی دینے سے منع فرمایااور ارشاد فرمایا :
اَلْبَذَاءُ وَالْبَیَانُ شُعْبَتَانِ مِنَ النِّفَاقِ
ترجمہ: فحش گوئی اور کثرتِ کلام نفاق کے دو شعبے ہیں۔
===================
(جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی العَیِّ، الحدیث۲۰۲۷،ص۱۸۵۴)
آٹھویں آفت :
-------------
لعنت کر نا:
لعنت خواہ حیوانات وجمادات پرکی جائے یاانسان پر( مذموم ہے)،
سرکارِ مد ینہ ، راحتِ قلب وسینہ ،سلطانِ باقرینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ نصیحت نشان ہے :
اَلْمُوْمِنُ لَیْسَ بِلَعَّانٍ
ترجمہ:مؤمن لعنت کرنے والانہیں ہوتا۔
====================
(جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی اللعنۃ، الحدیث۱۹۷۷،ص۱۸۵۰)
حضرت سیِّدُنا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:
جوقوم کسی پرلعنت بھیجتی ہے تو اس پراللہ عَزَّوَجَلَّ کاعذاب ثابت ہو جاتا ہے۔
اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاارشاد فرماتی ہیں،
رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حضرت سیِّدُنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے ایک غلام کولعن طعن کرتے سنا ،تواُن کی طرف متوجہ ہو کردویاتین مرتبہ ارشاد فرمایا:
اے ابوبکر!کیا صدیق بھی ہو اورلعن طعن بھی کرے ،
ربِّ کعبہ کی قسم!ایسانہیں ہوسکتا۔
حضرت سیِّدُنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی دن اپناغلام آزاد کر دیا
اور
نبئ رحمت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضرہوئے اورعرض کیا:
میں دوبارہ یہ کلمات نہیں کہوں گا۔
===================
(الادب المفرد للبخاری، باب من لعن عبدہ فأعتقہ، الحدیث۳۲۲، ص۱۰۰۔۱۰۱)
جان لو!
جس شخص کے لئے شریعت میں ملعون ہوناثابت ہوجیسے ابوجہل ، فرعون وغیرہ توایسوں پرلعنت بھیجنے میں حرج نہیں لیکن بندہ ان پرلعنت نہ بھیجے توبھی کوئی حرج نہیں اورجہاں تک یہودی کا تعلق ہے تواس پرلعنت بھیجنے میں خطرہ ہے کیونکہ ممکن ہے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کی قسمت میں اسلام قبول کرنالکھ دیاہو،تواس صورت میں لعنت بھیجنے میں خطرہ ہے لیکن اگرکوئی قید لگا کر لعنت بھیجنا چاہے تووہ یوں کہے:
اگروہ حالتِ کفر پر مرے تواس پرلعنت ہو۔
حاصلِ کلام یہ کہ ابلیس (یعنی شیطان) پر لعنت نہ بھیجنے میں کوئی حرج نہیں چہ جائیکہ کوئی دوسراہو،چنانچہ لعنت نہ کرنااور اس سے زبان کوبچاناہی بہترہے۔
نویں آفت :
-----------
گانے گانا اورشعرکہنا:
گانے کے بارے میں سماع کے باب میں ذکرگزرچکا ہے( لباب الاحیاء میں وہ حصہ پڑھ سکتے ہیں)،اورجہاں تک شعرکاتعلق ہے توکلام اچھاہوتواچھاہے اور برا ہو تو برا۔
لیکن شعر کہنے کو پیشہ بنا لینا مذموم ہے۔
چنانچہ حضور نبئ پاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عبرت نشان ہے:
لَأَنْ یَّمْتَلِیَ بَطْنُ اَحَدِکُمْ قَیْحاً خَیْرٌ لَّہ، مِنْ أَنْ یَّمْتَلِیَ شِعْرًا۔
ترجمہ:تم میں سے کسی کے پیٹ کا پیپ سے بھرجانا اشعار سے بھر جانے سے بہتر ہے۔
===========
(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب مایکرہ أن یکون الغالب علی الانسان الشِعْر۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۶۱۵۴،ص ۵۱۹)
(غلط)اشعار پر مداومت اختیارکرنااوران کے لئے سفرکرناممنوع ہے مگر صحیح اشعار کے جوازپربہت سی احادیث وارد ہیں۔
دسویں آفت :
---------------
ہنسی مز ا ح کرنا :
مزاح کی اصل یہ ہے کہ اس سے روکاگیاہے اوریہ مذموم ہے البتہ تھوڑاساہوتوجائزہے،
نبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عالیشان ہے :
لَا تُمَارِ اَخَاکَ وَلاَ تُمَازِحْہ،
ترجمہ:نہ اپنے بھائی کی بات کاٹو اور نہ اس کا مذاق اڑاؤ۔
================================
(جامع الترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجاء فی المراء، الحدیث۱۹۹۵، ص۱۸۵۲)
جان لو!
اس میں حد سے بڑھنا منع ہے کہ کثرتِ مذاق سے زیادہ ہنسی پیدا ہوتی ہے اور نتیجۃً دِل مُردہ ہو جاتا ہے۔
نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ ذیشان ہے:
اِنِّیْ لَأمْزَحُ وَلَااَقُوْلُ اِلَّاحَقًّا
ترجمہ:میں مزاح کرتاہوں ،لیکن حق بات کے سواکچھ نہیں کہتا۔
==================================
(أخلاق النبی لابی الشیخ الاصبہانی ،باب ما روی فی کظمہ الغیظ وحلمہ ،الحدیث۱۷۴،ج۱،ص۱۸۶)
حضور نبئ اَکرم،نورِ مجسم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حضرت سیِّدُنا صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا:
تم کھجوریں کھارہے ہو،جبکہ تمہاری آنکھوں میں دردہے توحضرت سیِّدُنا صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی:
میں دوسری طرف سے کھارہا ہوں۔
یہ سُن کر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم مسکرادئیے۔
==================================
(سنن ابن ماجۃ، ابواب الطب، باب الحمیۃ، الحدیث۳۴۴۳، ص۲۶۸۴)
گیارہویں آفت :
----------------
مذاق اُڑانااورتَمَسْخُر کرنا:
یہ بھی حرام ہے،
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشادفرمایا:
لَا یَسْخَرْ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوْمٍ
ترجمۂ کنزالایمان:نہ مرد مردوں سے ہنسیں۔(پ26،الحُجُرٰت:11)
اس کامعنٰی دوسرے کی توہین کرنا،
اسے حقیرجاننا
اور
اس کے عیبوں سے آگاہ کرنا ہے
اور بعض اوقات یہ چیز اس کے قول وفعل کی نقل اتارنے کے ذریعے پائی جاتی ہے۔
سیِّدُ المبلغین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
لوگوں کامذاق اڑانے والے کے لئے جنت کادروازہ کھولاجائے گااورکہاجائے گا آؤ! آؤ!
وہ غم اور تکلیف کی حالت میں آئے گا جب وہ آئے گا تواس پردروازہ بندکردیاجائے گا۔
پھردوسرادروازہ کھولاجائے گا اور کہا جائے گاآؤ!آؤ!
وہ غم والم میں آئے گا جب وہ آئے گاتواس پروہ دروازہ بندکردیاجائے گا،
اسی طرح مسلسل ہوتارہے گا،یہاں تک کہ اس کے لئے دروازہ کھولاجائے گااورکہاجائے گاآؤ!آؤ!
تووہ نہیں آئے گا۔
======================
(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب ما نُھی عنہ العباد ان یسخر بعضھم من بعض، الحدیث ۲۸۷،ج۷،ص۱۸۴)
حضرت سَیِّدُنامعاذبن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے،
پیکرِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ عَیَّرَاَخَاہُ بِذَنْبٍ قَدْ تَابَ مِنْہُ لَمْ یَمُتْ حَتّٰی یَعْمَلَہٗ۔
ترجمہ:جوآدمی اپنے( مسلمان)بھائی کواس کے کسی گناہ پر عار دِلاتا ہے جس سے وہ توبہ کرچکاہو، توعار دِلانے والامرنے سے پہلے اس عمل میں مبتلاہوگا۔
========
(جامع الترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ، باب فی وعید من عیرأخاہ بذنب، الحدیث۲۵۰۵،ص۱۹۰۳)
بارہویں آفت :
--------------
رازکوظاہرکرنا:
کسی کے رازکوظاہرکرنے سے منع کیاگیاہے،
کیونکہ اس کے ذریعے تکلیف پہنچائی جاتی ہے اوردودسروں کے حق کو معمولی سمجھاجاتاہے ،
شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال، دافِعِ رنج و مَلال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ نصیحت نشان ہے:
اَلْحَدِیْثُ بَیْنَکُمْ اَمَانَۃٌ
ترجمہ:گفتگوتمہارے درمیان امانت ہے۔
=====================
(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب حفظ السِر، الحدیث۴۰۶،ج۷،ص۲۴۴)
تیرہویں آفت :
---------------
جھوٹاوعدہ کرنا:
جھوٹاوعدہ کرنے سے بھی منع کیاگیاہے اوریہ نفاق کی علامات میں سے ہے،
اللہ عَزَّوَجَلَّ کافرمانِ عالیشان ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوْفُوۡا بِالْعُقُوۡدِ ۬ؕ
ترجمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو!اپنے قول پورے کرو۔ (پ6 ،المائدہ: 1)
نبئ رحمت،شفیعِ اُمت ،قاسمِ نعمت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ صداقت نشان ہے:
اَلْعِدَۃُ عَطِیَّۃٌ
ترجمہ:وعدہ پورا کرنا عطیہ ہے۔
=========================
(المعجم الاوسط، الحدیث۱۷۵۲،ج۱،ص۴۷۵)
چودہویں آفت :
--------------
جھوٹ بولنا اورجھوٹی قسم کھانا:
یہ نہایت قبیح گناہوں میں سے ہے ،
مروی ہے کہ
امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبئ اَکرم، نورِ مجسم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے وصالِ ظاہری کے بعدخطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اللہ کے رسول عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم اس مقام پرتشریف فرما ہوئے، جہاں آج میں کھڑاہوں ،
پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روپڑے اور فرمایا:
نبئ پاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:
اِیَّاکُمْ وَالْکِذْبَ،فَإنَّہ، مَعَ الْفَجُوْرِوَھُمَا فِی النَّار
ترجمہ :جھوٹ سے بچوکیونکہ جھوٹ بولنے والابدکارکے ساتھ ہوتا ہے اوروہ دونوں دوزخ میں ہوں گے۔
==================
(سنن ابن ماجۃ، ابواب الدعاء، باب الدعاء بالعفووالعافیۃ، الحدیث۳۸۴۹،ص۲۷۰۶)
سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگار عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عبرت نشان ہے:
اِنَّ الْکِذْبَ بَابٌ مِّنْ اَبْوَابِ النِّفَاقِ
ترجمہ:بے شک جھوٹ منافقت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔
====================================
(مساوی الأخلاق للخرائطی، باب ماجاء فی الکذب وقبح ما أتی بہ أھلہ، الحدیث۱۰۷،ج۱، ص۱۱۷)
بعض اسلاف سے منقول ہے کہ
اشارۃًجھوٹ بولنے کی گنجائش ہے
اور امیر المؤمنین حضرت سَیِّدُناعمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: توریہ ۱ ؎کرنے سے آدمی جھوٹ سے بچ جاتاہے۔
==============================
۱؎ :صدرالشریعہ،بدرالطریقہ،مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:
توریہ یعنی لفظ کے جوظاہرمعنی ہیں وہ غلط ہیں مگراس نے دوسرے معنی مرادلئے جوصحیح ہیں،ایساکرنابلاحاجت جائزنہیں اورحاجت ہوتوجائزہے۔
توریہ کی مثال یہ ہے کہ تم نے کسی کوکھانے کے لئے بلایاوہ کہتاہے میں نے کھاناکھالیا۔
اس کے ظاہرمعنی یہ ہیں کہ اس وقت کاکھاناکھالیاہے مگروہ یہ مرادلیتاہے کہ کل کھایاہے یہ بھی جھوٹ میں داخل ہے۔(مزیدارشاد فرماتے ہیں)احیائے حق کے لئے توریہ جائزہے۔
======================
(بہارِشریعت،حصہ۱۶،ص۱۶۰۔۱۶۱،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی ملخصا)
پندرہویں آفت :
---------------
غیبت:
ہم پہلے شریعت میں اس کے متعلق وارد ہونے والی مذمت کو ذکرکرتے ہیں ۔
چنانچہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:
وَلَا یَغْتَبۡ بَّعْضُکُمۡ بَعْضًا ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنۡ یَّاۡکُلَ لَحْمَ اَخِیۡہِ مَیۡتًا
ترجمۂ کنزالایمان:اورایک دوسرے کی غیبت نہ کروکیا تم میں کوئی پسندرکھے گاکہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے۔
===========
(پ26 ،الحُجُرٰت:12)
حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ
تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نُبوت، مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِعظمت وشرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
- ایک دوسرے سے حسد نہ کرو،
- آپس میں بغض نہ رکھو،
- بیع نجش نہ کرو۔۱؎
=================
۱؎:صدرالشریعہ،بدرالطریقہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:
نجش مکروہ ہے، حضوراقدس صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اس سے منع فرمایا۔
نجش یہ ہے کہ مبیع(یعنی بیچی جانے والی چیز) کی قیمت بڑھائے اورخودخریدنے کاارادہ نہ رکھتاہو۔
اس سے مقصودیہ ہوتاہے کہ دوسرے گاہک کورغبت پیدا ہو اور قیمت سے زیادہ دے کرخریدلے اوریہ حقیقۃًخریدارکودھوکادیناہے۔
جیساکہ بعض دکانداروں کے یہاں اس قسم کے آدمی لگے رہتے ہیں، گاہک کودیکھ کر چیز کے خریداربن کردام بڑھادیاکرتے ہیں اوران کی اس حرکت سے گاہک دھوکاکھاجاتے ہیں۔
گاہک کے سامنے مبیع کی تعریف کرنااوراس کے ایسے اوصاف بیان کرنا جونہ ہوں تاکہ خریداردھوکا کھا جائے، یہ بھی نجش ہے۔
(بہارِشریعت، ج۲، حصہ۱۱، ص۷۳۔۷۴)
================
- ایک دوسرے سے روگردانی نہ کرو
- اور ایک دوسرے کی غیبت بھی نہ کرو،
- اے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندو!بھائی بھائی بن جاؤ۔
========================
(صحیح مسلم، کتاب البر، باب تحریم ظلم المسلم ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۶۵۴۱،ص۱۱۲۷)
(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب الغیبۃ وذمھا، الحدیث۱۶۳،ج۷،ص۱۱۶تا۱۱۷)
اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ ہدایت نشان ہے:
غیبت سے بچو،بے شک غیبت زناسے سخت تر ہے،
کیونکہ جب آدمی زناکرکے توبہ کرتاہے تواللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی توبہ قبول فرماتاہے اورغیبت کرنے والے کی بخشش اس وقت تک نہیں ہوتی ،جب تک وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی غیبت کی ہے۔
=============================
(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب الغیبۃ وذمھا، الحدیث۱۶۴،ج۷، ص۱۱۸)
حضرت سیِّدُنا اَنَس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے،
حسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اَکبرعَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عبرت نشان ہے:
شبِ معراج میں ایسی قوم کے پاس سے گزرا،جواپنے چہروں کواپنے ناخنوں سے نوچ رہے تھے، میں نے جبریل علیہ السلام سے پوچھا:
یہ کون لوگ ہیں؟
انہوں نے جواب دیا:
یہ وہ ہیں جولوگوں کی غیبت کرتے تھے اوران کی عزّتوں کے پیچھے پڑتے تھے۔
=============
(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب الغیبۃ وذمھا، الحدیث۱۶۵،ج۷،ص۱۱۸)
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حضرت سَیِّدُناموسیٰ علیٰ نبیناوعلیہ الصلوٰۃو السلام کی طرف وحی بھیجی اور فرمایا:
جو شخص غیبت سے توبہ کرتے ہوئے فوت ہوا، وہ جنت میں سب سے آخرمیں داخل ہوگا اورجو غیبت پراصرارکی حالت میں فوت ہوا، وہ جہنّم میں سب سے پہلے داخل ہو گا۔
=======================
غیبت کی تعریف:
غیبت یہ ہے کہ
تم اپنے کسی بھائی کاذکران الفاظ میں کروکہ اگراس تک یہ بات پہنچے تووہ اِسے ناپسندکرے۔
خواہ تم اس کے بدن یا خاندان کے عیب کاذکرکرو
یا
اس کی فعلی، قولی، دینی یادنیوی کوتاہی بیان کرو۔
یہاں تک کہ اس کے لباس، مکان اور جانور کا عیب بیان کرنا بھی غیبت ہے۔
======================
جان لو!
- غیبت کے سلسلے میں اشارۃً گفتگوکرنااورسمجھنا صراحتاًگفتگو کرنے کی طرح ہے
اور
- ایسی حرکت جس سے مقصود سمجھ میں آجائے اس میں اورصریح گفتگو کرنے میں کوئی فرق نہیں
اور
- غیبت سننے والاغیبت کرنے والے کے ساتھ(گناہ میں) شریک ہوتاہے،
- غیبت توجہ سے سننا اورغیبت کرنے والے کی بات پر اظہارِتعجب بھی غیبت ہے ،
کیونکہ یہ بھی غیبت کرنے والے کی مدد کرنا اوراس کے ساتھ شریک ہوناہے۔
حضرت سیِّدُنا ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ،
شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ بشارت نشان ہے:
جوشخص اپنے (مسلمان)بھائی کی غیرموجودگی میں اس کی عزت کی حفاظت کرے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذمۂ کرم پرہے ، کہ وہ قیامت کے دن اس کی عزت کی حفاظت فرمائے گا۔
==================
(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب ذب المسلم عن عرض أخیہ، الحدیث۲۴۰، ج۷، ص۹ ۱۵)
=============================
کب غیبت کی رُخصت ہے؟:
غیبت کرنے کی اجازت اس وقت ہے جب شرعی طور پر کوئی صحیح مقصد ہو، اور یہ چھ صورتیں ہیں:
(۱) ظالم کی شکایت کرنا:
جس طرح کوئی شخص قاضی کے سامنے کسی کے رِشوت لینے یا ظلم وغیرہ کرنے کی شکایت کرے، یہ جائز ہے۔
(۲) مدد طلب کرنا:
یعنی برائی کو بدلنے اور گناہگار کو اِصلاح کی طرف لوٹانے کے لئے مدد طلب کرنا۔
(۳) فتوی کے لئے:
اس کی صورت یہ ہے ،کہ وہ اِس طرح کہے:
میرے باپ یا بھائی پر اس معاملہ میں ظلم کیا گیا، اس سے بچنا کیسے ممکن ہے؟
لیکن اس معاملہ میں اشارۃً کہنا زیادہ مناسب ہے۔
(۴) مسلمانوں کو برائی سے بچانا:
حضور نبئ پاک، صاحبِ لَوْلاک، سیّاحِ اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عالیشان ہے:
اُذْکُرُوا الْفَاجِرَ بِمَا فِیْہٖ مِنْ مُسَاوِیْہٖ یَحْذُرُہ، النَّاسُ۔
ترجمہ:فاجر کی برائیاں بیان کرو، تاکہ لوگ اس سے بچیں۔
================================
(الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، الرقم۳۶۱،الجارود بن یزید أبو الضحاک النیسابوری،ج۲،ص۴۳۰)
(۵) عیب والے نام سے معروف ہونا:
کوئی شخص اپنے کسی عیب کے ساتھ معروف ہو جیسے لنگڑا، اندھا تو اس صورت میں اسے اس نام سے پکارنے میں غیبت نہیں۔
(۶) اعلانیہ فسق کا مرتکب ہونا:
جو شخص اعلانیہ فسق کا مرتکب ہو جیسے ہیجڑا،شراب کی مجلس قائم کرنے والا اوراعلانیہ شراب پینے والا۔
نبئ مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسولِ اَکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عالیشان ہے:
مَنْ أَلْقٰی جِلْبَابَ الْحَیَاءِ عَنْ وَّجْھِہٖ فَلاَغِیْبَۃَ لَہُ۔
ترجمہ:جو شخص اپنے چہرے سے حیا کی چادر اتاردے اس کی غیبت نہیں ہوتی۔
=========
(مکارم الاخلاق لابن ابی الدنیا، باب ذکر الحیاء وما جاء فیہ، الحدیث۱۰۲،ص۸۷۔۸۸،بدون:عن وجھہ)
=============================
غیبت کے کفارے کا بیان:
جان لو!
غیبت کرنے والے پر لازم ہے کہ
- وہ شرمندہ ہو،
- توبہ کرے اور اپنے کئے پر افسوس کا اظہار کرے ،
تاکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حق سے باہر آجائے۔
- پھر جس کی غیبت کی تھی اس سے معافی مانگے تاکہ زیادتی سے برئ الذمہ ہو جائے۔
-لیکن جب معافی مانگے تو غمگین اور شرمندہ ہو۔
اورحضرت سیِّدُنا حسن بصری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اِرشاد فرماتے ہیں:
غیبت کرنے والے کے لئے استغفار کافی ہے، معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔
حضرت سَیِّدُنااَنَس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ خوشبودارہے:
کَفَّارَۃُ مَنِ اغْتَبْتَ اَنْ تَسْتَغْفِرَلَہٗ
ترجمہ:غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی تم نے غیبت کی اس کے لئے دعائے مغفرت کرو۔
===========
(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب کفارۃ الاغتیاب، الحدیث۲۹۳،ج۷،ص۱۸۸۔۱۸۹)
حضرت سیِّدُنا مجاہد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:
جب تم اپنے بھائی کا گوشت کھاؤ( یعنی اُس کی غیبت کرو)، تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ
اس کی تعریف کرو اور اس کے لئے بھلائی کی دعا مانگو۔
بہتر یہی ہے کہ اظہارِ ندامت کے ساتھ ساتھ معافی مانگی جائے۔
سولہویں آفت:
--------------
چغلی کھانا:
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:
ہَمَّازٍ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِیۡمٍ ﴿ۙ11﴾
ترجمۂ کنزالایمان:بہت طعنے دینے والا بہت اِدھر کی اُدھر لگاتا پھرنے والا۔
=========
(پ29، القلم:11)
حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:
غیر ثابت النسب(یعنی بغیر نکاح کے پیدا ہونے والا ) راز کو نہیں چھپاتا۔
اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص(راز کی) بات کو نہیں چھپاتا اور چغلی کھاتا ہے، تو یہ اس کے حرامی ہونے کی دلیل ہے، انہوں نے اللہ عَزَّوَجَلَّ کے اس فرمان سے اِستدلال کیا ہے:
عُتُـلٍّ بۢـَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیۡـمٍ ﴿ۙ13﴾
ترجمۂ کنزالایمان: دُرُشت خُو ا س سب پر طرہ یہ کہ اس کی اصل میں خطا۔
=========
(پ29،القلم:13)
زَنِیم سے مراد حرامی ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فرمانِ حقیقت نشان ہے :
وَیۡلٌ لِّکُلِّ ہُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِۣۙ﴿1﴾
ترجمۂ کنزالایمان: خرابی ہے اس کے لئے جو لوگوں کے منہ پر عیب کرے، پیٹھ پیچھے بدی کرے۔ (پ30، الہمزۃ: ا)
ھُمَزَۃٍ سے مراد بہت زیادہ چغلی کھانے والا ہے۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:
حَمَّالَۃَ الْحَطَبِ ۚ﴿4﴾
ترجمۂ کنزالایمان: لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھاتی۔ (پ30 ،اللہب:4)
کہتے ہیں کہ وہ چغلی کھانے والی اور باتوں کو اِدھر اُدھر پہنچانے والی تھی۔
اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا:
فَخَانَتٰہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنَ اللہِ شَیْـًٔا
ترجمۂ کنزالایمان: پھر انہوں نے ان سے دغا کی تو وہ اللہ کے سامنے انھیں کچھ کام نہ آئے۔(پ28 ،التحریم:10)
حدیث ِ پاک میں ارشاد ہے:
لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ قَتَّاتٌ
ترجمہ:چغل خور جنت میں داخل نہ ہوگا۔
=====================
(صحیح البخاری، کتاب الادب، باب مایکرہ من النمیمۃ، الحدیث۶۰۵۶،ص۵۱۲)
قتَّات سے مراد چغل خور ہے، اس کے متعلق بہت سی احادیث ِمبارکہ وارد ہیں۔
=================
چغلی کی تعریف:
چغلی کی تعریف یہ ہے کہ ایسی بات ظاہر کرنا جس کا ظاہر کرنا ناپسند ہو۔خواہ وہ ناپسند کرے جس سے سنی گئی یا جس کے بارے ميں سنی گئی یا کوئی تیسراآدمی ناپسند کرے۔ خواہ بول کریا لکھ کر اس کا اظہار ہو یا اشارہ، کنایہ سے ہو۔
پس چغلی کی حقیقت پوشیدہ بات کو ظاہر کرنا اور اس سے پردہ ہٹانا ہے۔
سترہویں آفت:
-------------
منافقت:
منافقت یہ ہے کہ کوئی شخص آپس میں مخالف دو اشخاص میں سے ہر ایک کے پاس جائے اورہر ایک سے اس کے موافق بات کرے، یہ عین نفاق ہے۔
چنانچہ حضرت سیِّدُنا عمار بن یاسررضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے،
حضور سیِّدُ المبلغین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عبرت نشان ہے:
مَنْ کَانَ لَہٗ وَجْھَانِ فِی الدُّنْیَا کَانَ لَہٗ لِسَانَانِ مِنْ نَّارٍ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ۔
ترجمہ:جو شخض دنیا میں دو چہروں والا ہو بروزِ قیامت اس کی آگ کی دوزبانیں ہوں گی۔
===========================
(سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی ذی الوجھین، الحدیث۴۸۷۳،ص۱۵۸۱)
حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ
نبئ رحمت، شفیعِ امّت، قاسمِ نعمت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عالیشان ہے:
بروزِقیامت تم اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندوں میں سے سب سے برا اس شخص کو پاؤ گے جس کے دوچہرے ہیں جواِدھر کچھ کہتا ہے اور اُدھر کچھ کہتا ہے۔
دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:
جو ان کے پاس ایک چہرے سے آتا ہے اور دوسروں کے پاس دوسرا چہرہ لے کر آتا ہے۔
====================
(صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب خیار الناس، الحدیث۶۴۵۴،ص۱۱۲۰)
(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب ذم ذی اللِّسانین، الحدیث۲۷۷، ج۷، ص۸ ۷ ۱۔۱۷۹)
اٹھارہویں آفت:
-------------------
بے جا تعریف کرنا:
بعض مقامات پر تعریف کرنا منع ہے اور مذمت کرناتو صریح غیبت اورعزت کے درپے ہونا ہے اس کا حکم گزرچکا ہے،
- تعریف کرنے میں چھ آفات ہیں،
- چار آفات کا تعلق تعریف کرنے والے سے
- اور دو کا تعلق اس کے ساتھ ہے جس کی تعریف کی جائے۔
تعریف کرنے والے کے لئے آفات:
(۱)۔۔۔۔۔۔ حد سے بڑھ کر تعریف کرتا ہے یہاں تک کہ جھوٹ میں داخل ہو جاتاہے۔
(۲) ۔۔۔۔۔۔اظہارِ محبت کے لئے تعریف کرتاہے اور اس میں ریاء کاری کو داخل کر دیتاہے۔
(۳)۔۔۔۔۔۔بعض اوقات بغیر تحقیق کے بات کرتا ہے اور اس پر مطلع نہیں ہوتا۔
(۴)۔۔۔۔۔۔ ممدوح( یعنی جس کی تعریف کی جائے اس)کو خوش کرتا ہے حالانکہ وہ ظالم یا فاسق ہوتا ہے اور یہ جائز نہیں۔
نبئ اَکرم،رسولِ محتشم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عبرت نشان ہے:
إنَّ اللہَ تَعَالٰی یَغْضَبُ اِذَا مُدِحَ الْفَاسِقُ۔
ترجمہ:جب فاسق کی تعریف کی جائے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ ناراضگی فرماتا ہے۔
======================================
(موسوعۃ لابن ابی الدنیا، کتاب الصَّمْت وآداب اللِّسان، باب الغیبۃ التی یحل۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث۲۳۰، ج۷، ص۱۵۴)
ممدوح کے لئے آفات:
دو اعتبار سے تعریف ممدوح(یعنی جس کی تعریف کی جائے اس) کے لئے نقصان دِہ ہے۔
(۱)۔۔۔۔۔۔اس میں تکبر اور خود پسندی آجاتی ہے۔
(۲) ۔۔۔۔۔۔جب اس کی اچھی تعریف کی جاتی ہے توخوش ہوتا ہے اور اپنے نفس پر مطمئن ہوتا ہے اور اس کی کوتاہی کو بھول جاتا ہے لہٰذا اس کی نیکی کی کوشش میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
اسی لئے نبئ اَکرم، نورِ مجسم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
قَطَعْتَ عُنْقَ صَاحِبِکَ، وَیْحَکَ لَوْ سَمِعَھَا مَا اَفْلَحَ۔
ترجمہ :تم نے اپنے دوست کی گردن کاٹ دی،تیری خرابی ہو اگر وہ اسے سنتا تو کامیابی نا پاتا
============================
(المسند للامام احمد بن حنبل،حدیث ابی بکرۃ نفیع بن الحارث بن کلدۃ، الحدیث۲۰۵۳۵،ج۷،ص۳۳۴بتقدمٍ وتآخرٍ)
انیسویں آفت:
-------------
گفتگو میں چھوٹی غلطیوں سے لاپرواہی کرنا:
خصوصاً ایسی گفتگو میں غلطیاں کرنا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کی صفات کے متعلق ہو۔
اس کی مثال حضرت سیِّدُنا حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ
شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال،رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:
تم میں سے کوئی یہ نہ کہے:
جو اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے اور میں چاہوں، بلکہ یوں کہے: جو اللہ عَزَّوَجَلَّ چاہے پھر میں چاہوں۔
===============================
(ابن ماجۃ، ابواب الکفارات،باب النھی أن یقال ما شاء اﷲ وشئت، الحدیث۲۱۷،ص۲۶۰۴)
(یہ اس لئے فرمایا)کیونکہ عطف ِ مطلق میں(یعنی واؤ کے ذریعے عطف میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا ) شریک کہلانے کا وہم پایا جاتا ہے۔
سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگار عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ والاشان ہے:
لَا تَقُوْلُوْا لِلْمُنَافِقِ سَیِّدُنَا فَاِنَّہ، اِنْ یَّکُنْ سَیِّدَکُمْ فَقَدْ اَسْخَطْتُّمْ رَبَّکُمْ۔
ترجمہ:کسی منافق کو نہ کہو:اے ہمارے سردار! کیونکہ اگر وہ تمہارا سردار ہے تو تم نے اپنے رب کو ناراض کیا۔
=================================
(سنن ابی داؤد،کتاب الادب، باب لایقول المملوک ربی وربتی، الحدیث۴۹۷۷،ص۱۵۸۸)
تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نُبوت، مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِعظمت و شرافت، مَحبوبِ رَبُّ العزت،محسنِ انسانیت عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ والاشان ہے:
جو شخص کہے:
میں اسلام سے بری ہوں اگر وہ سچا ہے تو وہ اسی طرح ہے جس طرح اس نے کہا اور اگر جھوٹا ہے تو اسلام کی طرف صحیح و سالم نہیں پلٹے گا۔
=======================
(سنن ابی داؤد،کتاب الأیمان والنذور، باب ماجاء فی الحلف بالبراءۃ وبملۃ غیرالاسلام، الحدیث۳۲۵۸،ص۱۴۶۷،بتقدمٍ وتاخرٍ)
بیسویں آفت:
-----------
صفاتِ باری تعالیٰ کے متعلق سوال کرنا:
عام لوگوں کا اللہ عَزَّوَجَلَّ کے کلام اور صفات کے بارے میں سوالات کرنا کہ وہ قدیم ہيں یا حادث؟ اور ان کا ایسی باتیں کرنا فضول ہے بلکہ ان پر لازم ہے کہ ان چیزوں کے بارے میں جاننے کی بجائے عمل میں مشغولیت اختیار کریں کیونکہ اگر عام لوگ بھی ان مسائل میں دخل اندازی شروع کردیں تو کفریہ کلمات میں جاپڑیں گے اورانہیں اس کا شعور تک نہ ہو گا اور ان کا اس معاملے میں سوال کرنا اسی طرح ہے جس طرح گھوڑوں کی رکھوالی کرنے والے کا بادشاہی رازوں کے متعلق پوچھنا۔
حدیث ِ مبارک میں ارشاد ہے:
نَھٰی رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الْقِیْلِ وَالْقَالِ، وَکَثْرَۃِ السُّوَالِ، وَإضَاعَۃِ الْمَالِ۔
ترجمہ:اللہ کے رسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے بحث و مباحثہ کرنے، بکثرت سوال کرنے اور مال کو ضائع کرنے سے منع فرمایا۔
============================
(صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب ما یکرہ من قیل وقال، الحدیث۶۴۷۳، ص۵۴۳)
مختصر یہ کہ عام لوگوں کا حروف کے قدیم یا حادث ہونے کے متعلق بحث کرنا ایسے ہی ہے جیسے بادشاہ کسی آدمی کی طرف خط لکھے اور اس میں چند امور کا ذکر کرے اور وہ ان امور پر عمل کرنے کے بجائے اس بات پر وقت ضائع کر دے کہ اس خط کا کاغذ پُرانا ہے یا نیا۔پس ایسا شخص ضرور سزا کا مستحق ہوگا۔
وَصَلَّی اللہُ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَآلِہٖ وَسَلَّمَ۔
========================
ماخوذ از: لُبَابُ الْاِحْیَاء
ترجمہ بنام
اِحیاء العلوم کاخلاصہ
مُصنِّف
حُجّۃُ الاسلام
امام محمدبن محمدغزالی شافعی علیہ رحمۃ اللہ الوالی اَلْمُتَوَفّٰی۵۰۵ھـ
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberLorem Ipsum is simply dummy text of the printing and typesetting industry. Lorem Ipsum has been the industry's standard dummy text ever since the 1500s, when an unknown printer took a galley of type and scrambled it to make a type specimen book. It has survived not only five centuries, but also the leap into electronic typesetting, remaining essentially unchanged. It was popularised in the 1960s with the release of Letraset sheets containing Lorem Ipsum passages, and more recently with desktop publishing software like Aldus PageMaker including versions of Lorem Ipsum.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberIt is a long established fact that a reader will be distracted by the readable content of a page when looking at its layout. The point of using Lorem Ipsum is that it has a more-or-less normal
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThere are many variations of passages of Lorem Ipsum available, but the majority have suffered alteration in some form, by injected humour, or randomised words which don't look even slightly believable. If you are going to use a passage of Lorem Ipsum, you need to be sure there isn't anything embarrassing hidden in the middle of text.
John Doe
Posted at 15:32h, 06 DecemberThe standard chunk of Lorem Ipsum used since the 1500s is reproduced below for those interested. Sections 1.10.32 and 1.10.33 from "de Finibus Bonorum et Malorum" by Cicero are also reproduced in their exact original form, accompanied by English versions from the 1914 translation by H. Rackham.